عالمی ریٹنگ ایجنسی "فچ" کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی موجودہ حکومت 18 ماہ تک برقرار ہے گی پھر ٹیکنو کریٹ سیٹ آپ آئے گا۔ رپورٹ کے مطابق سیاسی عدم استحکام، کمزور معیشت کے باوجود شرح نمو 3.2فیصد رہنے اور بجٹ خسارہ کم ہونے کے امکانات ہیں البتہ بجٹ اہداف حاصل نہیں ہوسکیں گے۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے "فچ" کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ "غلط معلومات سے انتشار پھیلایا جاتا ہے یہ دنیا بھر کے لئے بڑا چیلنج ہے سی پیک آگے بڑھ رہا ہے ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام آئے گا"۔
کیا سی پیک کے آگے بڑھنے اور مزید 15 ارب ڈالر کے منصوبوں کے حصول کے ساتھ واجب الادا قرضے اس کے باوجود بھی ری شیڈول ہوجائیں گے کہ وزیراعظم شہباز شریف کے گزشتہ دورہ چین کے دوران چینی حکام سے کئے گئے وعدوں پر عمل نہ ہو؟ منصوبہ بندی کے وزیر اگر لگے ہاتھوں چینی قیادت کے مطالبات وزیراعظم اور دیگر حکام کے وعدے اور پھر لمبی خاموشی کی وجوہات پر بھی روشنی ڈال دیتے تو کم از کم عوام یہ ضرور جان پاتے کہ چینی حکام کیا چاہتے ہیں۔
ترجیحات کیا ہیں اور شرائط کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیراعظم کے دورہ چین میں طے پائے امور پر عدم عمل کی وجہ امریکی کانگریس کی وہ قرارداد ہے جس کے لئے ورلڈ جیوش کانگریس اور ایک پاکستانی گروپ نے لابنگ کرنے والی فرموں کے ذریعے اسی امریکہ کے سب سے بڑے منتخب ایوان کانگریس سے قرارداد منظور کرواکے اسی امریکہ کو پاکستانی سیاست میں فریق بنادیا جس پر قبل ازیں سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کی حکومت کو گرانے کے لئے پاکستانی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور پی ٹی آئی کے سیاسی مخالفین کی سرپرستی کا الزام تواتر کے ساتھ لگاتے رہے۔
اندریں حالات اس رائے میں کتنا وزن ہے کہ پاکستان میں 2014ء سے سیاسی اتھل پتھل الزامات کی گونج اور تبدیلیوں کے ظاہری منظرنامے کے پیچھے اصل میں امریکہ اور چین کے علاقائی مفادات کے تحفظ کی جنگ ہورہی ہے۔
یہ بھی کہا جارہاہے کہ عمران خان کی حکومت کا 2021ء میں آئی ایم ایف سے معاہدہ اور پھر اس معاہدے کی خلاف ورزی بھی ایک منصوبے ک حصہ تھا اور منصوبہ ساز امریکی لابی تھی
اس رائے کے حاملین عمران دور میں سی پیک کو غیراعلانیہ منجمد کرنے اور بعض دوسرے واقعات کو اپنی دلیل کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ان آراء، دلیلوں اور تجزیوں میں صداقت کتنی ہے اور منو رنجن کتنا اس کا فیصلہ کیسے ہو؟ ایک طریقہ یہ ہے کہ حکومت سارے معاملات پارلیمنٹ میں لے آئے دوسرا طریقہ ان مسائل و آراء پر ذرائع ابلاغ پر مباحثہ ہے مگر کیا پاکستانی ذرائع ابلاغ شعوری بلوغت کا حامل ہے کہ اس کے کرتا دھرتائوں کو معاملات کا ادراک ہو اور وہ مباحثوں کا اہتمام کرسکیں؟
اس سوال کا بظاہر جواب نفی میں ہی ہے کیونکہ ملٹی نیشنل کپمنیوں کے کمرشل اور حکومت کے نیم کمرشل اشتہارات کی دوڑ میں بھاگتے ذرائع ابلاغ کے ذمہ داران حقائق کو مسخ کرنے اور ریٹنگ کے لئے ہر حد کراس کرلیتے ہیں لیکن جہاں 25 کروڑ لوگوں کے مفادات کا معاملہ ہو ان کے دہن خشک اور پر جلنے لگتے ہیں۔
عالمی ریٹنگ ایجنسی "فچ" کی رپورٹ پر اس لئے حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ انتخابات سے قبل مسلم لیگ (ن) کی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جو معاملات طے پائے تھے ان میں اہم ترین بات حکومت کا دورانیہ اڑھائی برس ہونے پر اتفاق تھا۔ اب اگر اونچے ایوانوں میں اس مدت کے کم ہونے پر باتیں ہونے لگی ہیں تو پھر اس امر پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) اور اسٹیبلشمنٹ اپنے اپنے طور پر طے شدہ امور نہیں نمٹاسکے تو اس کی وجہ کیا ہے؟
کسی سطح پر موجود کوئی تقسیم اس صورتحال کی ذمہ دار ہے یا وعدہ سازوں میں اہلیت ہی نہیں تھی۔
اس امر پر دو آراء ہرگز نہیں کہ ملک میں سیاسی عدم استحکام ہے اور معاشی ابتری بھی ٹیکسوں کے نام پر عام شہری کی کھال اتارنے کے درپے حکومت اشرافیہ کے طبقات اور ریاستی اداروں پر نوازشات جاری رکھے ہوئے ہے۔
اعلیٰ عدلیہ میں ا یک بار پھر بندیال دور جیسی تقسیم دیکھنے میں آرہی ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ محض چہرے بدلے ہیں ترجیحات نہیں۔
یہی وہ نکتہ ہے جو اس امر پر از سرنو غور کی دعوت دیتا ہے کہ موجودہ اتحادی حکومت کے بڑوں کو ٹھنڈے دل کے ساتھ سوچنا چاہیے کہ 2022ء میں لائی گئی تحریک عدم اعتماد سے جمہور اور جمہوریت کو کیا حاصل ہوا؟ دیوار پر لکھی حقیقت یہ ہے کہ کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کیا گیا سیاسی عدم استحکام اور معاشی ابتری کی حقیقی ذمہ دار قوتوں کو محفوظ راستہ ہی نہیں ملا بلکہ وہ پہلے سے مضبوط ہوگئیں۔
ہماری دانست میں موجودہ صورتحال اور مستقبل قریب کے منظرنامے کو احسن اقبال کے دعوئوں کی بجائے وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کے ایک حالیہ انٹرویو اور ایک ٹی وی پروگرام میں کی گئی گفتگو سے سمجھنے کی کوشش زیادہ مفید رہے گی۔ خواجہ آصف کہتے ہیں"آئینی میلٹ کا خطرہ ہے۔ "فچ" کی رپورٹ میں وزن ہے۔ ٹیکنو کریٹ حکومت میں شمولیت کے لئے لوگ تیار بیٹھے ہیں۔ سرگوشیاں ہورہی ہیں کہ اکتوبر آنے دیں پھر عام انتخابات کے خلاف دائر درخواست بھی لگادیں گے۔ یہ کہ الیکشن منسوخ کرنے کی باتیں ہورہی ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت بچانے کے لئے ہم ہر حد تک جائیں گے"۔
اس سادگی پر مرجانے کو جی چاہتا ہے وجہ یہی ہے کہ جو وزیر دفاع اکتوبر میں انتخابات والی درخواست سماعت کے لئے لگانے اور الیکشن منسوخ کرنے والی باتوں کے کرداروں، مقام گفتگو وغیرہ بارے کھل کر بات نہیں کرسکتا اس کی دیگر باتوں سے محض "حظ" ہی اٹھایا جاسکتا ہے۔
حکومت بچانے کے لئے مسلم لیگ (ن) تنہا یا اتحادیوں کے ساتھ کس حد تک جاسکتی ہے اس پر لمبے چوڑے تبصرے کی ضرورت نہیں وجہ یہی ہے کہ حکومت کو چومکھی لڑائی کے ساتھ امریکی دبائو کا بھی سامنا ہے اس کے ساتھ ساتھ ورلڈ جیوش کانگریس کی جانب سے امریکہ اور یورپی ممالک میں پاکستانی حکومت کے خلاف سرگرم لابنگ کا بھی۔
بہرطور یہ وہ حالات ہیں جن پر بات ہونی چاہیے لیکن کرے گا کون؟ یہ اہم سوال ہے۔
بہتر ہوگا کہ یہ تسلیم کرلیا جائے کہ دروغ گوئوں کا حلقہ حکومت کے مقابلہ میں طاقتور و باوسائل ہے مزید یہ کہ اس حلقے کو ایسے عناصر کا تعاون بھی حاصل ہے جو ملک میں عدم استحکام کو اپنی روزی روٹی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔
ان سب باتوں اور گھاتوں کی پردہ داری سے نقصان زیادہ ہوگا اس لئے کھل کر دو ٹوک انداز میں بات کرنے کی ضرورت ہے۔