Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Kuch Arz Karoon Gar Bura Na Lage

Kuch Arz Karoon Gar Bura Na Lage

پہلی بات آئی ایس پی آر کے سربراہ (یہ بری فوج کے ترجمان کہلاتے ہیں) لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری کی اس پریس کانفرنس کے حوالے سے ہے جو انہوں نے گزشتہ جمعرات کی دوپہر کی اور کہا "سیاسی ایجنڈے کو پروان چڑھانے والا فوج میں جوابدہ ہوتا ہے ادارہ جاتی خوداحتسابی شواہد کی بنیاد پر ہوتی ہے امید ہے کہ باقی اداروں کوبھی ترغیب ملے گی۔ ریاستی اداروں پر عوامی اعتماد ہی ان کا بہترین سرمایہ ہے۔ دہشت گردوں سے آہنی ہاتھ سے نمٹا جائے گا "۔

جنرل فیضد حمید کیس کا بھی انہوں نے تذکرہ کیا۔ بولے " جنرل فیض کیس میں جو بھی ملوث ہوا اس کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ بھی کہا کہ فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں، کسی جماعت کے حامی یا مخالف نہیں ہیں"۔ باتیں انہوں نے اور بھی بہت ساری کیں لیکن مجھے یہی نکات قدرے اہم لگے ہم ان پر بات کرلیتے ہیں۔

فوج سے تعلق رکھنے و الے اعلیٰ افسروں نے کب سیاسی ایجنڈا پروان نہیں چڑھایا؟ کیا ملک میں تین مارشل لاء اور ا یک جرنیلی جمہوریت یونہی مسلط ہوگئے تھے یا کوئی علاقہ فتح کرکے مفتوحہ علاقے میں بندوبستی نظام قائم کیا گیا تھا جسے غلطی سے اس ملک میں لوگ مارشل لاء سمجھتے رہے اور ہیں بھی؟

بری فوج کے اولین دیسی یعنی مقامی کمانڈر انچیف ایوب خان ہوں، آخری سے پہلے کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان یا پھر تیسرے فوجی آمر جنرل محمد ضیاء الحق اور جرنیلی جمہوریت والے چوتھے فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف، ان چاروں نے اقتدار پر قبضہ کرتے وقت (آپ کہہ سکتے ہیں کہ یحییٰ خان نے قبضہ نہیں کیا ان کا انتقال اقتدار ایوب کی رخصتی تھا مارشل لاء کے بغیر منتقلی اقتدار ممکن نہیں تھا لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ یحییٰ خان کا مارشل لاء خود ایوب کے صدارتی آئین سے انحراف تھا اس آئین کے مطابق صدر مملکت قومی اسمبلی کے سپیکر کو بننا چاہیے تھا وہ عبوری دور کے سربراہ ہوتے الیکشن کراکے انتقال اقتدار کو یقینی بناتے) جو تقاریر کیں ان میں سے ایک تقریر بتادیجئے جو اس امر کی نشاندہی کرتی ہو کہ مارشل لاء سوچے سمجھے منصوبے کے تحت نہیں بلکہ ہنگامی حالات کی وجہ سے لگایا گیا تھا؟

چاروں فوجی آمروں کی "میرے عزیز ہموطنوں" والی اولین تقاریر میں سیاسی نظام اور سیاستدانوں کے لئے جو کچھ کہا گیا اس کا ایک ایک لفظ اس امر کا شاہد ہے کہ مارشل لاء لگانے کی منصوبہ بندی خاصے عرصے سے جاری تھی۔ مجموعی طور پر اس ملک میں عوام کے ظاہراً 34 برس نگل جانے والے ان چار فوجی آمروں کا "ادارے" نے حلف کی خلاف وزی پر احتساب کیوں نہ کیا؟

جنرل فیض والا احتساب فوج کے داخلی نظام میں موجود احتساب و جوابدہی کی وجہ سے نہیں بلکہ 9 مئی 2023ء کے ان واقعات کی وجہ سے جن پر ان سطور میں انہی دنوں عرض کیا تھا کہ "9 مئی ریٹائر فوجی افسروں کا بنایا ہوا بغاوت کا منصوبہ تھا۔ یہ منصوبہ ناکام کیوں ہوا اس بارے بھی انہی دنوں لکھے گئے کالموں میں تفصیل کے ساتھ عرض کرچکا سو اب بھی میری رائے یہی ہے کہ اس احتساب میں دیر کردی گئی اور اگر واقعتاً یہ سنجیدہ احتساب ہے تو پھر کم از کم 2018ء کے ان انتخابات سے شروع کیجئے جس میں آر ٹی ایس بٹھاکر پی ٹی آئی کو سنگل لارجسٹ پارٹی بنوایا گیا اور اگلے مرحلے پر آزاد امیدواروں کو پی ٹی آئی میں بھرتی کرایا گیا

لایئے احتساب کے کٹہرے میں اس کرنل کو جو عمران خان کے ساڑھے تین برس کے دور میں پارلیمان چلاتا رہا پوچھئے سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے کہ اس نے دوبار ملک میں مارشل لاء لگانے کی دھمکی نہیں دی تھی۔

پہلی بار اس وقت جب گلگت بلتستان کے انتخابات سے قبل جنرل باجوہ کے بلائے گئے مشاورتی اجلاس میں بلاول بھٹو اور ان کے درمیان تلخی ہوئی تھی اس تلخی پر باجوہ نے کہا "ابھی تمہارے سیکھنے کے دن ہیں ہمیں مت سکھائو ورنہ ملک میں مارشل لاء لگ سکتا ہے" بلاول بھٹو نے جواباً کہا

"مارشل لاء لگ سکتا ہے تو لگالیجئے ویسے یہ صرف اعلان ہی ہوگا کیونکہ 2018ء کے انتخابات کے بعد سے یہ ملک غیراعلانیہ مارشل لاء کے تحت ہی چلایاجا رہا ہے "۔

دوسری بار مارشل لاء لگانے کی دھمکی اس وقت دی گئی جب صدر عارف علوی نے باجوہ کو حلفاً یقین دہانی کرائی کہ "اگر وہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد واپس کروادیں تو تین ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کرادیئے جائیں گے اور آپ کو مزید تین سال کے لئے توسیع بھی دے دی جائے گی"۔

اس یقین دہانی کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلزپارٹی کے علاوہ اختر مینگل، ایم کیو ایم، بی اے پی وغیرہ اس اجلاس میں شریک تھے جس میں جنرل باجوہ نے کہا "وزیراعظم تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی صورت میں تن ماہ بعد اسمبلیاں تحلیل کرکے انتخابات کرادیں گے۔ جنرل باجوہ کی اس بات پر بلاول بھٹو نے کہا

"جنرل صاحب ایوان صدر میں طے ہونے والے مکمل پروگرام سے آگاہ کیجئے یہ تو صرف ایک بات ہے اس پر بلاول اور باجوہ میں تلخی ہوئی اور باجوہ نے کہا "حالات خراب ہیں ملک میں مارشل لاء لگ سکتا ہے"۔

بلاول نے جواب دیا

"بسم اللہ ہم یہاں سے باہر جاکر عوام کو بتادیتے ہیں کہ آرمی چیف ہمیں مارشل لاء لگانے کی دھمکی دے رہا ہے "۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جنرل (ر) فی، ض حمید کا احتساب کیجئے، 9 مئی کے سابق و حاضر کرداروں کے ساتھ واردات کامیاب ہونے پر بینیفشری بننے والوں کی لائن میں لگے ہوئوں کو بھی انصاف کے کٹہرے میں ضرور لائیے مگر کیا فیض تنہا مجرم ہے؟

مان لیا فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں اور وہ کسی سیاسی جماعت کی حامی یا مخالف نہیں۔ یقین کیجئے یہ بات ماننے کے لئے خاصا جگرا درکار ہے۔

دہشت گردی کے خاتمہ کے لئے آپ (یعنی فوج) یقیناً کوئی کسر نہیں اٹھارکھیں گے لیکن کیا دہشت گردوں سے کابل مذاکرات کرنے والے 103سزا یافتہ دہشت گردوں کو صدارتی فرمان کے ذریعے رہا کروانے والوں، دہشت گردوں کی جانب سے 7 ارب روپے خون بہا طلب کرنے پر اطلاعات کے مطابق 3 ارب روپے دینے والوں کے خلاف بھی کوئی کارروائی ہوگی اور کیا یہ سارے کام تنہا فیض حمید نے کئے تھے۔ باجوہ، عمران خان، محمود خان، بیرسٹر سیف وغیرہ روٹی کو چوچی کہتے بے قصور بچے تھے۔

بلوچستان کے حوالے سے بھی زریں خیالات کا اظہار کیا گیا۔ بیرونی فنڈنگ ہے تو ثبوت عوام کے سامنے رکھیں۔ بندوق برداری ریاستی ہو یا غیرریاستی دونوں غلط ہیں چلیں مان لیا ریاستی بندوق برداری ریاست کی رٹ قائم رکھنے کے لئے ہے۔ سوال مگر یہ ہے کہ بلوچستان کے سلگتے مسائل جو آتش فشاں کی طرح پھٹنے والے ہیں کا کبھی سنجیدگی سے تجزیہ کیا گیا۔ کیا گیا تو کس نے کیا؟

سڑکیں بنائیں تو کیا رباست نے بلوچستان کےلوگوں پر احسان کیا ترقیاتی منصوبوں کو مکل کرنا ریاست کے فرائض میں شامل ہے۔

یہ بھی مان لیا کہ بی ایل اے وغیرہ غیرملکی ایجنڈے پر ہیں لیکن حضور رمضان مینگل یا دو تین دوسرے کرداروں (ان میں سرفراز بگٹی کا نام بھی آتا ہے) کے نجی امن لشکروں کا ایجنڈا کیا تھا؟

ہماری نسل کے لوگ (60 سے 70 برس تک یا درمیانی عمر والے) ہوں یا ہمارے بعد کی نسلوں کے لوگ، سبھی جانتے ہیں کہ اس ملک میں فیصلہ سازی کا حق فائق کس کے پاس ہے۔ یہ لولی لنگڑی جمہوری حکومتیں تو بس ایک تکلف ہیں۔

1970ء سے 2024ء تک کے انتخابات میں سے ایک انتخابات بتا دیجئے جن سے ضرورت کے مطابق نتائج کشید نہیں کئے گئے۔ سوال یہ ہے کہ اگر فوج کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں تو پچھلے کم از کم پچاس برسوں سے (یہ اصل میں تو 53 برس بنتے ہیں) تکرار کے ساتھ یہ بات کیوں کہی جارہی ہے۔

حضور کچھ تو ہے جس کی پردہ داری مقصود و مطلوب ہے۔ داخلی احتساب کے درست اور کامل ہونے کا اتنا ہی زعم ہے تو لائیے ان صاحب کو احتساب کے کٹہرے میں جنہوں نے 2018ء کے انتخابات کے بعد ٹیوٹ کی تھی

"اللہ ہی ہے جو عزت اور ذلت عطا کرتا ہے" پوچھئے ان حضرت سے پھر ٹیویٹ ڈیلیٹ کیوں کردی؟

بتایئے کہ ففتھ جنریشن وار کا لشکر کیوں تشکیل دیا گیا ان پر اخراجات کی رقم کہاں سے آئی۔ یقیناً سوالات ناگوار گزریں گے لیکن کیا کیجئے سوال تو ہوں گے کیونکہ معمولی سی فہم کے حامل شخص کو بھی معلوم ہے کہ یہ جمہوری نہیں سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔

پیارے قارئین! دوباتیں اور تھیں وہ رہ گئیں ایک بلوچستان کے حوالے سے فورسز کو خصوصی اختیارات اور مزید وسائل دینے کے ساتھ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997ء میں ترمیم اور دوسری آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا یہ کہنا کہ "سیاسی اختلافات کو نفرتوں میں نو ڈھلنے دیں" کالم کے دامن میں گنجائش نہیں ان دونوں پر اگلے کالم میں بات کریں گے۔