چند ہفتے ہوئے سندھ کے ایک دیہاتی نوجوان آصف نے گیارہ موٹر سائیکلوں کو ایک جست میں عبور کرنے کا مظاہرہ کیا۔ یہ نوجوان چھوٹی نہروں کو بھی پار کر لیتا ہے۔ اس کے یہ کارنامے سوشل میڈیا پر پذیرائی پانے لگے۔ پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن کے صدر نے یہ ویڈیوز دیکھیں تو نوجوان کو تربیت کے لئے لاہور بلا لیا۔ اس اثناء میں پاکستان آرمی کے شعبہ سپورٹس نے اسے ملازمت دینے کا اعلان کیا۔ بیکاری اور بے روزگاری کا شکار اب یہ نوجوان پاکستان کی بین الاقوامی سطح پر نمائندگی کی تیاری کر رہا ہے۔ لانگ جمپ کا اولمپک ریکارڈ 8.9میٹر ہے۔ یہ 27فٹ کے قریب بنتا ہے۔ 11موٹر سائیکلوں کو ایک قطار میں کھڑا کر دیں تو ان کا مجموعی فاصلہ 22فٹ کے لگ بھگ ہو گا۔ ایک غیر تربیت یافتہ نوجوان کو لانگ جمپر کے طور پر اپنا کیریئر شروع کرنے کے لئے یہ صلاحیت کافی مدد دے سکتی ہے۔
چار پانچ روز ہوئے بھکر کے ایک دوسرے نوجوان دلاور خان نے 12موٹر سائیکلیں قطار میں کھڑی کیں اور ان کے اوپر سے چھلانگ لگاتے ہوئے زمین پر محفوظ انداز میں لینڈنگ کی۔ اس کا ٹیلنٹ بھی اولمپک ایسوسی ایشن اور محکمانہ سپورٹس باڈیز کی توجہ چاہتا ہے۔ ایک دو سال کی اچھی تربیت کے بعد ایسے نوجوان ملک کے لئے میڈل لا سکتے ہیں۔
اباجی گورنمنٹ فزیکل ایجوکیشن کالج میں ملازم تھے۔ قذافی سٹیڈیم کے بالکل ساتھ واقع اس کالج کو اب گورنمنٹ گلبرگ کالج کا نام دیدیا گیا ہے۔ ملازمین کے کوارٹرز وسیع و عریض کھیل کے میدانوں میں گھرے ہوئے تھے۔ ہم سارا دن کھیلتے یا ساتھ ہی واقع کوچنگ سنٹر چلے جاتے جہاں مختلف کھیلوں کے کوچز زیر تربیت کھلاڑیوں کو مشق کروا رہے ہوتے۔ یہاں کالج کے مالیوں، چوکیداروں، لانگریوں، خاکروبوں، نائب قاصدوں اور کلرکوں کے بہت سے بچے قومی سطح کے کھلاڑی بن کر ابھرے۔ ہم نے انیس سو اسی اور نوے کی دہائی کے ہیرو شمار ہونے والے لگ بھگ تمام قومی و غیر ملکی کھلاڑیوں کو قریب سے دیکھا، کرکٹ، ایتھلیٹکس، ہاکی، سائیکلنگ اور ریسلنگ کے کھلاڑیوں سے ہم ہاتھ ملایا کرتے، ان جیسا بننے کی کوشش کرتے۔ اباجی کو کھیلوں سے اتنی محبت ہے کہ جب میں نے باڈی بلڈنگ مقابلوں میں حصہ لینا شروع کیا تو مقابلہ لاہور میں ہونے کی صورت میں وہ لازمی دیکھنے آتے۔ جیت ہر بار نہیں ملتی۔ کبھی دوسرے بھی جیت جایا کرتے ہیں۔ یہ سبق میں نے کھیل سے سیکھا۔ ایک مقابلے میں میرا زیر تربیت انور قصائی ٹائٹل فائٹ میں میرے مقابل آ گیا۔ وہ مقابلے سے رضا کارانہ طور پر دستبردار ہو کر سٹیج سے اترنے لگا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ یہ مقابلہ وہ جیتا اور جیت کے بعد بھی ہمیشہ میرا احترام کرتا رہا۔
ایک بار میں نے کوٹ لکھپت میں اپنے ہیلتھ کلب کے لڑکوں سے کہا کہ وہ اپنے اردگرد چودہ پندرہ سال کے ایسے نوجوان تلاش کریں جن میں باڈی بلڈنگ کا قدرتی ٹیلنٹ ہو۔ چند روز بعد میرے پاس 3نوجوان لائے گئے۔ ان میں سے ایک یتیم تھا۔ والدہ کام کرتی تھیں وہ ویلڈنگ کا کام سیکھ رہا تھا۔ بازو، ٹانگیں اور کندھے مضبوط تھے۔ پیٹ تھوڑا چوڑا تھا لیکن چربی نہیں تھی۔ دوسرا طالب علم تھا، تیسرا راج مستریوں کا کام سیکھ رہا تھا۔ اس کا نام افضل تھا۔ چھوٹا قد اور جسم کا ہر حصہ مسلز سے بھرا ہوا۔ پیٹ کے پیکس اتنے گہرے کہ انگلی کی پور سما جائے۔ تانبے جیسی سرخی مائل رنگت تھی۔ اس کے ٹیلنٹ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ تین ماہ بعد ایک مقابلہ تھا۔ میں نے اسے صرف پوزنگ کی تربیت دے کر بھیج دیا اور وہ جونیئر چمپئن کا ٹائٹل جیت لایا۔ افسوس غربت نے اس کا کیرئیر جلد ختم کر دیا ورنہ وہ عالمی کھلاڑی بن سکتا تھا۔
ہمارے ہاں غریب اور نچلے طبقات کے پاس ریاست کے وسائل نہیں پہنچ پاتے۔ یہ خاندان اپنا ٹیلنٹ دیہاڑی کی تلاش میں ضائع کر دیتے ہیں۔ کچھ کو بااثر سیاستدان اپنا باڈی گارڈ یا نعرے لگانے والا بنا لیتے ہیں اور ان کی وہ صلاحیت بدمعاشی کی نذر ہو جاتی ہے جس سے یہ اپنے خاندان اور ملک کا نام روشن کر سکتے ہیں۔ ریاست اگر جاگتی ہو تو اپنے ہیرے جیسے ان نوجوانوں کو ڈھونڈتی ہے، ان کی صلاحیت کی قدر کرتی اور ان کی زندگی آسان بناتی ہے۔
پاکستان میں ہر کھیل کی ایک ریگولیٹری تنظیم ہے، فٹ بال ایسوسی ایشن، باڈی بلڈنگ ایسوسی ایشن، ہاکی ایسوسی ایشن، کرکٹ ایسوسی ایشن وغیرہ وغیرہ یہ تنظیمیں ضلعی اور تحصیل سطح پر موجود ہیں۔ مرکزی سطح پر ان کی تنظیم فیڈریشن کہلاتی ہے جیسے کہ پاکستان باڈی بلڈنگ فیڈریشن۔ ان مرکزی تنظیموں کو عالمی اداروں، کھیلوں کی تنظیموں اور امیر ممالک کی طرف سے فنڈز ملتے ہیں۔ کچھ فنڈز یہ مقامی سطح پر حاصل کرتی ہیں۔ ان تنظیموں کے عہدیداروں کو مفت غیر ملکی دورے کرنے کا موقع ملتا ہے، میڈیا میں ان کا بیان اہم شمار ہوتا ہے۔ پہلے کبھی کبھار پاکستان کا کوئی کھلاڑی یا ٹیم اولمپک مقابلوں میں میڈل لے آتے تھے۔ باکسنگ، ہاکی، کشتی وغیرہ میں کامیابی مل جایا کرتی۔ اب برسوں گزر گئے پاکستان کو اولمپک مقابلوں میں کوئی میڈل نہیں ملا۔ کھیلوں کی تنظیموں پر ایک ادارے کے ریٹائرڈ حضرات بیٹھے ہیں یا پھر سیاستدان، فنڈز اور دوروں کے اعتبار سے غیر اہم تنظیمیں مزید بری حالت میں ہیں۔ ہمارے پاس اچھے کوچ نہیں، سپورٹس میڈیسن، سپورٹس انجریز اور سپورٹس ٹیکنالوجی کی مطلوبہ مہارت نہیں۔ ، کھیلوں کے میدان نہیں، لوگ ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں، کسی کی کامیابی ہمیں ہضم نہیں ہو پاتی۔ ان حالات میں موٹر سائیکلیں پھلانگنے والے نوجوان کسی طرح اچھے کھلاڑی بن کر سامنے آ گئے تو ان کی خوش قسمتی ہو گی۔ اس لوگوں کے لیئے نہ کوئی بولتا ہے نہ لکھتا ہے، سب مایا ہے اور سب اس مایا کی کایا ہیں۔