سوشل میڈیا "اندھے کے پائوں کے نیچے بٹیرأ" کے مصداق معاملہ ہے۔ پی ٹی آئی کے آفیشل پیجز سمیت مجاہدین پی ٹی آئی نے پچھلے چند دنوں سے پی پی پی کے رہنما قمر زمان کائرہ سے منسوب ایک بیان کی خوب تشہیر کررہے ہیں۔ یہ کائرہ اور آرمی چیف کے درمیان گفتگو پر مبنی ہے۔ حامد میر سے منسوب پوسٹ میں بتایا گیا کہ "پنجاب کالج میں طالبہ سے مبینہ زیادتی میں چوکیدار کو قربانی کا بکرا بنایا جارہا ہے ذمہ دار کوئی اہم شخصیت ہے"۔ سابق امریکی صدر ٹرمپ سے منسوب بیان میں ٹرمپ کہتے ہیں "میرے پاکستانی دوست عمران خان کی زندگی بچانے کے لئے باہر نکلیں"۔ رئوف کلاسرا سے منسوب پوسٹ میں بتایا گیا کہ جیل میں عمران خان پر ایک کرنل کی نگرانی میں تشدد ہوا ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بڑی تعداد نے ان پوسٹوں کو شیئر کیا۔ مثال کے طور پر جن چند پوسٹوں کا ذکر کیا ان میں سے تین افراد حامد میر، قمر زمان کائرہ، رئوف کلاسراہ خود سے منسوب سوشل میڈیا پوسٹوں کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں۔
پنجاب کالج کے گلبرگ گرلز کیمپس میں طالبہ سے مبینہ زیادتی کے واقعہ کی خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلی احتجاج ہوا، لاہور، گجرات اور راولپنڈی میں احتجاجیوں نے صرف پرامن نہیں بلکہ پرتشدد احتجاج کیا۔ ابتداً تین چوکیداروں کے طلبا کے ہاتھوں قتل ہونے کی افواہ پھیلی پھر گجرات پولیس نے ایک کالج کے چوکیدار کی طلبا کے تشدد سے ہلاکت کی تصدیق کردی۔
سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو میں احتجاجی طلبا اپنے کالج کا قیمتی سامان بنگلہ دیشی طرز پر لے جاتے ہوئے دیکھائی دیئے۔ دوسری ویڈیو میں طلباء کے ساتھ چند غیرطلبا بھی توڑ پھوڑ کرتے دیکھائی دیئے۔
چیف سیکرٹری، آئی جی پنجاب اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب پر مشتمل کمیٹی نے اس واقعہ کی رپورٹ مرتب کرلی ہے۔ رپورٹ کے مطابق طالبہ سے زیادتی کا واقعہ نہیں ہوا۔ منظم انداز سے جعلی خبروں اور ویڈیوز سے طلبا و طالبات کو مشتعل کیا گیا۔ یہ واقعہ ایک مثال ہے، لیکن ٹھہریں سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو وائرل ہے جس میں ایک خاتون خود کو مبینہ زیادتی کا نشانہ بننے والی متاثرہ طالبہ کی والدہ بتاکر واقعہ کی تفصیل بیان کر رہی ہے۔ کیا ایف آئی اے، پولیس یا چیف سیکرٹری والی تین رکنی کمیٹی نے اس خاتون کا بیان ریکارڈ کیا۔ نہیں کیا تو کیوں؟
لاہور ہائیکورٹ کی چیف جسٹس صاحبہ نے طالبہ سے مبینہ زیادتی کے واقعہ کے حوالے سے دائر درخواست پر فل بنچ بنانے کا حکم دیا ہے۔ کیا ہم امید کریں کہ طالبہ کی والدہ ہونے کی دعویدار اس خاتون کو عدالت میں بلاکر اس کا بیان لیا جائے گا؟
ہماری دانست میں عدالت اس طالبہ کو بھی طلب کرے جو وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز کی پریس کانفرنس میں ان کے ہمراہ بیٹھی تھی۔ وزیراعلیٰ نے اس سے بیان دلوایا اور پھر اچانک اس کا مائیک بند کردیا۔ سوال اٹھایا جارہا ہے کہ وہ طالبہ حقائق بیان کرنے لگی تو وزیراعلیٰ نے اس کا مائیک کیوں بند کیا؟
تمہید طویل ہوگئی لیکن یہ ضروری تھی ہمارے اور آپ کے چار اور ان دنوں مبینہ ریپ کی خبر زیر بحث ہیں۔ کامل یقین سے واقعہ کو درست ماننے والے سوشل میڈیا کی پوسٹوں کے سوا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں رکھتے۔ یہی لوگ سوال کرتے ہیں کہ اگر واقعہ نہیں ہوا تو اتنا بڑا احتجاج کیوں ہوا۔ پولیس نے تشدد کیوں کیا، مقدمات کیوں درج ہوئے، گرفتاریاں کیوں ہورہی ہیں۔
اس معاملے (مبینہ ریپ) کو چند بھگوڑے یوٹیوبرز نے بھی ہوا دی وہ تو انقلاب انقلاب کی صدائیں بھی بلند کررہے تھے خصوصاً صابر شاکر، میجر راجہ عادل، شاہین صہبائی۔
اب آیئے اس پر بات کرتے ہیں کہ ہمارے ہاں سچ سے زیادہ جھوٹ کیوں فروخت ہوتا ہے۔ کیا ہم مسلمانوں کی تاریخ سے بات شروع کرسکتے ہیں؟
میرے پاس اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ جسے ہمارے ہاں غلط طور پر "تاریخ اسلام" کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اسے مذہبی تقدس کا چولہ پہنادیا گیا ہے۔ اب اس پر بات کرتے ہوئے ڈر لگتا ہے کہ خدا جانے کون کس کونے سے کھدرے سے نکل کر توہین یا منکر ہونے کا فتویٰ جاری کردے۔
منکر ہونے کے فتوے کا ذائقہ چند برس قبل میں اپنے ہی جنم شہر میں بلاول بھٹو کی سربراہی میں منعقدہ ایک تقریب میں چکھ چکا ہوں وہ تو شکر ہے کہ میر احمد کامران مگسی سمیت کچھ دوست موقع "واردات" پر موجود تھے اور تحریر نویس ملتانیوں کی وعظ والی بی بی سیدہ عاشو بی بیؒ کا فرزند تھا ورنہ منکر ہونے کے فتوے کا نتیجہ بھگتنا پڑتا۔
اس جملہ معترضہ پر معذرت یونہی ایک بات بلکہ واقعہ یاد آگیا۔ عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم برصغیر پاک و ہند اور اس کے پڑوس والے سندھ (اس وقت سندھ متحدہ ہندوستان کا حصہ نہیں تھا) میں مسلمانوں یا مسلمانی کی آمد سے بات شروع کرتے ہیں تو یہ بھی دلچسپ ہوگا۔
مثال کے طور پر حجاج بن یوسف نے خلیفہ سے سندھ پر لشکر کشی کے لئے جس بنیاد پر اجازت لی "ہمارے نصاب تعلیم کے مطابق" وہ وجہ یہ تھی کہ سندھ کے حکمران راجہ داہر نے سری لنکا سے عرب جاتے ہوئے ایک بحری جہاز کو پکڑلیا اس میں سوار گرفتار ہونے والی عورتوں نے حجاج بن یوسف کو خط لکھا یوں سندھ پر حملہ ہوا۔
حجاج نے قرآن مجید پر اعراب لگوائے جو 13 سو سال بعد بھی جوں کے توں محفوظ ہیں پھر وہ ایک یا چند عورتوں کے حجاج جو لکھے خطوط محفوظ کیوں نہ رہ سکے؟
سندھ پر حملے کی وجہ کے لئے گھڑا گیا یہ جھوٹ 13 سو برسوں سے ہمارے ہاں نہ صرف مسلسل پرواز کر رہا ہے بلکہ اس سے اختلاف کرنے والوں پر راجہ داہر کی اولاد ہونے کی پھبتی کسی جاتی ہے۔
اسی طرح خاندان غلاماں، لودھیوں، دیگر اور مغلوں کے ادوار حکومت کو اسلامی حکومتوں کا ادوار قرار دینا ایک سفید جھوٹ ہے۔
یہ جھوٹ بھی ہمارے نصاب تعلیم کے ذریعے مسلسل فروخت ہورہا ہے۔ محمود غزنوی وغیرہ کے برصغیر اور ملتان پر حملے اسلامی لشکرکے حملے تھے یہ ایک اور جھوٹ ہے۔ ملتان پر محمود غزنوی نے جب حملہ کیا یہاں اسماعیلی مسلمانوں کی حکومت تھی۔ اس کے لشکرنے خوب قتل عام کیا جی بھر کے ملتان کو لوٹا 30 ہزار عورتیں بچیاں اور نوجوان غلام بناکر غزنی لے جائے گئے جو وہاں فروخت ہوئے۔
ملتان میں توحید پرست راجہ پرہلاد کے دانش کدے کو پرہلاد مندر کہنا بھی ایسا ہی جھوٹ ہے۔ برصغیر کا بٹوارہ اس لئے ہوا کہ خطرہ تھا کہ ہندو اکثریت مسلم اقلیت کے حقوق پامال کرے گی اس جھوٹ کا طبلہ اپریل 1947ء میں خود محمد علی جناح صاحب کے امریکی صحافیوں کو دیئے گئے اس انٹرویو سے بج گیا کہ "امریکہ کو یاد رکھنا چاہیے کہ برصغیر کی تقسیم کی صورت میں بننے والا پاکستان لادین سوویت یونین کے مقابلہ میں اس کا اتحادی ثابت ہوگا"۔
یہ انٹرویو برصغیر کے بٹوارے کی حقیقت کی ہنڈیا چوراہے پر پھوڑ دیتا ہے۔ بٹوارے کے فسادات کے ذمہ دار ہندو اور سکھ ہیں ایک اور نیلا پیلا جھوٹ ہے۔ فسادات تو لال کرتی راولپنڈی اور شاہ عالم مارکیٹ لاہور سے شروع ہوئے، آغاز مسلمانوں نے کیا۔ پشاور سے کلکتہ جانے والی ٹرین میں سوار ہندوئوں اور سکھوں کے قتل عام کے بعد سکھوں نے مسلمانوں کا قتل عام کیا۔
ہر دو تین معاملوں کے حوالے سے تفصیل جاننے کی خواہش ہو تو حسین حقانی، محمد حفیظ خان اور کلدیپ نائر کی تصنیفات سے رجوع کیجئے۔
ہماری سیاسی تاریخ کے جو جھوٹ سرچڑھ کر بولتے رہے ان میں سے چند یہ ہیں، جماعت اسلامی پاکستان بنانے کے عمل میں نظریاتی طور پر شریک تھی۔ خان عبدالغفار خان اور ان کا خاندان بھارت کا ایجنٹ تھا۔ جی ایم سید غدار اور اسلام دشمن تھے۔ بھٹو کا اصل نام گھاسی رام تھا ان کی مسلمانی بھی نہیں ہوئی تھی۔
سیکولر ازم لادینت ہے اور سیکولر ازم کے حامی مقدس رشتوں پر یقین نہیں رکھتے۔
ففتھ جنریشن والے مجاہدین تخلیق کرنے والوں نے پچھلے کم از کم 47 برس (ضیا دور کے آغاز سے) جمہوریت اور جمہوری نظام کو ہر وہ گالی دلوائی جو مارکیٹ میں دستیاب تھی۔
دو جماعتی نظام کو ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے مفادات کے خلاف سمجھنے والوں نے اپنی پارٹی بنوانے کے لئے جس جھوٹ کی وسیع پیمانے پر کاشت کی اب اس کی فصل انہیں کاٹنی پڑ رہی ہے۔
قصہ مختصر ہمارے ہاں جھوٹ ہمیشہ فروخت ہوا اور شان سے فروخت ہوا۔ اس حوالے سے اور بھی باتیں ہیں وہ پھر کبھی سہی۔