کیا آپ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ پچھلے دو ہفتوں سے سیاسی خبروں کی تعداد بہت کم رہی ہے۔ مثلاً بلاول بھٹو کے بعد حمزہ شہباز جنوبی پنجاب گئے، کامیاب جلسے اور میٹنگز کیں۔ تحریک انصاف اور پی پی کے بعض بارسوخ افراد کو ن لیگ میں شامل کیا۔ سینٹ میں قائد حزب اختلاف یوسف رضا گیلانی اور ان کی بیٹی کو ایک بین الاقوامی پارلیمانی کانفرنس میں شرکت کی اجازت نہ دی گئی۔ دونوں کو ایئر پورٹ سے واپس آنا پڑا۔ پیپلز پارٹی نے بیان جاری کیا کہ ایک پارٹی کے لوگوں کو قید کی سزا کے باوجود علاج کے نام پر باہر بھیج دیا جاتا ہے اور دوسری جماعت کے رہنمائوں کو بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت سے روک دینا امتیازی سلوک ہے۔
بلا شبہ پیپلز پارٹی کا یہ شکوہ درست اور اس امتیازی سلوک کی کئی مثالیں ماضی میں محفوظ ہیں۔ لیکن اگر بعض فوجی تقرریوں پر اپوزیشن جماعتوں کے بیانات پڑھیں تو سیاسی خبریں کم ہونے کی وجہ سمجھ میں آ جاتی ہے۔ ابھی دیکھا جا رہا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کی پالیسی جاری رہتی ہے یا ندیم انجم سیاسی استحکام، معاشی امن اور سکیورٹی چیلنجز میں توازن برقرار رکھنے کے لئے نئی حکمت عملی ترتیب دیتے ہیں۔ یاد رہے سیاسی استحکام کے لئے تمام جماعتوں میں ایک سطح پر اتفاق پیدا کیا جانا لازم ہے۔
سردست اہم تبدیلیاں ٹی ٹی پی سے بات چیت اور کالعدم قرار دی گئی مذہبی تنظیم کے نوجوان سربراہ کی نظربندی کا خاتمہ ہے۔ یقینا ریاست ایسے فیصلے کرتے وقت شہریوں کے خدشات کو نظر انداز نہیں کرتی لیکن ایک نکتہ ہمیشہ پیش نظر رکھنا ہو گا کہ جس ریاست کا آئین ہوتا ہے وہاں ریاستی اختیار صرف حکومت کو حاصل ہوتا ہے۔ کوئی تنظیم، گروہ یا فرد واحد ریاست اور اس کے آئین کو چیلنج کرتا ہے تو وہ باغی کہلائے گا۔ مبہم اور غیر واضح سوچ والے بھلے انہیں ناسمجھ یا بھٹکے ہوئے قرار دے کر ان کے لئے نرم گوشہ ظاہر کریں۔
کیا آپ نے جائزہ لیا کہ ہماری سیاسی جماعتوں نے قومی معاملات پر رائے سازی کا کام مدت ہوئی ترک کر دیا ہے۔ بھٹو صاحب آخری لیڈر تھے جنہوں نے عوام کے مسائل کو قومی ترجیحات کی شکل دی۔ ان کے بعد عمران خان نے رائے سازی میں کردار ادا کیا اور کرپشن کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ منوا کر اقتدار حاصل کیا۔ بھٹو صاحب نے مزدور حقوق کے لئے یوم مئی کی چھٹی، اداروں کو قومیانہ، مزدور یونین کے قیام، لیبر عدالتوں کا قیام۔ اولڈ ایج بینیفٹ اور دیگر اقدامات کئے۔ مزدور سماجی طور پر ان اقدامات کے طفیل مضبوط ہوا لیکن اختیار ہمیشہ دولت مند طبقات کے پاس رہا ہے جو بیرونی طاقتوں سے مراسم رکھتے ہیں اس لئے مزدور با اختیار نہ ہو سکا۔ بھٹو صاحب کو راہ سے ہٹا دیا گیا۔ یہ سبق تھا کہ کوئی پاکستانی لیڈر عوام کو بااختیار بنانے کا خواب دیکھے نہ دکھائے۔ اس کے بعد جس قدر سیاست ہوئی وہ غیر سیاسی اور غیر عوامی ایجنڈے پر کی گئی۔ ڈرائنگ روم لیڈر جنم لینے لگے، پارٹیوں کے منشور بننے بند ہو گئے۔ عوامی مباحث کا خاتمہ ہو گیا۔ میڈیا کو رائے سازی کا ٹول بنایا گیا اور اسے بتا دیا گیا کہ کس معاملے پر بات کرنا ہے اور کس پر خاموش رہنا ہے۔
عمران خان نے جن دنوں نیٹو سپلائی روکنے کا مطالبہ کیا تو یہ عمومی سیاسی سوچ سے الگ بات تھی۔ عمران خان طالبان سمیت تمام عسکریت پسندوں سے لڑنے کی بجائے بات چیت کا مشورہ دیتے رہے اسی وجہ سے بعض مخالفین نے انہیں طالبان خان تک کہہ دیا۔ امریکہ اور بھارت سے تعلقات پاکستان کی خارجہ پالیسی کا رخ بتاتے ہیں۔ عمران خان اس رخ کو تبدیل کرنا چاہتے تھے۔ اب اگر ان معاملات پر لوگوں کی رائے بنائی جاتی تو ووٹر کو شاید کم دلچسپی ہوتی۔ اس دلچسپی کو بڑھانے کے لئے کرپشن کا تڑکا منتخب کیا گیا۔ بلا شبہ کرپشن نے ہر شہری کو پریشان کر رکھا ہے۔ پولیس کرپشن کی زد میں ہے۔ عدالتیں کرپشن سے آلودہ ہیں، نوکریاں فروخت ہوتی ہیں، ٹرانسفر پوسٹنگ کے نرخ مقرر ہیں۔ ہسپتالوں میں بنا جان پہچان کوئی پرسان حال نہیں۔ سکیورٹی اور کرپشن کو ملا کر ایک فارمولا تیار کیا گیا۔ یہ کام کر گیا اور عمران خان اقتدار میں آ گئے۔
منشور کی حد تک وہ مقبول رہے لیکن اس منشور پر عملدرآمد میں انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔ سکیورٹی امور سے متعلق پالیسی انٹیلی جنس اداروں اور فوج تک پہنچ چکی۔ اس پالیسی پر عمل ہوا، ہم نے دیکھا کہ افغانستان میں بھارت کا اثرورسوخ ختم کیا گیا اور طالبان واپس آ گئے۔ اب سکیورٹی پالیسی کے اس حصے پر عمل ہونا باقی ہے جو سیاسی قیادت کی ذمہ داری کہلاتا ہے۔ پاکستان کے حق میں سازگار ماحول بنانا، مذاکرات کے لئے اچھے نکات کا انتخاب، مستقبل کے تعلقات کو اس طرح ازسر نو تشکیل دینا کہ عسکریت پسندی کسی فریق کا ہتھیار نہ بن سکے، سب سے اہم بات یہ کہ سکیورٹی امور پر عوام کی رائے تشکیل دینے کے لئے ایک کھلی فضا فراہم کی جائے۔ جنگ کے بعد مذاکرات ہوتے ہیں، یہ کیسے ممکن ہے کہ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات ہونے کے بعد معاملہ طے ہو اور پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جن گروپوں کا سامنا کیا ہے انہیں یونہی چھوڑ دیا جائے۔ ان گروپوں کو انگیج کرنا ضروری ہے۔
کرپشن کے خلاف عمران خان سب سے زیادہ بات کرتے ہیں، کرپشن ایسی سپر پاور ہے جو حکمران اشرافیہ کی طاقت کا محور ہے، عمران خان کو ووٹ دینے والے طاقت کے اس محور کا خاتمہ چاہتے ہیں۔ بظاہر یہ ممکن نہیں کہ ان کی کابینہ اور ساتھیوں میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کی دولت غیر قانونی ہے۔
ہمارے ہاں جن لوگوں نے تیزی سے اگنے والی پوش آبادیوں میں محل کھڑے کئے ہیں وہ دولت کی نمائش کرتے ہیں لیکن کاغذات میں غریب نظر آتے ہیں۔ کسی کا باپ کماتا ہے اور کسی کا بیٹا اسے خرچ بھیجتا ہے۔ پینڈورا پیپر آنے پر غریب ملکوں کے امیروں کی تلاش شروع ہو گئی ہے۔ اس تلاش میں زیادہ شور ایک دوسرے کا نام لینے پر ہے، لاکھوں فائلیں ہیں جن کو کھنگالا گیا، پھر بھی لاکھوں باقی ہیں جن کا جائزہ لینا باقی ہے، اس صورتحال میں تجزیہ کیا جا سکتا ہے کہ اگلے ڈیڑھ سال میں عمران کیا تبدیلی لا سکتے ہیں؟