میں حال کی بات اسلئے نہیں کر رہا کہ یہ سخت بد حالی کا شکار ہے۔ تھری جی، فور جی سے فائیو جی تک ہم آگے نہیں بڑھ رہے۔ اسی لئے مجھے اس کے تابناک ماضی اور مستقبل کے لامتناہی امکانات پر بات کرنا ہے۔ اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے لئے ایک وفاقی وزیر فواد چوہدری موجود ہیں اور وہ اپنے انداز سے در پیش چیلنجز سے عہدہ برا ہونے کے لیئے کوشاں ہیں۔
میں اکثر کہتا ہوں کہ پاکستان میں جس شخص کو انفارمیشن منسٹر لگایا جاتا ہے اسے ٹیکنالوجی کی شد بد نہیں ہوتی اور جسے ٹیکنالوجی کا قلم دان ملتا ہے وہ انفارمیشن کے تقاضوں سے آشنا نہیں ہوتا۔ سر دست ملک میں کوئی ایک شخص ایسا نہیں جو انفارمیشن منسٹر کے فرائض بھی بطریق احسن ادا کرنے کے قابل ہو اور ساتھ ہی ٹیکنالوجی کی نبض پر بھی ہاتھ رکھ سکے۔
ماضی میں ہمیں ٹیکنالوجی کے کئی شناور ملے ان میں مجھے میاں جاوید ہمیشہ یاد رہیں گے، وہ پی ٹی سی ایل کے سربراہ رہے۔ پھر پی ٹی اے کا محکمہ چلایا اور آگے چل کر انہوں نے پیمرا کے ادارے کے خدو خال واضح کئے اوراس ادارے کی بنیاد رکھی۔
جب وہ پی ٹی سی ایل کے چیئر میں تھے تو ملک میں فون کی سہولتیں عام ہو رہی تھیں۔ اس شعبے کا پھیلائو اس قدر زیادہ تھا کہ ایک بار میاں جاوید نے یہ خوش خبری بھی سنادی کہ کچھ عرصے بعد لوکل کال فری کر دی جائے گی مگر لگتا ہے کہ عوام کا خون نچوڑنے والی حکومتوں کو ان کی تجویز پسند نہ آئی کیونکہ اس شعبے سے تو حکومت کو اربوں کھربوں کی کمائی مل سکتی تھی۔ چنانچہ میاں جاوید کی خوش خبری شرمندہ تعبیر نہ ہو سکی مگر وہ ٹیلی مواصلات کے شعبے کو اس کی بلندیوں سے آشنا کر چکے تھے، یہ اس قدر مضبوط بنیاد تھی کہ آج اسی پر انفارمیشن ٹیکنالوجی کی فلک بوس عمارت تعمیر کی جا سکی ہے۔ اب آئی ٹی کی سرحدوں کا تعین نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا پھیلائو کرہ ارض پر محیط ہے۔ کیا چھوٹا کیا بڑا کیا مرد کیا عورت ہر کوئی اس سے اپنے اپنے انداز سے استفادہ کرنے میں مگن ہے۔ انسانیت کو جبر کا شکار کرنے کے لئے بھی آئی ٹی کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ پچھلے سال پانچ اگست سے نوے لاکھ کشمیریوں کے لئے آئی ٹی کی تمام سہولتیں بند ہیں۔ لینڈ لائن، موبائل انٹرنیٹ وائی فائی اور سوشل میڈیا غرضیکہ ہر سہولت ناپید ہے اور کشمیر کو صرف اسی ایک ہتھیار کے ہاتھوں انسانی حقوق کی ابتر مثال بنا دیا گیا ہے۔
آئی ٹی نے دنیا کو تیز رفتاری ترقی کی شاہراہ پر گامزن بھی کیا ہے اورا سکی وجہ سے کئی ممالک کو پریشانیاں بھی لاحق ہیں جیسا کہ بھارت نے اس شعبے کو جبر اور ظلم کا ایک ذریعہ بنا لیا ہے۔ امریکہ میں نائن الیون کے بعد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز ہوا تو امریکی ہوم لینڈ سیکورٹی کے لئے سوشل میڈیا پر قدغن عائد کرنا ایک درد سر بن گیا کیونکہ اس پلیٹ فارم کو ہر کس و ناکس استعمال کررہا تھا، دہشت گرد بھی اسی کو ذریعہ اظہار بنا رہے تھے اور دہشت گردی کو کچلنے والی قوتیں بھی ا سی کاسہارا لے رہی تھیں۔ ایک موقع پر جب مسئلہ لاینحل دکھائی دیتا تھا تو امریکی صدر اوبامہ نے آئی ٹی مالکان کو وائٹ ہائوس مدعو کیا، انہیں قومی تقاضوں سے آگاہ کیا مگر آئی ٹی مالکان کا ایک ہی جواب تھا کہ وہ آزادی اظہار کو سلب کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یہی وہ لمحہ تھا جب صدر اوبامہ نے کہا کہ میں آپ سب کو سیدھا جیل بھیج دوں گا۔ یہ سنتے ہی آئی ٹی مالکان کے ہوش ٹھکانے آ گئے اور انہوں نے آزادی اظہار کے فیشنی خیالات کو ذہن سے نکال دیا ور حکومت سے بھر پور تعاون کاا علان کیا۔ یہی کچھ برطانیہ میں بھی ہوا۔
چند برس قبل ملک میں بچوں کے ساتھ جرائم کی شرح بڑھ گئی اور لوگ لائیو کیمروں کے سامنے خود کشیاں کرنے لگے تو برطانوی ویزرا عظم کیمرون نے بھی آئی ٹی مالکان کو بلایا اورا ن سے درخواست کی کہ وہ معاشرے کی اخلاقیات کے ساتھ نہ کھیلیں۔ اس پر مالکان نے وہی آزادی اظہار کا فیشنی اعلان کیا اور برطانوی وزیر اعظم کو بھی وہی دھمکی دینا پڑی جو امریکی صدر نے دی تھی، اب برطانیہ میں اخلاقیات کی دھجیاں کم ازکم سوشل میڈیا پر نہیں ادھیڑیں جاتیں۔
پاکستان میں دیگر وجوہات کی بنا پر سوشل میڈیا نشانے پر ہے مگر سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ اس ٹیکنالوجی کو دوسروں کی عزت اچھالنے، بے بنیاد اور جھوٹ پر مبنی اور من گھڑت الزامات کی تشہیر کے لئے استعمال نہ کیاجائے۔ اس مقصد سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا، فواد چوہدری اس سلسلے میں خاصے متحرک دکھائی دیتے ہیں۔ انہیں یہ کام ترجیحی بنیادوں پر کر گزرنا چاہئے مگر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور سے بھر پور استفادہ کرنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لئے افسر شاہی کو محض خزانہ بھرنے سے غرض نہیں ہونی چاہئے۔ موبائل فونز پر ڈیوٹی اور دیگر تمام ٹیکس واپس لئے جائیں۔ لیپ ٹاپس اور وڈیو ایڈیٹنگ اور میڈیا کے استعمال کے کیمرے ا ور دیگر ہر قسم کے سامان کو سستا بنایا جائے۔ سام سنگ نوٹ ٹین۔ آئی پیڈ سکس۔ آئی فون الیون پرو میکس عیاشی کا سامان نہیں بلکہ جدید تریں ٹیکنالوجی کے تیز رفتارآ لات ہیں بھارت میں سام سنگ نوٹ ٹین کے ساتھ واقعات کی ویڈیو آڈیو کوریج کی جارہی ہے۔ یہ تمام مصنوعات جدیددور کے ساتھ چلنے کے لئے ناگزیر ہیں۔ ان پر فوری طور پر ہر قسم کی ڈیوٹی اور ٹیکس واپس لئے جائیں تاکہ ملک میں علم و ہنر کوفروغ مل سکے۔
اب اس سارے معاملے میں میاں جاوید کا نام کیسے آیا، اس لئے آیا کہ میں انہیں پاکستان میں ٹیکنالوجی کا بابائے آدم سمجھتا ہوں اور ڈاکٹر عطاالرحمن، ڈاکٹر عمر سیف اور ڈاکڑ عثمان مبین جیسے جوہر قابل قوم کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔
میاں جاوید سے بیس پچیس برس بعد بات ہو رہی تھی اور وہ بھی ان کا تعزیت کے لئے فون آیا تو میں نے پوچھ لیا کہ ان دنوں کیا شغل ہے۔ کہنے لگے۔ پنڈی کے الشفا آئی ہسپتال کا ٹرسٹی ہوں اوراسوقت ایک اور ٹرسٹی اقبال فرید کے جنازے میں ہوں۔ اقبال فرید سے مجھے ڈاکٹر عبدالعزیز یاد آگئے جن کی وفات کے بعد ان کے ایک عزیز اور واپڈا کے سیکرٹری بریگیڈیئر ادریس اور ایبٹ آباد کے معروف ڈاکٹر اسلم کی وفات کا علم ہوا۔ دل دکھی ہوا۔ یہ لوگ اپنے پیشے میں نامور تھے۔
اب واپس ٹیکنالوجی کی طرف آتا ہوں۔ میاں جاوید کو اپنی بینائی کی خرابی کا بتایا تو انہوں نے الشفا کی ڈاکٹر مہرین سے کہا کہ وہ مجھے ہسپتال میں دستیاب سہولتوں اور ٹیکنالوجی سے آگاہ کریں۔ نظر کی کمزوری۔ اس کے علاج اورا س کے لئے امدادی مشیشنری، بہت کچھ موجود ہے مگر سب کچھ دو لاکھ تین لاکھ اور چھ لاکھ تک۔ بہتر ہو گا کہ ہماری فلاحی تنظیمیں اس ضمن میں سرگرم کرادر ادا کریں اور حاجت مندوں کی دست گیری کریں۔ بڑھاپے میں کسی معذور کے لئے لاکھوں کی مشینیں خریدنا ایک ڈرائونے خواب سے کم نہیں۔ جدید ٹیکنالوجی کو خوش آمدید مگر ذرا سستی تو کی جائیں۔