خواتین کے عالمی دن کو سنجیدگی سے منانے کے لیے ان کے مسائل پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔ ذرا غور تو کیجیے عورت کے اصل مسائل ہیں کیا۔ عورت کے مسائل کو حل کرنے کے لیے کیا کوششیں ہوئی ہیں اور ان کوششوں کے نتیجے میں کیا نتائج حاصل ہوئے ہیں۔ آئیے ذرا سنجیدگی کے ساتھ ان مسائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ عورت کا پہلا مسئلہ تو وہیں سے شروع ہو جاتا ہے جب ذہنی بلوغت کی عمر کو پہنچے بغیر سولہ سال کی عمر میں اس کی شادی کر دی جاتی ہے جو کہ بد قسمتی سے سندھ کے علاوہ پورے پاکستان میں عورت کی شادی کی قانونی عمر ہے۔ یعنی آپ سوچیے سولہ سال کی عمر میں ایک لڑکی شناختی کارڈ نہیں بنوا سکتی، ووٹ نہیں ڈا ل سکتی، بینک میں اکائونٹ نہیں کھلوا سکتی، گاڑی نہیں چلا سکتی کیونکہ وہ اپنی شعوری عمر کو نہیں پہنچی، لیکن ماں بننے کے عمل سے گزر سکتی ہے ایک نئے خاندان کی ذمہ داری قبول کر کے زندگی کا نیا اور پیچیدہ سفر شروع کر سکتی ہے؟ اگر مان لیا جائے کہ سولہ سال کی لڑکی ایسا کر سکتی ہے تو پھر سولہ سال کا لڑکا ایسا کیوں نہیں کر سکتا؟ کیوں لڑکے کی شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال رکھی گئی ہے؟ سندھ وہ واحد صوبہ ہے جہاں لڑکے اور لڑکی دونوں کی شادی کی قانونی عمر اٹھارہ سال ہے، باقی ملک میں ایسا کیوں نہیں؟ واضح رہے کہ بچوں اور بچیوں کی شادی کی عمر میں فرق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی بھی ہے۔ بین الاقوامی قوانین تو چلیے بعد کی بات ہے، پاکستان کے اپنے آئین کے آرٹیکل 25-A کے مطابق پانچ سے سولہ سال کی عمر کے تمام بچوں کو مفت تعلیم دینا ریاست کی ذمہ داری ہے اور تضاد دیکھیے کہ ریاست ہی تعلیم حاصل کرنے کی عمر میں شادی کی اجازت دے رہی ہے۔ کیا ہی اچھا ہوخواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والے مارچ میں شریک خواتین کے ہاتھوں میں اٹھائے گئے پلے کارڈز پر بچیوں کی شادی کی عمر سولہ سے بڑھاکر اٹھارہ سال کرنے کا سنجیدہ مطالبہ درج کیا گیا ہو۔
دوسرا اہم مسئلہ یہ ہے کہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے جو اچھے قوانین حکومتوں کی جانب سے بنائے بھی گئے ہیں ان پر عمل درآمد اور آگاہی کا نظام نہ ہونے کے باعث وہ غیر موثر ہو کر رہ گئے ہیں۔ مثال کے طور پر 2016 میں خواتین کے تحفظ کا قانون بنایا گیا جس کے تحت تشدد کا شکار ہونے والی خواتین کی داد رسی کے لیے خصوصی سینٹرز قائم کیے جانے تھے۔ چار سال گزر گئے اس سلسلے میں اب تک صرف ایک سینٹر ملتان میں قائم ہو سکا ہے یوں حکومت کے اپنے ہی منصوبے پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث یہ قانون غیر موثر ہو چکا ہے۔ اس طرح خواتین کو ان کے کام کی جگہ پر ہراساں کرنے کے خلاف قانون بنایا گیا لیکن آگاہی مہم موثر نہ ہونے کے باعث بیشتر خواتین کو اپنے ہی حقوق سے آگاہی حاصل نہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کل خواتین کے عالمی دن کے موقع پر ہونے والے مارچ میں عورتوں کو تشدد سے بچانے کے لیے ان سینٹرز کے قیام کا مطالبہ کیا جائے جس کا وعدہ حکومت نے کیا تھا۔ یوں عورت مارچ اپنے نتائج کے اعتبار سے زیادہ معتبر ہو سکتاہے۔ خواتین پر ہونے والے تشدد، ناانصافی، امتیازی سلوک، بنیادی حقوق کی عدم فراہمی اور خواتین کے لیے ان جیسے دیگر مسائل پیدا کرنے میں مردوں کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ اپنی زندگی کے اہم فیصلوں کے وقت وہ اپنے باپ اور بھائی کی مرضی کا نشانہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مردوں کی شمولیت کے بغیر ان مسائل کا حل نہیں نکالا جا سکتا۔ لہذا ایک طرف جہاں عورتوں کوان کے حقوق دلانے کے لیے با شعور بنانے کی ضرورت ہے وہیں دوسری طرف آگہی کے اس عمل میں مردوں کو شامل کرنا بھی ضروری ہے۔ تو کیا ہی اچھا ہو خواتین کے عالمی دن کے موقع پر یہ مطالبہ بھی نظر آئے کہ مردوں کے اس معاشرے میں عورت کو حقوق دلانے کے لیے مردوں کی بھی تربیت کی جائے اور مردوں کو شعور و آگہی دینے کے پروگرام مرتب کیے جائیں۔
ایک اور مسئلہ چھوٹی عمر کے بچوں اور بچیوں کے ساتھ جنسی زیادتی کا بھی ہے۔ اس سلسلے میں جب بھی بچوں کو شعور دینے کے لیے نصاب پڑھانے کی بات کی جاتی ہے تو سیکس ایجوکشن کے نام پر معاشرے کے دو طبقات میں طوفانی بحث کا آغاز ہو جاتا ہے مگر ذرا غور کرنے پر اس مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے اور "بچوں کو حفاظتی تعلیم" کے نام سے نصاب پڑھایا جا سکتا ہے جس سے بچے کسی حد تک اپنی حفاظت کے قابل ہو سکیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ عورت مارچ میں بچوں اور بچیوں کی حفاظتی تعلیم کے مطالبے کے نعرے اور پلے کارڈز بھی شامل کر دیے جائیں۔ خواتین کا ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ انہیں اس معاشرے نے کمزوری کی تمثیل بنا دیا ہے اور ان کے لیے ایسے محاورے اور جملے نا دانستگی میں استعمال ہوتے ہیں جو ان کی تضحیک کرنے کے مترادف ہیں، یہاں تک کہ یہ جملے ہمارے ٹیلی ویژن اور ٹاک شوز میں بھی استعمال ہوتے ہیں۔ مثلا عورتوں کی طرح رونے کیوں لگے ہو، مرد کے بچے بنو، ہم نے بھی کوئی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں۔ یہ جملے سیاستدان اپنے مخالفین کے ساتھ گفتگو میں استعمال کرتے ہی اور نہیں جانتے کہ انجانے میں وہ عورت کی تذلیل کر رہے ہیں۔ عورت کی تعریف کرنے کے لیے بھی ایسے الفاظ استعمال کر دیے جاتے ہیں مثلا مردانہ وار مقابلہ کیا، مردوں کے شانہ بشانہ چلیں وغیرہ۔ مائیں بیٹی کی تعریف کرنے کے لیے کہہ دیتی ہیں یہ میری بیٹی نہیں بیٹا ہے۔ بھئی کیوں بیٹا ہے وہ بیٹی ہی ہے اس کے بیٹی ہونے میں ہی فخر محسوس ہونا چاہیے۔ لہذا ہر ایسا جملہ اور نعرہ ترک کر دینا چاہیے جس میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک جھلکتا ہو۔ یہ صرف سوچ کی تبدیلی کے ساتھ ہی ممکن ہے یہ صرف عورت کو احترام دینے اور اس کا جائز حق اسے دینے سے ہی ممکن ہے۔ مجھے امید ہے خواتین کے عالمی دن کے موقع پر انہیں ان کے تمام حقوق دلانے کے لیے نیک نیتی کے ساتھ جدو جہد کی جائے گی۔