Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Bangladesh, Khawab Tabeer Pa Lenge?

Bangladesh, Khawab Tabeer Pa Lenge?

بنگلہ دیش کی صورتحال پر پاکستان میں بہت کچھ لکھا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی کے حامی ایک بار پھر خوابوں کے چھابے لگائے انقلاب انقلاب اسلامی انقلاب کی صدائیں لگارہے ہیں۔ ہر دور کے فوجی آمر کے لئے جگر کا ٹکڑا دینے والی مسلم لیگ کے متوالے ان میں وزیر دفاع خواجہ محمد آصف بھی شامل ہیں اچھل کود ہی نہیں رہے بلکہ کہہ رہے ہیں کہ شیخ مجیب الرحمن کی یادگاروں کے جو ہوا وہ تاریخ کا "انصاف" ہے۔

کیا 16 دسمبر 1971ء بھی 14 اگست 1947ء کے بٹوارے کا انصاف نما انتقام تھا؟

لاریب شیخ حسینہ واجد کا طرز حکمرانی نامناسب تھا انہوں نے جمہوری سیاست میں انتقام کی فصل کاشت کی فقط یہی نہیں کہ انہوں نے سہ فریقی معاہدے کو پس پشت ڈالا ایسی قانون سازی کی جس سے وہ جماعت اسلامی سے انتقام لے سکیں بلکہ انہوں نے اپنے ہر مخالف کو دیوار کے ساتھ لگانے میں"اتاولے" پن کا مظاہرہ کیا۔ جمہوری نظام کے بنیادی تقاضوں کو نظرانداز کرکے بنگلہ دیش میں یک جماعتی نظام کی آمریت قائم کی اور خمیازہ بھگت لیا۔

کیا بات یہیں ختم ہوگئی ہے؟ ہمارے رائے میں بات یہیں ختم نہیں ہوپائے گی۔ اس خطے "برصغیر" کے لوگوں میں کینہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ اس کینے کے مظاہرے کو محض وقتی جذباتیت قرار دینا کینہ پروری کے سوا کچھ نہیں۔ ایک ہی خمیر سے گندھے لوگ ردعمل کے مظاہرے میں دور تلک جاتے ہیں۔ مثلاً 3 اگست تک حسینہ واجد کی حکومت کا ننگا ہتھیار بنی فوج نے 4 اگست کو اچانک پینترا بدلا اور عوام پر مزید تشدد کرنے سے معذرت کی اور راتوں رات ہیرو بن گئی۔

اس کے برعکس بنگلہ دیش پولیس کو تحریک کے حامیوں کے پرتشدد رویوں کی وجہ سے ہڑتال پر جانا پڑگیا۔ کسی نے سوچا کہ 4 اگست کو مظاہرین کے حق میں ایک جیسا بیان دینے والے دو محکموں فوج اور پولیس میں سے ایک ہیرو اور دوسرا عوامی نفرت کا نشانہ کیوں بن گیا؟ دانش کے موتی رولتے دانشوروں کو اس سوال کا جواب ضرور تلاش کرنا چاہیے۔

6 اگست کو بنگلہ دیش کی طلبہ تحریک کے قائدین کو ایوان صدر لے جایا گیا جہاں انہوں نے صدر مملکت سے درخواست کی کہ گرامین بینک والے محمد یونس کو وطن واپس لاکر عبوری حکومت کا سربراہ یا نگران بنایا جائے۔

یقیناً یہ ا یک "سنجیدہ" کوشش تھی مگر اسی 6 اگست کو بنگلہ دیش کے طول و عرض میں عوامی لیگ کے ارکان پارلیمنٹ اور حامیوں کے گھروں پر حملے ہوئے درجنوں گھروں کو جلادیا گیا۔ اسی دن ڈھاکہ میں عوامی لیگ کے ایک رکن پارلیمنٹ کے ہوٹل کو تبدیلی پسند مظاہرین نے جلادیا اس واقعے میں 24 افراد جل کر جاں بحق ہوگئے۔ کیا کسی کو نہیں لگتا کہ طلبہ تحریک کی آڑ میں کچھ کالعدم جماعتوں کے حامی اپنا حساب چکتا کرنے کے لئے میدان عمل میں اتر آئے ہیں؟

6 اگست کو طلبہ تحریک نے پارلیمنٹ تحلیل کرنے کا مطالبہ کیا کچھ ہی دیر میں پارلیمنٹ تحلیل کردی گئی۔ بظاہر اس کے لئے صدارتی فرمان جاری ہوا مگر کیا آئینی تقاضے پورے ہوئے۔ فوج جو کہہ رہی ہے کہ فیصلے ہم کریں گے آئین کی کس شق میں اسے یہ اختیار حاصل ہے۔

ملک بھر میں عوامی لیگ کے حامیوں کے خلاف شروع ہوئی پرتشدد کارروائیوں کو روکنے کی ذمہ داری کس پر ہے۔ پولیس ہڑتال پر ہے پیچھے فوج رہ جاتی ہے۔ اس کے تو اپنے باوردی جوان مظاہرین کے ساتھ مل کر شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے توڑتے دیکھائی دے رہے ہیں۔

کہا جارہا ہے کہ طلبہ تحریک میں ابتدا ہی سے ترقی پسند نظریات کے حامی فعال افراد سرگرم عمل تھے انہوں نے ہی تحریک کو منظم اور ملک گیر بنانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ اس حوالے سے معروف ترقی پسند رہنما جنید سکیب اور ان کی بنگلہ طلبہ فائونڈیشن ک نام لیا جاتارہا ہے کہ جنید سکیب اور انکے ساتھیوں نے مارکسی نظریات پر ہم خیالوں کو فعال کرنے میں کردار ادا کیا۔

طلبہ کی انسداد ناانصافی کمیٹی ہو یا یونیورسٹی کے معلمین کی تنظیم حکومت مخالف تحریک کو فکری غذا فراہم کرنے اور تحریک کو منظم کرنے میں ان کے کردار سے انکار ممکن نہیں مگر حیران کن بات یہ ہے کہ 6 اگست کو ایوان صدر میں صدر مملکت سے ملاقات کرنے والے وفد میں بنگلہ طلبہ فائونڈیشن کی نمائندگی نہیں تھی۔

خیر میں جس بات یا سوال کو پڑھنے والوں کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں عوامی لیگ کے خلاف پرتشدد جوابی کارروائیوں کا کسی کو اندازہ نہیں تھا یا یہ سمجھا گیا کہ ایسا نہیں ہوگا اور پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

کیا اس مرحلہ پر جب تحریک پرامن انداز میں مطالبات منوانے کی پوزیشن میں تھی تشدد کا دروازہ کھول کر اقتدار پر فوج کی گرفتار مضبوط کرنے کی کوشش تو نہیں کی جارہی؟

بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال اور لمحہ بہ لمحہ بدلتے "مزاجوں" کے حوالے سے بردار عزیز محمد عامر حسینی نے زمینی حقائق سے عبارت بھرپور تجزیہ کیا انہوں نے یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم کے دونوں رہنمائوں کا تفصیلی تعارف بھی لکھا۔

ہمارے پیش نظر فی الوقت یہ ہے کہ کیا "طلبہ کمیٹی برائے انسداد ناانصافی" اس کمیٹی میں بنگلہ دیش کی تقریباً تمام طلبا تنظیمیں شامل ہیں اپنی اخلاقی قوت اور عوامی مقبولیت ہر دو کو بروئے کار لاتے ہوئے پرتشدد کارروائیوں کو روک پائے گی؟

7 اگست کے بنگلہ دیشی اخبارات نے ڈھاکہ میں ہوٹل جلادیئے جانے سے ہونے والے جانی نقصان کے علاوہ بھی ایک سنگین خبر دی وہ یہ کہ ملک کے بعض حصوں سے عوامی لیگ کے حامیوں اوران کے خاندانوں کے افراد کی 29 نعشیں ملی ہیں۔ کم از کم مجھے ایسا لگتا ہے کہ طلبہ و عوامی تحریک کی کامیابی کی آڑ میں وہ قوتیں منظم ہوکر تشدد کو بڑھاوا دے رہی ہیں جنہیں عوامی لیگ یا یوں کہہ لیجئے شیخ حسینہ واجد نے دیوار سے لگادیا تھا۔

براہ راست جماعت اسلامی اور اس کی حامی و ذیلی تنظیموں پر الزام کوئی بھی نہیں لگارہا مگر پرتشدد واقعات میں پیش پیش بعض چہروں کے سیاسی پس منظر کی وجہ سے سوالات اٹھائے جارہے ہیں۔

6 اگست کی شام ایوان صدر میں جس 30 رکنی وفد نے صدر مملکت سے ملاقات کی اس وفد نے مستقبل کے منظرنامے کے حوالے سے اپنی معروضات تفصیل کے ساتھ صدر مملکت کے سامنے رکھیں۔ ان معروضات کو کتنی پذیرائی ملتی ہے یہ عبوری حکومت کے اعلان کے بعد واضح ہوگا فی الوقت اس خدشے کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں کہ عوامی لیگ کے حامیوں کو ویسے حالات سے دوچار ہونا پڑے گا جس طرح کے حالات سے اس نے اپنے مخالفین کو دوچار کیا تھا۔

5 اگست کے دن ظہور پذیر ہونے و الی تبدیلی کے جو مناظر دنیا نے دیکھے (تشدد، نفرت کے مظاہرے، لوٹ مار) ان پر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے۔

اس صورتحال پر ایک دوست نے پھبتی کسی "دانشور ہمیں بتاتے تھے کہ بنگلہ دیش آزادی حاصل کرکے ہم سے 100 سال آگے نکل گیاہے لیکن 5 اگست کے مناظر سے یہ صاف ظاہر ہوا کہ بنگلہ دیش پاکستانیوں سے 16 ماہ پیچھے ہے"۔

اس جملہ معترضہ کو اٹھا رکھئے اس وقت صورت یہ ہے کہ شیخ حسینہ وجد کو جلدازجلد بھارت چھوڑنے کے لئے کہا جارہا ہے۔ امریکہ نے ان کا ویزا منسوخ کردیا جبکہ برطانیہ نے سیاسی پناہ دینے سے معذرت کرلی ہے۔ بنگلہ دیش سپریم کورٹ بار کے صدر نے بھارت سے شیخ حسینہ واجد کی واپسی کا مطالبہ کیا ہے۔

بھارت نے باضابطہ طور پر 6 اگست کی سپہر بنگلہ دیش کی فوجی قیادت سے رابطہ کیا اور کہا کہ ملک میں امن قائم کیا جائے پرتشدد کارروائیوں کو روکا جائے۔

بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال کو بطور خاص سمجھنے کی ضرورت ہے۔ کیا طلبہ کمیٹی برائے انسداد ناانصافی، اساتذہ کی تنظیم اور بنگلہ طلبہ فائونڈیشن کی محنت و جدوجہد اور قربانیوں کو فوج اور دائیں بازو کی متشدد تنظیمیں ہائی جیک کرلیں گی بالکل ویسا ہی ہوگا جیسا ایرانی تودہ پارٹی کے ساتھ ہوا تھا طویل اور صبرآزما قربانیوں سے بھری جدوجہد کا ثمر مذہبی قیادت نے حاصل کیا؟

سوال ہی سوال ہیں البتہ ہمارے ہاں بعض جمہوریت پسند ان میں پیپلزپارٹی کے لوگ بھی شامل ہیں جس طرح حسینہ واجد کی جگہ فوج کی آمد پر اچھل کود رہے ہیں کیا ان کے فہم پر سورۃ فاتحہ نہ پڑھ لی جائے۔

نوٹ: یہ کالم سات اگست کی سپہر میں لکھا گیا آٹھ اگست کو تبدیلی پسند بنگالیوں نے بنگال کے عظیم شاعر و دانشور رابندر ناتھ ٹیگور کا مجسمہ توڑ دیا آٹھ اگست کی شام کے بعد گرامین بنک والے محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت بن گئی اس حکومت میں طلبہ کمیٹی انسداد ناانصافی اور یونیورسٹی اساتذہ کی تنظیم کو بھی نمائندگی ملی ہے۔