Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Amri Huzoor Ki Gali Aur Dehleez Tak

Amri Huzoor Ki Gali Aur Dehleez Tak

حالیہ ملتان یاترا چھوٹے بھائی سید طاہر محمود بخاری کی پہلی برسی میں شرکت کے لئے تھی۔ گرمی سے ہلکان ہوئے بیمار شخص کے لئے بہنوں کا حکم ٹالنا ممکن نہیں تھا۔ انہی دنوں مرحوم بھیا ابو کی اہلیہ بھی ملتان آئی ہوئی تھیں اس لیئے بھی سفر واجب تھا۔ میں خونی برج چوک سے چند قدموں کے فاصلے پر آبائی گھر جانے والی گلی کے باہر رکشے سے اترا اہل محلہ سے دعا سلام کرتے دعائیں لیتے بڑی ہمشیرہ کے گھر کی سمت بڑھتا گیا۔

سڑک سے گلی میں داخل ہوں تو آگے میدان میں دائیں سمت کی مرکزی گلی میں ہماری امڑی حضور کا گھر ہوتا تھا اس مرکزی گلی میں داخل ہوتے ہی بائیں طرف مڑتی گلی میں پہلا گھر ہمشیرہ محترمہ کا ہے۔

اپنے خیالوں میں کھویا ہوا مرکزی گلی میں داخل ہوکر بائیں طرف مڑنے کی بجائے امڑی سینڑ والے گھر کی طرف بڑھتا ہوا دہلیز پر رک گیا۔ بے اختیار آنسو آنکھوں سے ٹپک پڑے۔ وہ گھر جس کا دروازہ سیدہ عاشو بی بی وعظ والیؒ کی زندگی میں نماز فجر سے نماز عشاء تک کھلا رہتا تھا اب نوتعمیر شدہ حالت میں تھا اور دروازہ بند۔

وہ گھر جس کے صحن میں ہم بہن بھائیوں نے قدم قدم چلنا سیکھا تھا وہ قدیم پتلی اینٹوں اور گاڑے سے بنا ہوا تھا۔ چھت وہی روایتی دو شہتیر، کڑیاں، ان کے اوپر پتلی اینٹیں پھر کانے کی پتل اوپر مٹی کا لیپ جو ہر سال برسات سے قبل اور بعد میں لازمی کروایا جاتا تھا۔

گھر میں داخل ہوں تو الٹے ہاتھ پر پہلے ہاتھ والا نلکا لگا ہوا تھا (سرکاری نل بہت بعد میں لگا) ایک بڑا دالان نما کمرہ جس کے دو سمت میں 6 دروازے تھے دالان نما کمرے میں ہی ایک چھوٹے کمرے کا دروازہ کھلتا تھا یہ ہمارے گھر میں سٹور کا کام دیتا۔ گرمیوں میں یہ چھ دروازے سورج کے سفر کے ساتھ بند ہوتے کھلتے البتہ دوپہر کے کھانے کے بعد سے نماز عصر تک یہ سارے دروازے بند رہتے تھے۔ پہلے پہل کپڑے سے بنا ایک بڑا پنکھا رسیوں سے شہتیر کے ساتھ بندھا ہوا تھا ایک رسی سے اسے کھینچا جاتا جس سے پورے کمرے میں ہوا پھیلتی تھی اس پنکھے کی رسی زیادہ تر امڑی حضور کے ہاتھ میں رہتی وہ اپنے لئے مخصوص تخت پوش پر بیٹھی نوافل و نماز اور ذکرواذکار کرتی رہتیں اور ساتھ رسی کھینچتی رہتی تھیں۔

بسا اوقات ان کی عقیدت مند خواتین میں سے کوئی پنکھے کی رسی ان کے ہاتھ سے لے کر اسے ہلانے لگتی۔ غالباًکچھ ہی عرصہ بعد رسی کھینچ کر پنکھا چلانے کی ذمہ داری باری کے ساتھ بہن بھائیوں کی ذمہ داری بن گئی۔

یہ ان ماہ و سال کی بات ہے جب ہمارے گھر میں بجلی نہیں تھی لاٹین اور دیئوں سے روشنی کی جاتی تھی۔ بچے کوشش کرتے کہ ہم اپنا سکول کا کام سورج غروب ہونے سے قبل کرلیں۔ اس گھر میں ہم کیوں اور کیسے آئے؟ کیونکہ اس سے قبل ہم اپنے ننھیالی محلے آجکل اسے ہمایوں محلہ کہتے ہیں"ڈبکراں دی وستی" میں نانی اور خالہ کے ساتھ والے گھر میں رہتے تھے۔

اپنی امڑی حضور سے بھی اتنا ہی جان پایا کہ ابو جان نے فوج سے رخصت کئے جانے کے بعد دو تین کاروبار کئے اور سرمایہ برباد کرلیا۔ دوسری طرف ہمارے مرحوم مامووں نے ہاتھ کی صفائی دیکھائی اور ساری جائیداد اونے پونے بیچ کر بہنوں کا حق غصب کرلیا۔

ان حالات میں امی جان نے ایک جاننے والی خاتون کی معرفت خونی برج میں واقع محلہ اسحق پورہ میں یہ گھر کرائے پر لیا تھا بہت بعد میں یہ گھر امی حضور نے خرید لیا۔ کچھ عرصہ بعد اس سے ملحقہ گھر ہماری بڑی ہمشیرہ نے خرید لیا۔ دونوں گھروں کے درمیان اندرونی راستہ ایک کھڑکی کے ذریعے بنا ہوا تھا درجنوں بار اس کھڑکی سے سر پھوڑا ہم سب بہن بھائیوں نے، یہ ساتھ والا گھر بھی ایک طویل عرصہ تک ہمارے خاندان کے پاس کرائے پر رہا۔

مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہمارے گھر میں میسکو والی بجلی کا میٹر لگنے سے چند ماہ قبل حاجی احمد حسن انصاری کے گھر سے ایک تار کے ذریعے بجلی لائی گئی تب چھت والا پنکھا بھی لگا اور دالان کمرے میں بلب بھی بعدازاں بجلی کا میٹر بھی لگ گیا۔ ٹی وی کا ہمارے گھر میں داخلہ بند رہا ایک عدد ریڈیو ضرور تھا جس پر امڑی حضور نعتوں کا پروگرام اور خبریں سنا کرتی تھیں۔ ان کی غیرموجودگی میں ریڈیو سے گانے سننے کی واردات چوری چھپے کی جاتی۔

نماز فجر کے لئے آذانوں کے ساتھ ہی ہمارے گھر کا واحد مرکزی دروازہ کھول دیا جاتا جو نماز عشاء کے بہت بعد بند ہوتا تھا۔ امڑی حضور کی عقیدت مند خواتین کا دن بھر ہجوم رہتا ان میں نوے فیصد امڑی کی منہ بولی بہنیں اور بیٹیاں ہوتی تھیں۔

گھر میں جو سالن بنتا وہ محلے کے دو تین گھروں میں ضرور بھیجا جاتا تھا۔ ہمارا بھی (ہم بہن بھائیوں) کا جب دل چاہتا کسی بھی گھر میں داخل ہوکر پوچھ لیتے خالہ، مامی، بُوا تساں کیا پکائے؟ اپنے بھاری بھرکم کنبے (ہم 14بہن بھائی تھے) کے ساتھ چند خاندانوں کی دیکھ بھال اور مہمان نوازی کے لئے امڑی حضور ہر وقت پیش پیش رہتیں۔

ان کا پیسوں والا رومال سارا دن کھلتا بند ہوتا رہتا۔ کبھی ہم میں سے کوئی منہ اٹھائے گھر میں داخل ہوتا تو امڑی ڈانٹتے ہوئے کہتیں دکھتا نہیں خالہ جان بیٹھی ہیں سلام کرو۔ دوسرے بھائی تو فوراً سلام کرلیتے میں اکثر کہتا امی جان، خالائوں، باجیوں اور مامیوں کی ایک لسٹ بناکر دے دیجئے۔ اس پر ہلکی پھلکی ڈانٹ پڑجاتی۔

بڑے مزے کے دن تھے۔ امی جان کو ان کی عقیدت مند خواتین جو نذرانے دیتیں یا وعظ کرنے کے دوران جو نیاز ملتی یہ رقم وہ مستحق خاندانوں کی اعانت پر خرچ کرتی تھیں۔ گھر کا نظام والد صاحب کی بھجوائی رقم سے چلتا تھا (وہ سعودی عرب میں ملازمت کرتے تھے)۔

بھلے وقت تھے ہمارے گھر سے ملحقہ ایک گھر میں شاگرد والے تعزیئے کے لائسنسدار ماموں عاشق کی فیملی رہتی تھی امی حضور یکم محرم الحرام سے بارہ محرم الحرام تک صبح کا ناشتہ دوپہر اور شام کا کھانا سالہا سال تک باقاعدگی سے ان کے گھر بھجواتیں۔ ایک بار ایک خاتون نے کہا، "بی بی جی اے عاشق آلے تا شیعہ ہن وت تساں انہاں کوں روٹی کیوں بھجویندے وے؟" امی جان رسان سے بولیں، "وہ سارا دن رسول اکرمﷺ کے نواسے امام حسینؑ اور شہدائے کربلا کا ذکر کرتے سنتے ہیں کون سا منڈوئے (سینما) جاتے ہیں۔ میں اس طرح اپنا حصہ ڈال لیتی ہوں"۔

ان کے اس جواب کے بعد پھر کسی کو جرات نہیں ہوئی کوئی بات کرنے کی۔ ہماری امی جان وعظ کرتی تھیں ملتان اور مضافات کے علاقوں میں اس لئے ملتانی لوگ آج بھی ہمیں وعظ والی بی بی کے بیٹے یا بیٹی کے طور پر شناخت کرتے اور احترام دیتے ہیں۔ ملتان کے صرافہ بازار کی انصاری برادری (ملتانی انصاری برادری کی اکثریت قدیم زمانے سے زرگری کے پیشے سے منسلک ہے) کے سینکڑوں خاندان امی جان کے عقیدت مند تھے ان خاندانوں کے سربراہ حاجی احمد حسن انصاری کی اہلیہ نے ہماری امی سے کبھی وعدہ لیا تھا کہ وہ انہیں چھوڑ کر نہیں جائیں گی۔ اسی وعدے کی پاسداری میں امڑی حضور کی تربت ہمارے آبائی قبرستان کی بجائے پیر عمر کے قبرستان کے اس حصے میں ہے جو انصاری برادری کی ذاتی ملکیت ہے۔

ہمارے بھیا ابو مرحوم نے انصاری برادری کی جانب سے امی حضور کا کبھی نہ چھوڑ کر جانے والا وعدے یاد دلانے پر قبر کی زمین کی قیمت کا تخمینہ لگواکر رقم خیرات کردی اور یوں حاجی احمد حسن مرحوم کی اہلیہ سے ہوا امی جان کا وعدہ پورا ہوگیا۔

گزرے ماہ و سال کی یادیں بالخصوص امڑی حضور کے شہر گلی محلے اور گھر کی یادیں باتیں مجھے کہاں سے کہاں لے گئیں۔ میں آنکھوں سے آنسو صاف کرتا ہوا امڑی حضور کے سابقہ گھر کی دہلیز سے پلٹا اور بہنوں کی قدم بوسی کے لئے بڑی ہمشیرہ کے گھر کی طرف آگیا۔

بہنوں کی قدم بوسی میرے لئے تو امڑی حضور کی قدم بوسی جیسی عبادت ہی ہے۔ بہنوں کو اللہ تعالیٰ صحت و سلامتی کے ساتھ شادوآباد رکھے وہ بھی امڑی جائی ہونے کا حق ایسے ادا کرتی ہیں جیسے امڑی ہوں۔

مجھے تو ملتان کُل جہان سے زیادہ عزیزو محبوب ہے کیوں نہ ہو اس کی مٹی میں میرے ننھیال کے علاوہ والد محترم، امڑی حضور، ایک بہن اور ایک بھائی مدفون ہیں خود میری بھی حسرت یہی ہے کہ مرنے کے بعد ملتان کی مٹی نصیب ہو، ہوگا کیا یہ تو وقت بتائے گا۔