Tuesday, 19 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Editor Ki Maut

Editor Ki Maut

سن انیس سو ستانوے کی بات ہے، روزنامہ دن میں ٹرینی سب ایڈیٹر تھا جب قدرت اللہ چودھری بطور ایڈیٹر آئے۔ ایثار رانا صاحب اور پھر نوید چودھری صاحب نے ابتدائی تربیت کی۔ قدرت اللہ چودھری آرٹ ایڈیٹروں کے ٹیبل پر آتے، ہر صفحہ چیک کرتے۔ میں ان کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ جونہی چودھری صاحب کسی ضمنی میں غلطی پکڑتے، سرخی میں املا یا واقعاتی نقص کی نشاندہی کرتے یا پھر خبر کے متن میں غلطی نکالتے میں فوراً کمپیوٹر سیکشن میں جا کر درست کروا لاتا۔ میں اور احمد ظہیر حیران ہوا کرتے کہ چودھری صاحب کی نظر ہمیشہ وہاں پڑتی ہے جہاں غلطی چھپی بیٹھی ہو۔ بعد میں جب مجھے کاپی چیک کرنے کا موقع ملا تو چودھری صاحب سے سیکھاہواکام آیا۔

انگریزی سے اردو ترجمہ کی اچھی استعداد کی وجہ سے مجھے انٹرنیشنل ڈیسک پر بھیجا گیا۔ گوہر بٹ، فوزیہ طفیل اور آج کے نامور شاعر اکرام عارفی میرے سینئر تھے۔ مجھے خبروں سے زیادہ کالم لکھنے میں دلچسپی تھی۔ ایک روز ماحولیاتی مسائل پر لکھا اور قدرت اللہ چودھری صاحب کو پیش کر دیا، انہوں نے سرسری دیکھا اور پوچھا، آپ کو جو کام سونپا گیا ہے کیا وہ سیکھ گئے ہیں؟ چودھری صاحب کی شخصیت میں ایک رعب تھا، کوئی جواب نہ بن آیا۔ مجھے اپنی اس تحریر میں کوئی خامی نظر نہ آئی سو اس کی چند کاپیاں کرا لیں۔ ماجد یزدانی قدرت اللہ چودھری صاحب کے قریب تھے۔ میں نے ایک دن ماجد سے پوچھا: چودھری صاحب نے کسی کا ٹیسٹ لینا ہو تو کیا کرتے ہیں۔ بتایا گیا کہ دی نیشن میں سے کسی رپورٹ کا ترجمہ کرواتے ہیں، پھر اس ترجمے میں سے خبر الگ کراتے ہیں، سرخی بنواتے ہیں۔

اگلے دن میں پھر وہی کالم لے کر چودھری صاحب کے پاس چلا گیا۔ انہوں نے پہلے والا سوال دہرایا۔ اب کی بار میں نے کہا:جی مجھے کام آ گیا ہے آپ ٹیسٹ لے لیں۔ چودھری صاحب ہلکا سا مسکرا کر خاموش ہو گئے۔ اس واقعہ کے چند ماہ بعد فروری مارچ 1998ء میں اسلام آباد پنڈی سے روزنامہ دن کی اشاعت کا فیصلہ ہوا۔ رائو ندیم اور آرٹ ایڈیٹر یعقوب کھوکھر نے مجھے اسلام آباد جانے کا مشورہ دیا۔ ان کا خیال تھا کہ لاہور میں سب مجھے جونیئر سمجھ کر اہمیت نہیں دیں گے۔ دوسرے شہر جائوں گا تو ترقی کے مواقع بڑھ جائیں گے۔ ان ہی دنوں قدرت اللہ چودھری صاحب نے روزنامہ دن چھوڑ کر روزنامہ پاکستان اسلام آباد کو بطور ایڈیٹر سنبھالا۔ چند ہفتوں تک میری کارکردگی دیکھ کر ایڈیٹر فاروق فیصل نے ادارتی صفحات میرے حوالے کر دیے۔ میں نے سب سے پہلے اپنا وہی کالم لگایا جو دوبار چودھری صاحب کو پیش کر چکا تھا۔ اتفاق یہ ہوا کہ چودھری صاحب اسی روز فاروق صاحب سے ملنے ہمارے دفتر آ گئے۔

انہوں نے میرا کالم پڑھا اور فاروق فیصل صاحب کے سامنے تعریف کی۔ فاروق صاحب نے فوراً مجھے بلایا اور چودھری صاحب سے ملوایا۔ وہ مجھے پہچان گئے اور حوصلہ افزائی کی۔ ان کی حوصلہ افزائی بعد میں بھی جاری رہی۔ کوئی میرا ذکر کرتا تو چودھری صاحب ہمیشہ سراہتے۔ میرے اساتذہ اور سینئرز میں شامل اکثر شخصیات کا تعلق بائیں بازو سے ہے۔ حمید اختر، اطہر ندیم، حسین نقی، حلقہ احباب بھی انہی سے متعلق رہا۔ چودھری صاحب دائیں بازو کے نظریاتی تھے لیکن اخبار کے صفحات پر کسی دائیں بائیں کی بجائے صرف میرٹ کو اہمیت دیتے، اسی لئے ان کی وفات کی خبر نے صحافتی حلقوں کی ہر فکری پرت کو سوگوار کیا۔

روزنامہ دن راولپنڈی میں میگزین ایڈیٹر بنایا گیا تو مسعود سعد سلمان جیسے بزرگ میرے شعبے میں آ گئے۔ مسعود سلمان جب لاہور ہوا کرتے تو چودھری صاحب ان کی شاگردی میں رہے۔ میں نے دیکھا کہ چودھری صاحب ان کے ساتھ کس درجہ ادب اور محبت سے ملتے۔ مسعود سلمان بڑے خوددار انسان تھے وہ اس بات پر فخر کیا کرتے کہ قدرت اللہ چودھری ان کے ٹرینی ہیں۔

یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم بنے تو ایک روز چند کالم نگاروں کو لاہور والی رہائش گاہ پر مدعو کیا۔ قدرت اللہ چودھری، نجم سیٹھی، مستنصر حسین تارڑ، عبدالقادر حسن، امجد اسلام امجد اور مجھے موقع ملا کہ پی پی حکومت کی کارکردگی پر وزیر اعظم کے ساتھ تبادلہ خیال کر سکیں۔ چودھری صاحب مجھے دیکھ کر بڑے خوش ہوئے کہ میڈیا میں اپنے کام کی بنیاد پر حیثیت منوا رہا ہوں۔ حوصلہ افزائی پر مبنی ایسا رویہ کم ہی کسی اور میں دیکھا۔

ہارون الرشید صاحب اور ارشاد احمد عارف صاحب نے قدرت اللہ چودھری صاحب کی شخصیت کو ایک دوست اور ساتھی کے طور پر اجاگر کیا۔ میں تو ایک طالب علم ہوں جس نے صحافتی رکھ رکھائو، ایڈیٹر کا کردار اور اخبار کے کوالٹی کنٹرول کے ساتھ ساتھ یہ بھی سیکھا کہ ایڈیٹر کو باوقار ہونا چاہیے۔ بلا شبہ زمانہ بدل رہا ہے اب ایڈیٹر مالکان کو مشورہ دیتا ہے نہ پالیسی طے کرتا ہے۔ ایڈیٹر کے لئے اب ضروری نہیں رہا کہ وہ صاحب علم ہو، جو پیا من بھائے وہ ٹی وی چینل پر سینئر تجزیہ کار بن جاتا ہے، ایڈیٹر بن جاتا ہے۔ کئی حکومتوں میں ان کے دوست اعلیٰ منصبوں پر فائز ہوئے لیکن چودھری صاحب نے خود داری قائم رکھی۔ ان کو کسی ایسے کام میں ملوث نہیں دیکھا گیا جو پیشہ وارانہ وقار کے منافی ہو۔

اخبار کا ایڈیٹر مختصر اور واضح تحریر کی مہارت رکھتا ہے۔ ایڈیٹر قارئین کی دلچسپی کا مواد رپورٹروں کے ذریعے کھوجتا ہے۔ ایڈیٹر توازن برقرار رکھتا ہے، وہ ہنگامی حالات میں حواس باختہ ہوئے بنا معاملات اور سوچ کو درست سرے سے پکڑے رکھتا ہے۔ ایڈیٹر متجس اور تخلیقی ذہن رکھتا ہے۔ سب سے اہم بات یہ کہ وہ اپنی پروڈکٹ کے معیار پر سمجھوتہ کرتے ہوئے حکومت یا کسی پریشر گروپ کا دبائو قبول نہیں کرتا۔

دیگر شعبوں کی طرح میڈیا بھی مثالی شخصیات سے خالی ہوتا جا رہا ہے، یہاں مشہور ہونا دانشمند ہونے پر بازی لے گیا ہے، شاید اسی لئے کئی لوگ چودھری صاحب کی محنت اور رہنمائی سے مشہور ہوئے لیکن چودھری صاحب نے اپنے لئے مسلسل ریاضت کا راستہ چنا۔ قدرت اللہ چودھری ایسے ہی مثالی ایڈیٹر تھے، ایک عالمِ وفات پاتا ہے تو پورا عالَم مر جاتا ہے، ایک قدرت اللہ چودھری انتقال کر جائے تو آئیڈ ل ازم کی جان نکل جاتی ہے۔