بنگلہ دیش میں وسط جون سے جاری طلبہ تحریک کے تیسرے مرحلے میں گزشتہ روز عوامی لیگ کی شیخ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کا اعلان فوج نے ان کے استعفے اور بھارت روانگی کے اعلان کے ساتھ کیا۔ آرمی چیف جنرل وقار الزمان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ "اب فیصلے فوج کرے گی، ملک میں امن قائم کیا جائے گا، سڑکوں پر موجود مظاہرین گھروں کو واپس چلے جائیں"۔
اس سے قبل ذرائع ابلاغ کے مطابق آرمی چیف نے وزیراعظم حسینہ واجد کو مستعفی ہونے کی صروت میں بھارت بھجوانے کی یقین دہانی کروائی۔ میڈیا کے ایک حصے نے دعویٰ کیا کہ انہیں استعفیٰ دینے کے لئے 45 منٹ کا وقت دیا گیا۔
شیخ حسینہ واجد بنگلہ دیش ایئرفورس کے ایک ہیلی کاپٹر میں اپنے خاندان کے ہمراہ ڈھاکہ سے اگرتلہ پہنچیں اور وہاں سے دہلی۔ ان کی اگلی منزل لندن، فن لینڈ اور آئرلینڈ میں سے کوئی ایک جگہ ہوسکتی ہے۔
جون میں طلبہ تحریک کا پہلا مرحلہ تعلیمی اداروں میں داخلوں کے لئے کوٹہ سسٹم کے خلاف شروع ہوا تھا جولائی کے اوائل میں اس تحریک کے دوسرے مرحلہ میں گرماگرمی اس وقت پیدا ہوئی جب ڈھاکہ ہائیکورٹ نے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ سسٹم کے معاملے پر برسوں سے زیرالتواء ایک درخواست پر کوٹہ سسٹم کے حق میں فیصلہ سنادیا۔ ہائیکورٹ کے اس فیصلے نے جلتی پر تیل ڈالنے والا کام کیا۔ فنی تعلیمی اداروں میں کوٹہ سسٹم کے خلاف جاری طلبہ تحریک میں اب شہریوں کے مختلف طبقات پرجوش انداز میں شامل ہونا شروع ہوگئے۔
طلبہ تحریک کے پہلے مرحلے میں 17 طالب علم ریاستی فورسز کے تشدد سے جاں بحق ہوئے اور 180 زخمی جبکہ دوسرے مرحلہ میں 193 افراد جاں بحق اور 3 ہزار سے زائد زخمی ہوئے بتایا جارہا ہے کہ تیسرے مرحلے میں 300 افراد جاں بحق ہوئے۔
طلبہ تحریک کے دوسرے مرحلہ کے دوان وزیراعظم نے جماعت اسلامی اور اس کی ذیلی طلبہ تنظیم اسلامی جمعیت طلبہ پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کردیا۔
جولائی میں ہی بنگلہ دیشی سپریم کورٹ نے سرکاری ملازمتوں کے لئے نافذ کوٹہ سسٹم پر ایک نیا فیصلہ سنایا جس سے امید پیدا ہوئی کہ عدالت کے اس فیصلے سے صورتحال بہتر ہوگی مگر اس مرحلے پر وزیراعظم حسینہ واجد سے دو غلطیاں سرزد ہوگئیں۔
پہلی یہ کہ انہوں نے کوٹہ سسٹم پر سپریم کورٹ کے فیصلے کو بنگلہ دیش کی آزادی کے لئے جدوجہد کے دوران قربانیاں دینے والوں کے خاندانوں کی توہین قرار دیا ثانیاً انہوں نے طلبہ تحریک میں بیرونی قوتوں کے کردار کے ساتھ اس تحریک میں شامل لوگوں کے لئے "رضاکار" پھبتی کسی۔ دونوں باتیں ان کے گلے پڑگئیں۔
عدالتی فیصلے پر ان کے تبصرے کو طلبہ تحریک کے رہنمائوں نے قانون سے انحراف قرار دیا۔ "رضاکار" کی پھبتی پر طلبہ تحریک کا موقف تھا کہ ہم بنگالیوں کی نئی نسل اور آئندہ نسلوں کے لئے رضاکارانہ جدوجہد کررہے ہیں بیرونی قوتوں کے تعاون کا الزام صریحاً جھوٹ ہے۔
طلبہ تحریک کے اس مرحلہ پر عجیب بات یہ ہوئی کہ 16 دسمبر 1971ء سے جس لفظ "رضاکار" کو بنگالی سماج میں بدترین شناخت کی گالی سمجھا جاتا تھا اسی لفظ رضاکار پر نئے نئے نعرے بنے اور ڈھاکہ سمیت پورا ملک "ہم کون تم کون رضاکار" کے نعروں سے گونج اٹھا۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش میں"رضاکار" ان لوگوں کو کہا جاتا تھا جنہوں نے 1971ء میں پاکستان آرمی کے ساتھ تعاون کیا اور تنظیمیں بناکر عوامی لیگ و مکتی باہنی کے خلاف لڑائی اور بنگالیوں کی نسل کشی میں حصہ لیا تھا۔
شیخ حسینہ واجد مجموعی طور 20 سال اور 234دن اقتدار میں رہیں۔ ان کے مخالفین ان پر انتخابی دھاندلیوں کے سنگین الزامات لگانے کے ساتھ ساتھ یہ الزام بھی لگاتے رہے کہ وہ آج بھی مکتی باہنی کے لوگوں سے مخالفین کو کچلنے کا کام لیتی ہیں۔
ان کے تقریباً پونے 21 برس کے دور اقتدار کے مختلف ادوار میں بنگلہ دیش نے معاشی ترقی تو کی لیکن سیاسی بنیادوں پر سماجی تقسیم کی جڑیں ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گہری ہوتی گئیں۔
شیخ حسینہ واجد نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ہوئے تین ملکی معاہدے کے برعکس جنگی جرائم پر مقدمات چلانے کے لئے پارلیمنٹ سے قانون منظور کروایا اور اس قانون کے تحت جماعت اسلامی کے درجنوں رہنمائوں کو پھانسی چڑھادیا۔ البدر والشمس اور اسلامی جمعیت طلبہ سے ماضی کے تعلق کے الزام میں ہزاروں افراد کو قومی غدار قرار دے کر جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ جنگی جرائم کے معاملہ پر تین ملکی معاہدے سے انحراف اور مخالفین کے خلاف کارروائیوں نے ان کے مخالفین میں اضافہ کیا۔
بعض تجزیہ نگار ان کے اقتدار کے خاتمے میں امریکی کردار تلاش کرتے "دیکھائی دے رہے ہیں" ان کا دعویٰ ہے کہ حسینہ واجد کی حکومت چین اور بھارت سے اپنے معاشی اور مضبوط سفارتی تعلقات کی بدولت امریکی لابی کو مسلسل نظرانداز کرتی آرہی تھیں۔
اس کے برعکس بھارتی ذرائع ابلاغ جولائی میں پہلے عدالتی فیصلے کے بعد طلبہ تحریک کے دوسرے مرحلے سے ہی اس تحریک میں پاکستان کا "وجود" تلاش کرنے کی مہم پر تھا اور گزشتہ روز بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کے استعفیٰ کے بعد فوج کے اقتدار سنبھالنے پر بھارتی ذرائع ابلاغ کے ایک بڑے حصے نے اس صورتحال کے پیچھے پاکستان کی موجودگی "ثابت" کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان نے حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے اور بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمن کی یاد گاروں، آبائی گھر و مجسموں کو حرف غلط کی طرح مٹواکر پچاس برسوں سے لگی آگ بجھانے کا سامان کرلیا۔
بھارتی ذرائع ابلاغ کے اس تبصرے پر ہمارے ہم زاد فقیر راحموں کا کہنا ہے کہ "جن سے چند ججز اور یوٹیوبرز قابو میں نہیں آرہے وہ ہزار میل کی مسافت پر واقع دوسرے ملک میں حکومت کا تختہ الٹانے میں کیا کردار ادا کرسکتے ہیں"۔ اس دعوے پر صرف ہنسا ہی جاسکتا ہے۔
بنگلہ دیش سے حسینہ واجد کے پونے 21 برس کے اقتدار کا خاتمہ اور فوج کی مداخلت و اقتدار کُلی اپنے ہاتھ میں رکھنے کے اعلان پر جماعت اسلامی پاکستان کے ہمدردان آسمان سر پر اٹھائے ہوئے ہیں سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جارہاہے کہ ڈھاکہ سید مودودی کے معنوی فرزندوں کے نعروں سے گونج رہا ہے۔
حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے اور فوج کی آمد پر جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ "حکمرانوں جو کچھ بنگلہ دیش میں ہوا تمہارا بھی وہی مقدر ہے"۔ کیا مطلب جماعت اسلامی کی حالیہ دھرنا سیاست کے پیچھے بھی اسٹیبلشمنٹ کا کوئی کردار اور امریکہ ہیں کیا؟
اس سوال پر غور ازبس ضروری ہے۔
آگے بڑھانے سے قبل یہ جان لیجئے کہ بنگلہ دیشی آرمی کے سربراہ کے اس بیان پر کہ اب فیصلے فوج کرے گی اور عبوری یا مخلوط قومی حکومت بنائی جائے گی۔ بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کے قائد ناہید الیاس نے جوابی پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ فیصلے فوج نہیں طلبہ تحریک کی قیادت کرے گی۔ عبوری حکومت کے لئے نام ہم دیں گے۔
اسی اثنا میں سابق حکمران جماعت بی این پی نے سڑکوں پر موجود شہریوں اور عوام سے گھروں کو واپس چلے جانے کی اپیل کی ہے۔ حسینہ واجد کے اقتدار کے خاتمے کے 24 گھنٹے بعد آرمی چیف کے حکم پر ملک بھر میں جماعت اسلامی کے دفاتر کھول دیئے گئے۔ جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے سربراہ ڈاکٹر شفیق الرحمن نے ڈھاکہ میں جماعت کے مرکزی دفتر میں کارکنوں سے خطاب کیا۔ خطاب میں عمومی صورتحال پر گفتگو کی بجائے جماعت اسلامی کے لئے پیدا کی گئی مشکلات اور کارکنوں کی قربانیوں پر بات کی۔
دفاتر کھولنے کے ساتھ کیا جماعت اسلامی پر سے پابندی بھی ختم کردی گئی ہے؟ یہ ابھی ایک سوال ہے لیکن اس کے ساتھ ہی فوجی قیادت نے سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کو رہا کردیا وہ کرپشن کے مقدمے میں سنائی گئی سزا کاٹ رہی تھیں۔
دوسری جانب بی این پی اور اس کی اتحادی جماعتیں عوام اور طلباء کی سڑکوں سے واپسی چاہتی ہیں۔
بی این پی کے سیکرٹری جنرل قمرالاسلام کے بیان سے لگتا ہے کہ وہ اپنے اتحادیوں کے ہمراہ عبوری حکومت میں شامل ہونے جارہے ہیں۔ جماعت اسلامی ماضی میں بی این پی کی اتحادی رہی ہے توقع کی جارہی ہے کہ عبوری یا مخلوط قومی حکومت میں جماعت اسلامی بھی شامل ہوگی۔
بہرطور دیکھنا یہ ہے کہ طلبہ تحریک کے قائدین حتمی فیصلہ کیا کرتے ہیں پردہ اٹھنے کی منتظر ہیں نگاہیں۔۔