صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے بھجوائی گئی ایڈوائس پر سپریم کورٹ کے جسٹس یحیٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس آف پاکستان تقرری کی منظوری دیدی ہے نئے چیف جسٹس ہفتہ کو ایوانِ صدر میں منعقدہ تقریب میں حلف اٹھائیں گے۔
قبل ازیں گزشتہ سے پیوستہ شب چیف جسٹس کی نامزدگی کے لئے 26 ویں آئینی ترمیم کے بعد قائم ہونے والی پارلیمان کی خصوصی کمٹی نے ایک کے مقابلے میں آٹھ کی اکثریت سے جسٹس یحییٰ آفریدی کی چیف جسٹس کی حیثیت سے نامزدگی کی منظوری دی تھی۔
کمیٹی میں اس منصب کے لئے سپریم کورٹ کے تین سینئر جج صاحبان جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر اور جسٹس یحییٰ آفریدی کے نام زیرغور آئے۔ 12 رکنی پارلیمانی کمیٹی میں ابتدائی طور پر نامزد کئے جانے والے پی ٹی آئی کے تین ارکان نے بائیکاٹ کرتے ہوئے شرکت نہیں کی۔ 9 میں سے 8 ارکان نے یحییٰ آفریدی کے حق میں اور ایک رکن جے یو آئی کے سینیٹر کامران مرتضیٰ نے مخالفت کی۔
یاد رہے گزشتہ دنوں پارلیمان سے منظور ہونے والی 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کے عمل کو تبدیل کردیا گیا تھا۔ تبدیلی کا یہ عمل چند ماہ قبل لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کے انتخاب کے لئے جوڈیشل کمیشن کی جانب سے اپنائے گئے طریقہ کار کی صریحاً پیروی ہے یا وکلاء کے ایک گروپ کے مطابق یہ جسٹس منصور علی شاہ کا راستہ روکنے کا عمل؟ اس سوال کو بہرطور لاہور ہائیکورٹ میں دو سینئر ترین جج صاحبان کو نظراندز کرکے سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر آنے والی جج صاحبہ کو چیف جسٹس بنائے جانے کے طریقہ کار کی روشنی میں د یکھنے کی ضرورت ہے۔
ایک عمل جو جوڈیشل کمیشن کی پریکٹس میں درست قرار دیا جارہا ہو اگر اسی طرح کا عمل آئینی ترمیم کے ذریعے دستور میں مستقل بنیادوں پر متعارف کردیا جائے تو اس میں غلط کیا ہوا ہے؟
پارلیمانی کمیٹی سے جسٹس یحییٰ آفریدی کی بحیثیت چیف جسٹس تقرری پر پی ٹی آئی کے سینیٹر اور وکلاء کے ایک گروپ کے رہنما حامد خان نے مختلف ٹی وی چینلز پر دھمکی آمیز لہجے میں جو گفتگو کی اس پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے البتہ ان کی گفتگو سے یہ تاثر ابھرا کہ وکلاء کے ایک خاص گروپ کو جسٹس یحییٰ آفریدی کی بطور چیف جسٹس تقرری قابل قبول نہیں جبکہ دوسری جانب سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت کے علاوہ سندھ بار کونسل اور خیبر پختونخوا بار کونسل نے جسٹس یحییٰ آفریدی کی چیف جسٹس کے طور پر تقرری کا خیرمقدم کیا ہے۔
سپریم کورٹ بار کے صدر شہزاد شوکت ایڈووکیٹ کا کہنا تھا پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس اور جسٹس یحییٰ آفریدی کی چیف جسٹس کے طور پر نامزدگی دستورکے عین مطابق ہے۔ 26 ویں ترمیم کے بعد چیف جسٹس کی تقرری کا عمل تبدیل ہوگیا ہے انہوں نے دھمکی آمیز لہجے میں گفتگو کرنے والوں سے سوال کیا کہ آئین پر عمل کیسے غلط قرار پائے گا؟
اسی اثناء میں سابق حکمران جماعت پی ٹی آئی کے متعدد رہنمائوں نے وکلاء سے جسٹس یحییٰ آفریدی کی تقرری کے خلاف باہر نکلنے اور احتجاج کرنے کی اپیل کی ہے اس سے قبل گزشتہ روز خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ اگر سینئر جج کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس نہ بنایا گیا تو "ہم" وفاقی حکومت کا تختہ الٹ کر دم لیں گے۔
دریں اثناء یہ اطلاعات بھی ہیں کہ 26ویں آئینی ترمیم کو سپریم کورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے علاوہ لاہور ہائیکورٹ میں بھی چیلنج کردیا گیا ہے۔ ہر تین درخواست گزاروں کا کہنا ہے کہ 26 ویں آئینی ترمیم آئین کے بنیادی ڈھانچے اور اداروں میں اختیارات کی تقسیم کے خلاف ہے۔
ہمارے خیال میں اصل سوال یہ ہے کہ دھمکیاں دینے اور ترمیم کو مکمل ختم کرنے کی دھمکی دے کر 19ویں ترمیم کرانے والے ماضی میں سپریم کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس اور ان کے ساتھیوں نے آئین سپریم کورٹ، جمہوریت اور اختیارات کی تقسیم کے اس بنیادی ڈھانچے کی کیا خدمت کی تھی؟
کیا یہ تلخ حقیقت نہیں کہ 19 ویں ترمیم کے بعد عدالتوں بالخصوص سپریم کورٹ نے آئین کی تشریح کی بجائے آئین نویسی کے اختیارات سنبھال لئے۔ اس آئین نویسی کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔
امر واقعہ یہ ہے کہ دستور سازی اور دستوری ترامیم کے عمل میں پارلیمان کا حق فائق مسلمہ ہے۔ پارلیمان کے اختیارات کسی کو سونپے جاسکتے ہیں نہ ہی پارلیمان کو بند کرکے کوئی ادارہ یا محکمہ مرضی سے نظام حکومت چلانے کا حق رکھتا ہے۔ ثانیاً یہ کہ دنیا بھر میں عدلیہ کے ججز کی تقرری کا مروجہ طریقہ کار تقریباً یہی ہے۔
بعض ممالک میں تو بطور جج نامزدگی حاصل کرنے والے پارلیمانی کمیٹی میں اپنی نامزدگی کے دفاع کا حق بھی رکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ آگے چل کر ہمارے ہاں بھی ایسا ہو فی الوقت جو ہوا پارلیمان کے حق دستور سازی کے عین مطابق ہوا ہے۔
یہ سوال بہرطور اہم ہے کہ تحریک انصاف اور وکلاء کا ایک خاص گروپ جسے حامد خان لیڈ کررہے ہیں جناب جسٹس منصور علی شاہ کی نامزدگی پر کیوں مُصر تھا اور ہے۔ کیا وکلاء کا ایک گروپ اور کوئی سیاسی جماعت مرضی کا چیف جسٹس لگواسکتے ہیں؟ اس سے اہم بات یہ ہے کہ کیا دھونس اور احتجاج کی دھمکیوں پرحکومتوں کو سپر ڈال دینی چاہیے؟
اس فوری جواب یہ ہے کہ یہ ممکن نہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور سینئر قانون دان حامد خان ایوان بالا کے رکن بھی ہیں خود انہوں نے دو دن قبل ایک درخواست کی سماعت کے دوران آج ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے جو رویہ اپنایا وہ کیسے درست قرار پائے گا؟
ہماری دانست میں ملک کے چند بڑے لاء چیمبرز کے سربراہان جو وکلاء رہنما بھی ہیں۔ ہمیشہ اسی طرح کی دھونس سے کام لیتے آئے ہیں جوکہ درست نہیں۔
جمہوریت اور دستور کی سربلندی کا سینہ ٹھوک کر دعوے کرنے والوں نے کبھی اس بات پر احتجاج کیا کہ چھوٹے صوبوں کی عدلیہ میں نمائندگی کا حق کیوں پامال کیا جاتا ہے۔ نیز یہ کہ وفاق پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں چاروں صوبوں کی نمائندگی کا تناسب کیا ہے۔
یہاں ہم اس تلخ حقیقت کی نشاندہی ازبس ضروری سمجھتے ہیں کہ ماضی میں جونیئر ججز کو سپریم کورٹ میں لے جانے کےلئے سینئرز کو نظرانداز کرنے کی پالیسی انہی بڑے لا چیمبرز کے ایما پر بنائی گئی خود لاہور ہائیکورٹ میں چند ماہ قبل چیف جسٹس کی تقرری کے لئے جوڈیشل کمیشن نے جو طریقہ کار اپنایا اس کا جواز کیا تھا؟
بدقسمتی سے ہمارے ہاں افتخار چودھری بحالی والی تحریک نے بار اور بنچ میں ایسا عدم توازن پیدا کردیا ہے جس میں وکلاء رہنمائوں کی اکثریت مرضی کا جج اور مرضی کے فیصلے چاہتی ہے کیونکہ ہر دو چیزیں ان کی لیڈری کی دھونس " کاروباری تعاون " کو برقرار رکھنے میں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پارلیمان کے حق دستور سازی سے انکار بذات خود جمہوریت اور دستور پر حملہ ہے۔ مناسب یہی ہے کہ پارلیمان کے فیصلوں سے ا ختلاف رائے شخصیت پرستی پر نہیں دلیل کی بنیاد پر کیا جائے۔