کہا بتایا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت اور عدلیہ کے درمیان بداعتمادی کی خلیج مخصوص نشستوں کے حوالے سے سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے سے مزید گہری ہوگئی ہے۔ حکومت سمجھتی ہے کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل کی مخصصوص نشستوں کے حصول کے لئے دائر درخواست مسترد کرتے ہوئے یہ نشستیں تحریک انصاف کو دینے کا جو حکم دیا گیا وہ انتخابی قوانین اور آئین کی محض من پسند تشریح ہی نہیں بلکہ یہ فیصلہ آئین نویسی کے شوق سے عبارت ہے۔
سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں پر فیصلے کے بعد ملک میں ایک طرف تو سیاسی عدم استحکام میں اضافہ ہوا دوسری طرف اس فیصلے کے حوالے سے جاری بحث میں طرفین دور کی ایسی ایسی کوڑیاں لاتے دیکھائی دیئے جس سے ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ ابہام بڑھ رہا ہے۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے اس فیصلے کے حوالے سے کہا کہ مخصوص نشستوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد میں رکاوٹ آئی تو عدالت سے رجوع کریں گے۔ یہ بھی کہا گیا کہ درخواست گزار سنی اتحاد کونسل نے پشاور ہائیکورٹ اور الیکشن کمیشن کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تھی جوکہ مسترد کردی گئی۔
الیکشن کمیشن نے اس ضمن میں چند دیگر نکات کی وضاحتیں بھی کی ہیں یہ بھی کہا ہے کہ پی ٹی آئی کے 39 ارکان نے پارٹی ٹکٹ اور ڈیکلریشن جمع نہیں کرایا 41 آزاد ارکان نے تحریک انصاف سے وابستگی ظاہر نہیں کی۔
ہماری دانست میں اہم ترین نکات بہرطور یہی ہیں کہ درخواست گزار تو سنی اتحاد کونسل تھی اس کی اپیل مسترد کرتے ہوئے پی ٹی آئی کو نشستیں دینے کا فیصلہ آخر کن بنیادوں پر دیا گیا۔ کیا الیکشن کمیشن کی جانب سے پی ٹی آئی کو انتخابی نشان سے محروم کرنے کے خلاف سپریم کورٹ میں دائر اپیل پر فیصلہ الکشن کمیشن کی تائید نہیں تھا؟
بالفرض اگر وہ 8 جج صاحبان جو یہ سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو نشتیں ملنا چاہئیں انہیں یہ بھی تو بتانا چاہیے تھا کہ کیا انتخابی نشان سے محروم کسی جماعت کے ارکان آزاد امیدواروں کی صورت میں انتخابات میں حصہ لیں تو وہ جماعتی امیدوار کیسے شمار ہوں گے؟
اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت پارٹی ٹکٹ اور وابستگی کا ڈیکلریشن جمع نہ کرانے والوں کو محض ایک فیصلے سے پارٹی امیدوار تسلیم کرلیا جائے گا ایسا ہے تو پھر انتخابی امیدوار کے طور پر کاغذات نامزدگی جمع کراتے وقت پارٹی وابستگی کا ڈیکلریشن اور پارٹی ٹکٹ جمع کرانا کیوں ضروری ہے؟
بنیادی طور پر جس اہم سوال کو سپریم کورٹ کے حکم نامے میں نظرانداز کیا گیا وہ انتخابی قوانین پر عدم عمل ہے لیکن عدالتی فیصلہ اس عدم عمل کو درست قرار دینے میں معاونت ہے یہ معاونت آئین کی کس شق اور انتخابی قوانین کے کس آرٹیکل کے تحت سپریم کورٹ نے فراہم کی؟
کیا 8 ججز نے کم از کم 6 قوانین کو نظرانداز کیا یا انہیں ازسرنو لکھا؟
اصولی طور پر جب تک اس کی وضاحت نہ ہوجائے معاملات آگے نہیں بڑھیں گے۔
گزشتہ روز الیکشن کمیشن نے اپنے اعلامیہ میں ایک بار پھر اس امر کی وضاحت کی کہ "الیکشن کمیشن نے عدالتی فیصلے کی غلط تشریح نہیں کی"۔ لیکن سنی اتحاد کونسل کی مسترد کی جانے والی اپیل کی سماعت کے دوران فل بنچ کے اکثریتی ججز تکرا کے ساتھ ریمارکس دیتے رہے کہ الیکشن کمیشن نے ہمارے فیصلے کی غلط تشریح کی۔
بادی النظر میں یہ ریمارکس درست نہیں بلکہ انتخابی نشان سے متعلق پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کے خلاف اپیل کے فیصلے میں موجود سقموں کی پردہ پوشی ہے۔ حالیہ فیصلے سے قبل سماعت کے دوران جن شہری سیاسی اور جماعت سازی کے حقوق پر تکرار سے بات ہوئی ججز و وکلاء میں مکالمہ بھی ہوا ان حقوق کو انتخابی نشان واپس لئے جانے کے خلاف دائر اپیل کی سماعت اور فیصلے کے وقت مدنظر کیوں نہیں رکھا گیا۔
کیا اس وقت "اُس فیصلے" کے لئے کہیں سے دبائو تھا اور اب کیا پاپولر ازم کی بہاروں سے "محبت" جاگ پڑی ہے؟
سادہ الفاظ میں یہ کہ اگر انتخابی نشان واپس لینے سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ نادرست تھا تو سپریم کورٹ کو پی ٹی آئی کی اپیل منظور کرلینی چاہیے تھی۔ اپیل مسترد ہونے کا صاف سیدھا مطلب یہ تھا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ درست ہے۔ اب سنی اتحاد کونسل کی اپیل مسترد کرکے جو حکم نامہ جاری کیا گیا اس سے عمومی تاثر یہ پیدا ہوا کہ سپریم کورٹ الیکشن کمیشن کے آئینی کردار اور حدود میں تجاوز کرکے اپنے حکم پر عملدرآمد چاہتی ہے کہ الیکشن کمیشن کو عدالتی حکم پر عملدرآمد کرنا چاہیے چاہے یہ آئین اور انتخابی قوانین اور پولیٹیکل پارٹی ایکٹ سے متصادم ہی کیوں نہ ہو۔
اندریں حالات یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر عمل الیکشن کمیشن کے لئے بھی مشکل ہوگا کیسے محض ایک عدالتی فیصلے پرعمل کے لئے بنیادی قوانین کو نظرانداز کردیا جائے گا؟
دوسری جانب سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد سیاسی عدم استحکام میں اضافے کے ساتھ جس طرح تحریک انصاف کے ہم خیال قانونی حلقوں نے یہ تاثر دیا کہ 8-5کی اکثریت سے آنے والا فیصلہ اصل میں تحریک انصاف کی مقبولیت کا اعتراف ہے تو اس کے جواب میں حکومتی حلقوں کا ملا جلا ردعمل ہی مان نہیں تھا کہ گزشتہ روز پنجاب کی وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز نے اس حوالے سے دوٹوک موقف اپناتے ہوئے کہا کہ "ملک کو چلنے دیں رخنہ ڈالا تو آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ پہلے پانامہ کے نام پر گندا کھیل کھیلا گیا اب پی ٹی آئی کو وہ سب دے دیا گیا جو اس نے مانگا ہی نہیں۔ یہ لوگ قومی مجرم کو واپس لاناچاہتے ہیں۔ یہ کون ہیں جن کو ترقی اچھی نہیں لگتی"۔
وزیراعلیٰ پنجاب نے یہ بھی کہا کہ "عوام اپنے کان اور آنکھیں کھلی رکھیں"۔
وزیراعلیٰ پنجاب کی گزشتہ روز کی تقریر کا اہم ترین نکتہ بہرطور یہی ہے کہ "ایک شخص کو لانے کے لئے ججز نے آئین دوبارہ تحریر کردیا ہے"۔
ان کے بقول عدالتی فیصلہ عدم استحکام کی شکل نہیں تو اور کیا ہے۔ مریم نواز نے کہا ججز سے کہتی ہوں کہ ملک کو چلنے دیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز ملک کے وزیراعظم کی بھتیجی اور مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں محمد نوازشریف کی صاحبزادی ہیں کیا ان کی گزشتہ روز کی تقریر اور اعلیٰ عدلیہ کے ججز خصوصاً مخصوص نشستوں کے فیصلے و الے بنچ میں شامل ججز کو مخاطب کرکے بعض گرم و نرم باتیں کہنا ان کی ذاتی رائے ہے یا پارٹی پالیسی کی ترجمانی؟
اس سوال کا جواب گزشتہ سے پیوستہ روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی ذرائع ابلاغ سے کی گئی گفتگو میں موجود ہے۔ خواجہ آصف کا یہ کہنا تھا کہ "حکومت بچانے کے لئے ہم ہر حد تک جائیں گے" اس طور مریم نواز شریف کا عدالتی فیصلے پر ججوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اظہار خیال کرنا اس امر کی تائید ہے کہ حکومت آخری حد تک جانے کا فیصلہ کرچکی ہے۔
مریم نواز کے خیالات اس کا ابتدائیہ ہیں۔ ایسا ہے تو پھر عوام کو ذہنی طور پر دستور سے ماورا صورتحال کے پیدا ہونے کے لئے تیار رہنا چاہیے کیونکہ اب بات دستور و قوانین کے تحفظ کی بجائے شخصی پسندوناپسند کی بنیاد پر معرکہ آرائی تک آپہنچی ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہم طرفین سے سنجیدگی، بردباری اور تحمل کی درخواست ہی کرسکتے ہیں۔