دیہی زندگی شہر کی ہنگامہ خیز زندگی سے بہت پرسکون ہوتی ہے۔ ہم جودیہات کی پیداوار ہیں مگر روزی روزگار کی مجبوریوں نے ہمیں شہروں کی ہنگامہ خیز زندگی کے سپرد کر دیا ہے لیکن جب بھی شہری زندگی سے فرصت کے چند روزملتے ہیں ہم دیہاتی اپنے آبائی دیہات کو لوٹ جاتے ہیں کیونکہ ہم دیہات کی خاموش اور کسی حد تک پر امن زندگی سے دور نہیں ہو سکتے اور اسے فراموش نہیں کر سکتے۔
میں آج کل گائوں کی فطرت سے قریب تر زندگی سے لطف اندوز ہو رہا ہوں۔ برسات کے خوبصورت موسم میں بارشیں اپنا رنگ جما رہی ہیں، کھیتوں کی پیاس بجھ رہی ہے۔ کاشتکار اسی بارش میں گھروں سے دیوانہ وارنکل کر کھیتوں میں پہنچ جاتے ہیں تا کہ بارش کا زیادہ اور بے قابو ہو تو پانی کا مناسب راستہ بنا کر اسے کھیت سے باحفاظت نکال دیں اور زیادہ نہ ہوتو قدرت کے اس عطیہ کو مختلف کھیتوں میں تقسیم کر سکیں۔
گزشتہ چند روز میں برسات کی منہ زور بارش کا مشاہدہ بھی کیا ہے اور کاشتکاروں کو کھیتوں سے پانی نکالتے بھی دیکھا ہے۔ میں اپنے پہاڑی علاقے کی بات کررہا ہوں جہاں بارش میں پانی کے منہ زور نالے بہہ کر زمینوں میں داخل ہوتے ہیں اور پانی کے تیز بہائو سے زمین کو محفوظ رکھنا پڑتا ہے۔
بارانی علاقے کی سب سے بڑی خبر بارش کی ہوتی ہے اور برسات کی بارشیں کاشتکاروں کی زندگی میں نئی روح پھونک دیتی ہیں۔ اب کی بارعید اور برسات اکٹھی ہو گئی تو وادیٔ سون کے کاشتکاروں کی عید دوبالا ہو گئی ہے۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ گویا تمام خیر و عافیت انھی بارشوں کے قطروں میں بند رہتی ہے۔
ڈیرے کے برآمدے میں بیٹھ کر تیز بارش کی پھوار سے اپنے آپ کو بھگو دینادراصل روحانی ٹھنڈک پہنچاتا ہے پاس بیٹھے دوست احباب نے کہا بھی کہ آپ بارش سے بھیگ رہے ہیں ایک سائیڈ پر ہو جائیں لیکن میں ان کی بات سنی اَن سنی کر دی کہ مجھ جیسابارانی علاقے کا کاشتکار جو دیہات سے دور زندگی گزار رہا ہے اس کے لیے برسات کی یہ بارش روح کی ٹھنڈک ہے جو اس کی پیاسی زمینوں کی پیاس بجھا کر ان کو نئی زندگی اور بہار عطا کررہی ہے۔
لاہور کی ہنگامہ خیز زندگی سے کوئی تین سو کلو میٹر دور بارش کا یہ ناقابل فراموش اور غیر معمولی حسین منظر ہے۔ یہ باران رحمت بہت ہی باران رحمت ہے جس سے تمام زمینیں اور کھیت سیراب ہو رہے ہیں۔ فصلوں کو نئی زندگی مل رہی ہے۔ کسانوں کے چہروں پر رونق آگئی ہے، ان کی فصل کی پیداوار میں اضافہ ہو گا کیونکہ بارش اپنے ساتھ زرخیزی لاتی ہے جو کسی بھی فصل کے لیے نہایت ضروری ہے۔
پاکستان میں زراعت کو صنعت بنانے کے دعوے اور کوشش ہر دور میں کی جاتی رہی ہے لیکن ایک زرعی ملک کی قسمت میں زراعت کو صنعت میں تبدیل کرنا ممکن نہیں ہو سکا۔ شاید قدرت کویہ منظور نہیں ہے، وہ قدرت جو خالق ہے، زراعت کی زندگی اس کے رحم و کرم پر ہے اور قدرت ہمیں صنعتکاروں سے بچانا چاہتی ہے جو پہلے ہی عوام کی زندگی کا رس چوس کر اس میں زہر گھول چکے ہیں۔ پاکستان میں ہر موسم پایا جاتا ہے، قدرت نے اس ملک کو زراعت سے مالا مال کر رکھا ہے۔
بحیرہ عرب کے ساحل سے لے کر دنیا کی بلند ترین پہاڑی چوٹیوں تک زمین کی بدلتی ہوئی سطحیں اور ان کا بدلتا ہوا موسم دنیا کی ہر فصل اور پھل کے لیے موزوں ترین ہے۔ اعلیٰ درجے کے پھلوں کی افراط ہے۔ منڈیوں اور بازاروں میں پاکستانی اجناس کی وافر مقدار موجود ہوتی ہے لیکن پھر اچانک معلوم ہوتا ہے کہ زرعی ملک میں گندم بھی درآمد کی جارہی ہے اور چینی بھی۔
ہمارے ہاں اکثر منصوبے ملک کے لیے نہیں حکومتوں اور حکمرانوں کو خوش کرنے کے لیے شروع کیے جاتے ہیں اور ان کا حشر بھی ان کے حکمرانوں جیسا ہوتا ہے کہ حکمران چلا گیا تو وہ اپنے ساتھ یہ منصوبے بھی لے گیا، شاید یہی وجہ ہے کہ ہم زراعت اور صنعت میں آگے تو کیا بڑھتے جو کچھ موجود تھا، اس سے بھی محروم ہو گئے۔ یعنی وطن عزیز کے کھیتوں میں آباد لوگ صرف ووٹ دینے کے لیے پیدا ہوئے ہیں، وہ صرف ووٹر ہیں اور کچھ بھی نہیں ووٹ دینے کے بعد وہ سارے کے سارے بیشک مر بھی جائیں تو ہمارے سیاسی لیڈروں کو ان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔
میں اپنی بات کروں تو شہر میں پھنس کر فطرت کی فیاضی سے یکسر محروم ہو گیا ہوں۔ گائو ں میں جب اپنے بزرگوں کے کاشتکاردوستوں سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ بتاتے ہیں کہ آپ کے بزرگوں نے ان بارانی زمینوں کو کتنی محنت کے ساتھ تیار کیا تھا اور اپنی عمریں اس میں کھپا دی تھیں تو میں شرمندہ ہوجاتا ہوں کہ میں اپنے آبائو اجداد کے ان اثاثوں کی وہ قدر نہیں کر پا رہوں جو ان کا حق ہے۔
وراثتی حق کے تحت محکمہ مال میرے آبائو اجداد کی زمینیں نسل در نسل ہمیں منتقل کرتا آرہا ہے اور ان زمینوں پر ہمارا حق صرف اتنا ہے کہ ہم ان کو غیر آباد نہ ہونے دیں، آباد رکھیں اور اپنی آنے والی نسل کو منتقل کردیں۔ یہ ہمارا جدی پشتی ورثہ ہے جواب میری ذمے داری بن چکا ہے اور مجھے اسے بحفاظت آنے والی نسل کے سپرد کردینا ہے۔ ایسا ہی ہو گا کیونکہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے لیکن میں خود ان زمینوں سے بہت دور شہر میں بیٹھ کر اپنی روزی روٹی کا بند وبست کرتا رہوں گا کیونکہ ان بارانی زمینوں کی آمدن سے شہر کی مہنگی زندگی گزارنا اب ناممکن ہو چکا ہے۔