Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Islahat Aur Tehreek Insaf Se Alag Hone Ki Aawazain

Islahat Aur Tehreek Insaf Se Alag Hone Ki Aawazain

ہم سب انفرادی و اجتماعی مسائل کا شکار ہیں۔ انفرادی مسائل خاندان کے لوگ مل کر حل کر لیتے ہیں۔ اجتماعی معاملات کے لئے ریاست اور آئین کردار ادا کرتے ہیں۔ خاندان کی فہرست میں سے ہم نے بزرگوں کو خارج کر دیا۔ اب میاں بیوی اور بچے خاندان کہلاتے ہیں لہٰذا مسئلہ درپیش ہوتا ہے تو اکثر حل ہونے کی بجائے اس میں شدت آ جاتی ہے، ریاست ایک خاندان اور ادارے گویا اس کے افراد جیسے ہیں۔ ادارے ایک دوسرے کی بات نہیں سنیں گے تو دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی، اگر کچھ مشورے باہم نہ ہوں گے۔

ہمارے ہاں انتخابی عمل مختلف تنازعات کا شکار رہا ہے۔ انتخابی طریقہ کار، انتخابی عملے کی کارکردگی اور نتائج کی ترتیب سے متعلق شکایات عشروں سے موجود ہیں۔ انتخابات سے پہلے دھاندلی کے کئی واقعات موجود ہیں۔ بے نظیر بھٹو کو ہرانے کے لئے جب اپوزیشن کی مسلم لیگ ناکافی ثابت ہوئی تو دائیں بازوکی مختلف جماعتوں کو جمع کر کے اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دیا گیا۔ اس اتحاد کی مالی ضروریات پوری کرنے کی خاطر کئی مالیاتی اداروں میں عوام کی بچت کو استعمال کیا گیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ انتخابی دھاندلی کی کئی دوسری شکلیں سامنے آئیں۔ ہر سیاسی جماعت نے بلدیاتی انتخابات سے لے کر سینٹ انتخابات کی شفافیت تک پر سوال اٹھایا۔ سبھی جانتے ہیں کہ بلدیاتی اداروں کا انتخاب حکومتی جماعت کیوں جیتتی ہے۔ سینٹ انتخابات میں اراکین اسمبلی ووٹ دیتے ہیں۔ اصولی طور پر ایک تخمینہ لگایا جا سکتا ہے کہ کس جماعت کے کتنے ووٹ اسے سینٹ میں سیٹ دلا سکتے ہیں۔ اس حساب سے دیکھا جائے تو بالواسطہ انتخابات میں دھاندلی کا کوئی مسئلہ نہیں رہتا۔ وطن عزیز میں سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کی حالت یہ ہے کہ وہ اپنے ووٹوں کے تناسب سے ملنے والی نشستوں پر مطمئن نہیں رہتے اور غیر جمہوری ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنے حصے سے زیادہ نشستیں حاصل کرتے ہیں۔ ایک طویل مدت تک فاٹا سے قومی اسمبلی کے ووٹ فروخت ہونے کی شکایت رہی۔ اس طرح کی بری روایات کا فائدہ اٹھانے میں ماضی کی تمام حکمران جماعتیں شامل رہی ہیں، ان نقائص کا فائدہ سب کو ہوتا ہے لہذا کسی نے دھاندلی کا یہ راستہ بند کرنے کی کوشش نہیں کی۔

عام انتخابات میں دھاندلی کی بہت سی صورتیں دیکھی گئی ہیں۔ کراچی میں جو ہوتا رہا کیا اسے نظر انداز کیا جا سکتا ہے؟ 2013ء کے عام انتخابات میں کئی جگہ سے شکایت ملی کہ پنجاب پولیس کے اہلکار اپوزیشن جماعتوں کے ووٹروں کو جان بوجھ کر غلط پولنگ سٹیشن پر بھیج دیتے۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ ن کامیاب قرار پائی لیکن مولانا فضل الرحمن، آصف علی زرداری اور عمران خان جیسے سیاسی رہنمائوں نے انتخابی دھاندلی پر آواز اٹھائی۔ نتائج کو آر اوکا الیکشن کہا گیا تاہم پی ٹی آئی نے انتخابی دھاندلی کے بعد احتجاج کا فیصلہ کیا۔ احتجاج سے پہلے الیکشن کمیشن، عدلیہ اور پارلیمنٹ سے رجوع کیا گیا۔ ہمارے ہاں بر سر اقتدار جماعتیں تمام اداروں پر اپنا کنٹرول رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہیں، اس لئے اپوزیشن جماعت کسی پلیٹ فارم سے انصاف کی طلبگار ہو تو اسے براہ راست حکومت کے لئے چیلنج تصور کیا جاتا ہے۔

یہ صورتحال قابل رشک نہیں کہ تمام سیاسی جماعتیں دھاندلی اور عدم شفافیت کے باوجود انتخابی نظام کو منصفانہ اور شفاف بنانے کے لئے تجاویز پر متفق کیوں نہیں ہو سکیں۔ الیکٹرانک ووٹنگ مشین پر اپوزیشن راضی ہے نہ الیکشن کمیشن۔ اپوزیشن کو خدشہ ہے کہ ووٹنگ مشین اگلے انتخابات میں تحریک انصاف کے حق میں دھاندلی کے لئے بروئے کار آ سکتی ہے۔

یہ درست ہے کہ اپوزیشن انتخابی اصلاحات کے معاملے پر سنجیدگی دکھانے کی بجائے سیاسی مفادات کا کھیل رچائے ہوئے ہے۔ اس صورت حال سے کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ اپوزیشن اور حکومت کو اپنے طرز عمل پر ازسر نو غور کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف حکومت اس بات کا ادراک کرے کہ انتخابی اصلاحات کا بنیادی مقصد پورے نظام کو دھاندلی غیر شفافیت اور ناانصافی سے بچانا ہے۔ ایسا کرنے سے جمہوری عمل کی ساکھ اور اعتباریت باقی رہ سکتی ہے لیکن اگر اپوزیشن اور الیکشن کمیشن حکومت کی بعض تجاویز کو قابل قبول نہیں سمجھتے تو حکومت کی طرف سے زبردستی کی اصلاحات ایک بار پھر انتخابی نظام کو متنازع بنا سکتی ہے۔ انتخابی نتائج تسلیم نہ کرنے اور اس سلسلے میں عدم تعاون پر بضد اپوزیشن کو راضی کیے بنا اصلاحات کا عمل نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتا۔ حکومت نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے بل تو منظور کروا لیا ہے لیکن اگر اسے یکطرفہ طور پر نافذ کیا گیا تو اس کے نتائج اچھے آنے کی امید نہیں ہے۔

آئین میں ایسی کئی گنجائشیں رکھی گئی ہیں کہ حکومت اگر کسی ایک ایوان میں اکثریت نہ ہونے کی وجہ سے قانون سازی میں مشکلات کا شکار ہو تو وہ آئین کی شق 70سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سینٹ اور قومی اسمبلی کا مشترکہ اجلاس بلا کر کوئی بل منظور کروا سکتی ہے۔ پی ٹی آئی نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس آئینی سہولت کو استعمال کرے گی۔ مطلب یہ کہ اگلے انتخابات میں اوورسیز پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملے گا اور ووٹنگ کا عمل الیکٹرانک مشینوں سے انجام پائے گا۔ مان لیا حکومت یہ کارنامہ انجام دے سکے گی لیکن اپوزیشن اگر کھیل کے اصولوں میں تبدیلی کو یکطرفہ قرار دے کر نہ مانے تو کیا انتخابات ہو سکیں گے، کیا ان انتخابات کو دنیا تسلیم کرے گی، کیا لاکھوں اوورسیز ووٹوں سے پی ٹی آئی کو جو فائدہ پہنچے گا اسے اپوزیشن ہضم کر لے گی۔ اگر کوئی احتجاجی تحریک چلی تو تحریک انصاف اسے قابو کر سکے گی؟ جمہوری فیصلے دراصل مینڈیٹ کے حجم سے ہوتے ہیں۔ جتنی نمائندگی اتنے اختیارات۔ طاقت سے زیادہ وزن اٹھانے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے، تحریک انصاف سے الگ ہونے کی آوازوں سے یہ معلوم کیا جا سکتا ہے۔