Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Deewar Pe Naqsh Tareekh Aur Sumera Amin

Deewar Pe Naqsh Tareekh Aur Sumera Amin

موضوع اگر دیوار ہو تو بھلا کیا لکھا جا سکتا ہے۔ ایک دیوار اکبر بادشاہ نے چنوائی۔ دیوار کی کہانی ابھی تک تاریخ کی دستاویزات میں معمہ ہے لیکن انارکلی کے کردار سے وابستہ حسن، رومان اور بے بسی نے اس کہانی کے ہر کردار کو محفوظ کر لیا ہے۔ ایک دیوار سمیرا امین نے بتائی ہے۔ اس کا میٹریل ظلم اور اختیار سے نہیں بنا، حیران کن تلاش، موضوعات، رنگوں اور تاریخ سے تخلیق کر کے پنجاب یونیورسٹی فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کے داخلی حصے میں چن دی گئی ہے۔ ہم لکھتے ہیں، سمیرا نے صدیوں کو اس دیوار پر بنا دیا ہے۔

سمیرا امین ان دنوں اندرون لاہور کی پرانی حویلیوں اور مکانات کی بحالی کے بعض منصوبوں میں شامل ہے۔ ان حویلیوں کی چھتوں کے گنبد، محرابیں اور جھروکے کئی فنکارانہ کہانیوں کی کتاب ہیں۔ کسی پھول کا رنگ مٹ گیا ہے، کسی پیڑ کے پتے معدوم ہو گئے ہیں۔ منگول اور مغل لشکروں کے نشان موجود تو ہیں لیکن ان کا پورا نقش نظر نہیں آ رہا۔ تاریخ کے کن ادوار میں کون سی مصورانہ کہانیاں عمارتوں کی چھتوں، دالانوں اور دیواروں پر مصور کی جاتی تھیں۔ ان کے رنگ کیسے بنتے تھے، ان کا میٹریل کیسا ہوتا تھا۔ سمیرا امین ان مٹے ہوئے نقوش کو اجاگر کر رہی ہے، بانس کی سیڑھی پر چڑھ کر لکڑی کے تختوں سے بنے پلیٹ فارم پر دنیا و مافیہا سے بے نیازہو کر ہر کوئی یہ کام نہیں کر سکتا۔

شاید آپ نے مائیکل اینجلو کا نام سنا ہو، اس فنکار نے 1508 سے1512 کے درمیان سسٹائن چیپل کی چھت پر مصورانہ فن کا مظاہرہ کیا۔ یہ گرجا گھر ویٹی کن سٹی میں واقع ہے۔ چھتوں پر جو مصوری کی گئی ہے اسے انجیل مقدس میں انسان کے روحانی ارتقا کے موضوعات کا عکس بتایا جاتا ہے۔ چند سال قبل سمیرا ایک نمائش میں شرکت کے لئے اٹلی اور ویٹی کن گئی تھی، گمان ہے کہ اس نے اسی دوران ایسا فنی تجربہ پاکستان میں کرنے کا تہیہ کیا، میرے سامنے یہ تجربہ ایک مختلف روحانی اور ثقافتی عناصر کے ساتھ آیا ہے۔

سمیرا اندرون شہر لاہور کی گلیوں میں گئی، رہائشی پریشانی کے شکار کسی خاندان نے اپنے گھر کو نئے سرے سے تعمیر کیا۔ چار پانچ سو سال پرانی اینٹیں ملبے میں پڑی تھیں۔ سمیرا یہ اینٹیں اٹھا لائی۔ اینٹوں کو صاف کیا گیا اور پرانے وقتوں میں استعمال ہونے والا سیمنٹ تیار کر کے آٹھ فٹ چوڑی اور نو فٹ اونچی دیوار استوار کی گئی۔ اس دیوار کے بیرونی کناروں کو کینوس کے حاشیہ کی طرح چھوڑ دیا اور باقی حصے پر پلاسٹر آف پیرس کی پتلی سی تہہ کا پلستر کر دیا۔ پلستر تیار ہونے کے بعد اسے منی ایچر کی صورت میں پینٹ کرنا تھا۔ موضوعات کے تصویری ٹکڑے تیار کئے گئے۔ ایک ٹکڑا دو فٹ چوڑا اور دو فٹ لمبا سمجھ لیں۔ منی ایچر مصور کا کام بہت باریک ہوتا ہے۔ اتنا باریک کہ مجھے درختوں کے پتوں کے ریشے دیکھنے کے لئے محدب عدسہ استعمال کرنا پڑا۔ دیوار پر ایسے پتے لاکھوں کی تعداد میں بنے ہیں۔ اب اندازہ لگا لیں شاہی محل کے جھروکوں اور چالیوں کے ڈیزائن کو نقش کرتے ہوئے مصور جب روشنی، سائے اور چمک کا تاثر اجاگر کرتا ہے تو اس کی مہارت کس قدر داد پاتی ہے۔

پلستر کی بیس کا رنگ شفق جیسا ہے۔ یہ ایرانی مصوروں کا فارمولا ہے۔ منی ایچر مصوری کی روائت ہندوستان میں ایرانی فنکاروں کے ذریعے پہنچی اس لئے اس کی جزئیات میں ایرانی مزاج، رنگوں کا امتزاج اور اشیا کی بناوٹ شامل رہی ہے۔ دیوار پر کئی کہانیاں ہیں۔ کہانی کا مجموعی موضوع اٹھارویں اور انیسویں عیسوی کا ہندوستان ہے۔ وہ ہندوستان جہاں بادشاہ اور ان کے مصاحبین امرد پرستی میں مبتلا تھے۔ اس موضوع پر لکھنا، بولنا اور تصویر کرنا آج مشکل ہے لیکن بادشاہ اور امرا یہ شوق رکھتے تھے۔ ایک بڑے موضوع والی کتاب میں جس طرح ابواب بندی موضوع سے جڑی تفصیلات کو بیان کرتی ہے اسی طرح سمیرا کی یہ دیوار دو ڈھائی سو سال کے ہندوستان کی تاریخ تو ہے لیکن یہ صرف بادشاہوں اور شاہی محل کے ذکر تک محدود نہیں۔

اس میں ناگ پھنی کے خاردار پودے ہیں۔ ان کے تنوں کیساتھ کھڑی کنیزیں ہیں۔ معلوم ہوتا ہے کنیزیں اس پودے کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ کانٹوں سے بھرے ناگ پھنی کنیزوں کے پائوں باندھے ہوئے ہیں۔ یہ تکلیف دہ روایات اور اقدار ہیں، جنہوں نے محروم اور استحصال زدہ طبقات کی زندگی میں دکھ بھر رکھے ہیں۔ اس زمانے میں غلام اور کنیزیں ان روایات کا شکار تھیں آج معاشی احتیاج کے مارے۔ کہانی نہیں بدلی۔ کرداروں کے چہرے تبدیل ہوئے ہیں۔

دیواری شاہکار ہزاروں پودوں اور ان پر کھلے، مرجھائے اور بکھرتے پھولوں کی کہانی بیان کرتا ہے۔ میں نے غور سے ان پھولوں کو شناخت کرنے کی کوشش کی۔ گل لالہ، نرگس اورسوسن ہیں۔ ان وقتوں میں یہ پھول ہندوستان میں نہیں ہوا کرتے تھے۔ یہ ایرانی پھول ہیں۔ مصوری کی روائت کے ساتھ اسی طرح شاہکار کا حصہ بنتے رہے۔ سمجھیں یہ عام آدمی ہیں۔ جو محل کے جھروکے اور بہشت نما باغات سے دور کھڑے ہیں۔ ان کا حسن کسی کو اپنی طرف مائل کرتا ہے نہ ان کی قدر کی جاتی ہے۔ یہ پھول مکڑیوں اور کیڑوں کی خوراک ہیں۔ مکڑیاں ان کا خون چوستی ہیں۔ میں نے مکڑی کے استعارہ کا پوچھا تو سمیرا نے انگریز استعمار بتایا۔ کہانی کا یہ باب اب مجھے سمجھ آ رہا تھا کہ بادشاہ اپنی محدود سی دنیا میں عیش و عشرت میں پڑے تھے اور عام آدمی کے گرد انگریز استعمار کی طاقت جالا بن رہی تھی۔

اپنے میٹریل اور موضوعات کے لحاظ سے سمیرا امین کا فن پارہ فریسکو آرٹ کہلاتا ہے۔ اس میں مصورہ نے اپنے منی ایچر آرٹ کی مہارت کو شامل کر کے نیا روپ دیا ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے فائن آرٹس ڈیپارٹمنٹ کی سربراہ ڈاکٹر سمیرا جواد نے سمیرا امین کے آرٹ کو سامنے لانے میں قابل قدر کردار ادا کیا ہے۔ سمیرا کے کام کو شاہنواز زیدی، ڈاکٹر مرتضیٰ جعفری، مقصود ملک، ڈاکٹر بلال احمد، اسرار چشتی، ثمینہ نسیم، سائرہ قیوم، انیلہ ذوالفقار اورکامران لاشاری سراہتے ہیں۔ ڈاکٹرکنول خالدان کی ستائش کرتی ہیں۔ میرے خیال میں قارئین کا ذوق جمال کالم کے ذریعے بھی بڑھایا جا سکتا ہے۔ اگر غلیظ اور عامیانہ موضوعات کا اثر ہو سکتا ہے تو سمیرا امین کے شاہکار کو موضوع تحریر بنانے کا اثر بھی یقینا ہوتا ہو گا۔