Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Haq e Dosti

Haq e Dosti

کافی دیر سے حاذق یاد آرہے ہیں۔ اموی عہد کے دمشق کے شاعر حاذق۔ بازار میں چہل پہل دیکھ کر بولے

لوگو!

"کاش پیٹ کے پیچھے بھاگنے کی بجائے تم نے پاس پڑوس کے مستحقوں کا خیال رکھا ہوتا"۔ کسی نے لقمہ دیا

"پیٹ لگا ہے تو اس کی ضرورت بھی پوری کرنا پڑے گی"۔ حاذق نے جواب دیا

"پیٹ کے لئے جیتے لوگوں کا المیہ یہی ہے کہ وہ اپنی ذات سے آگے نہیں سوچتے"۔

یہ حاذق ہی تھے جو ایک دن کہہ اُٹھے

"جن کے دہنوں کو بھائیوں کے گوشت کا ذائقہ لگ جائے اُن درندوں کو انسان کہتے ہوئے مجھے شرمندگی ہوتی ہے"۔ ہمارے جواں مرگ شاعر انجم لشاری کہتے تھے

"بھوک نگر کے باسی بھی عجیب مخلوق ہیں، اپنا سب کچھ خود کھاجاتے ہیں اوربھوک بھوک کی دہائی دیتے پھرتے ہیں"۔

بھوک ہمیشہ کا سفر ہے۔ غربت اور اس کا چولی دامن کا ساتھ ہے لیکن ان سطور میں ان دونوں پر کتنی بات کریں۔ لبید کہتے تھے "آدمی کاحق یہ ہے کہ بھوک کو دماغ پر قابض نہ ہونے دے"۔

اچھا آدمی کا حق۔ ویسے کتنے لوگ اسے سمجھ پائے؟

آدمیوں کے جنگل میں آدمی ملے تو دریافت کیجئے انسان کہاں ملیں گے؟

فضیل بن عیاض نے ایک شب کہا تھا "جو نفس پر قابو نہیں رکھ سکے نفس انہیں پھاڑ کھاتاہے"۔

مرشدی بلھے شاہ تو کہتے تھے "نفس کے گھوڑے پر کاٹھی ڈالنا ہی زندگی ہے"۔ زندگی یہی ہے حاذق سے بلھے شاہؒ تک نے جس کی طرف متوجہ کیا مگر اس کا کیاکیجئے کہ ہم زندگی فقط جیتے ہیں، جینے کے حقیقی لوازمات، چھوڑیئے ان کے بارےمیں غوروفکر کی کیا ضرورت ہے۔

ضرورتیں سوا ہوتی ہیں اور زندگی۔ سچل سرمتؒ سے سوال ہوا تھا، سائیں زندگی کیا ہے؟ مٹھی بھر خاک اٹھاکر انہوں نے ہوا کے دوش پر رکھتے ہوئے کہا بس "فقط یہ"

فقیر راحموں کے بقول، اگلے زمانوں کے زندہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے زندگی کو مسئلہ نہیں بنایا۔ سادہ لفظوں میں یہ کہ زندگی مسئلہ نہیں ہے، سفر حیات ہے۔ ذمہ داریاں، کچھ فرائض اور حسنِ زندگی۔ وہ ظاہر ہے علم کے سوا کیا ہے۔

چلئے ایک بار پھر حاذق سے ملتے ہیں۔ حاذق کہتے ہیں

لوگو!

"ہر قدم پلٹ کر جانے کے لئے اٹھائو گے تو سنبھل کر چلو گے۔ زندگی خسارے کا سودا ہے۔ نفع محبت اور ایثارمیں ہے۔ عاشقی خودپرستی میں نہیں جذبہ قربانی میں ہے۔ برداشت کرو گے تو برداشت کئے جائو گے۔

آج تم پھاڑ کھانے کی فطرت پر زندہ رہنا چاہتے ہو تو بہ مت بھولو کل کوئی تمہاری قبرں تک اکھاڑ ڈالے گا"۔

زندگی کا سچ یہی ہے اس سے بڑا سچ یہ ہے کہ اقرار وہی کرتا ہے جس میں انکار کا حوصلہ ہو۔

طالب علم کو حسین بن منصور حلاجؒ یاد آئے۔ فرماتے ہیں"ایک وہی تو ہے جس کے دیدار کی خواہش میں ہم نے اپنے ہونے کی نفی کی۔ پھر کہا، میرے دوستو! مجھے ہلاک کردو کہ میری ہلاکت میں تمہاری زندگی ہے"۔

کچھ آگے بڑھ لیجئے۔ حافظ شیرازیؒ سے مل لیتے ہیں۔ کہا "میخانے کی دہلیز کے اس اور کم ظرف کا کیا کام۔ یہاں تجارت نہیں ہوتی نہ مسجدوں کاسا سودا"

ہائے کیا لوگ ہیں۔ عبادات کو بھی نفع بخش کاروبار کی طرح انجام دیتے ہیں جبکہ یہ تو رضا کے حصول کے سودے ہیں۔ خیر یہ بات نفس کی پیروی میں سرپٹ بھاگتے ہووں کو کون سمجھائے۔

ماہ و سال کیا عشرے بیت گئے، زندگی کی شاہراہ پر چلتے بڑھتے، ایک دوپہر استاد مکرم سید عالی رضوی کی خدمت میں عرض کیا

حضور! لوگ آگے بڑھنے کے لئے تحمل سے باری کا انتظار کیوں نہیں کرتے؟

بولے سچ وہی ہے جو بلھے شاہؒ نے کہا ہے "کامرانی لوگوں کو کچل کر نہیں بلکہ انہیں اٹھاکر ملتی ہے"۔ ساعت بھر کے وقفے سے پھر گویا ہوئے حرص اور حسد سےبچ کر جینے سے تحمل و برداشت کی دولت ملتی ہے لیکن جہاں ہر شخص منہ اٹھائے بھاگے چلا جارہا ہو، قدم جماکر چلنے والوں میں سے بہت کم ان کے رنگوں میں رنگے جانے سے بچ رہتے ہیں۔

ہم بھی کیا باتیں لے بیٹھے ہیں۔ خشک سی باتیں ہیں۔ کالم تو چٹ پٹا اچھا لگتا ہے۔ کسی کی پگڑی اچھالی، چلیں اس کام کے لئے چھاتہ برداروں کی پوری کھیپ میدان میں ہے انہیں من مرضی کے بھاشن دینے دیں ہمیں کیا۔

ان چھاتہ برداروں کو اتارنے والے بھی تو یہی چاہتے ہیں کہ "اُن" کے سواسب کو چور، لٹیرا، ملک دشمن سمجھا لکھابولا جائے۔ لیکن آج کل یہ چھاتہ بردار اپنے آقائوں کے بارے میں جو گفتگو کرتے ہیں اسے سماعت کرکے تو "لطف دوبالا ہوجاتا ہے "

خیر اس لطف دوبالا کو رہنے دیجئے۔ ہمارے چاراور جن بھیانک مسائل کا "رمبا رقص" جاری ہے یہ ختم ہوں گے کہ مٹی میں ساتھ اتریں گے؟

جب کبھی یہ سوال دستک دیتا ہے مجھ سے جواب نہیں بن پاتا۔ سچ بھی یہی ہے کہ کچھ سوال ایسے ہوتے ہیں جن کا جواب نہیں ہوتا۔

ان سوالوں کےجواب کارقص زندگی کو تلپٹ کردیتا ہے۔ ہم جس عہد میں زندہ رہنے پر مجبور ہیں اس عہد میں کوئی سامت و منصورؒ، سرمدؒ و بلھے شاہؒ، شاہ حسینؒ اور خواجہ غلام فریدؒ نہیں ہے۔

جو کچھ دستیاب ہے اس پر کیا باتاں کریں اور کتنی؟

سوائے اس کے کہ شہید سرمدؒ نے کہا تھا

"ہر قدم یار کے کوچے کی سمت اٹھے تو حقِ دوستی ادا ہوتاہے" سرمدؒ ہوتے توان کی خدمت میں یہ عرض کرتے۔

یہاں حق بندگی ادا نہیں ہوتا حقِ دوستی کیسے ادا ہو؟