گزشتہ چند دنوں کے دوران جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے خیبر پختونخوا میں بڑھتی ہوئی طالبانائزیشن اور بالخصوص پختونخوا کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، لکی مروت، ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک کی صورتحال کا جو نقشہ قومی اسمبلی میں اپنے خطاب چند تقاریب میں کی گئی تقاریر اور ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگوئوں میں کھینچا اس سے صرف نظر ممکن نہیں۔
اسلام آباد اور پنجاب کے اہل دانش سیاسی کارکنوں او صحافیوں کو احساس ہی نہیں کہ حالات دبے پائوں نہیں تیزی کے ساتھ کس طرف بڑھ بھاگ رہے ہیں۔ اکثر دوست (ان میں صحافی وغیر صحافی دونوں شامل ہیں) طعنہ دیتے ہیں کہ میں مولانا فضل الرحمن کو اس کے باوجود اہمیت دیتا ہوں کہ وہ ایک مسلک کی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ اس طعنے پر فقط مسکرادینا کافی ہے جواب آں غزل کہنے یا بحث کا فائدہ کوئی نہیں۔
سال 2003ء میں اس تحریر نویس نے ایک تحریر میں عرض کیا تھا کہ دیوبندی علماء میں عصری سیاست، جوڑتوڑ، رواداری اور جدید موضوعات کےساتھ علاقائی سیاست کے حوالے سے مکالمے کے لئے مولانا فضل الحمن سے بہتر دوسرا کوئی نہیں۔ دو عشروں بعد بھی میں اپنی اس رائے پر قائم ہوں گو کہ اس دوران ان سے صرف دو ملاقاتیں ہوپائیں۔ آیئے ہم اپنے اصل موضوع پر بات کرتے ہیں۔
تمہیدی سطور میں چونکہ مولانا فضل الرحمن کے اس حساس مسئلہ (طالبانائزیشن) پر تازہ خیالات کا ذکر کیا تھا اس لئے بات سے بات نکلتی چلی گئی۔ ہم آگے بڑھتے ہیں ماضی میں تحریک انصاف کے دور میں کالعدم ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات کا جو ڈول ڈالا گیا اس کے لئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، جنرل فیض حمید اور وزیراعظم عمران خان ایک پیج پر تھے
آج اگر کوئی یہ کہے کہ اس کے ذمہ دار تنہا باجوہ تھے یا یہ صرف عمران اور فیض حمید کا منصوبہ تھا دونوں جھوٹ بولتے ہیں۔
ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور حکومت وقت اس معاملے میں مکمل طورپر یکسو اور متفق تھے تبھی تو اس وقت کے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے تحریک انصاف کی صوبائی حکومت کے سربراہ وزیراعلیٰ محمود خان کی جانب سے بھجوائے گئے خط اور فہرست پر صدارتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے 250سے زائد ایسے دہشت گردوں کی رہائی کاحکم دیا جن میں سے اکثر سنگین جرائم میں سزا یافتہ تھے۔
گو صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے بعد میں ایک موقع پر کہا کہ انہوں نے صرف اس اپیل نما خط پر دستخط کئے جو انہیں جنرل فیض حمید نے پڑھ کر سنایا اس تحریر نویس کی معلومات کے مطابق محمود خان نے غلط بیانی سے کام لیا کیونکہ صدر مملکت کو خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے بھجوائی گئی اپیل کا ڈرافٹ اسلام آباد میں تیار ہوا ڈرافٹ کی تیاری کے مرحلے میں قومی اسمبلی کے اس وقت کے سپیکر اسد قیصر، وفاقی وزیر مملکت علی محمد خان، وفاقی وزیر مراد سعید، خود محمود خان اور صوبائی حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف موجود تھے۔
سادہ لفظوں میں یہ کہ ٹی ٹی پی سے کابل مذاکرات پر خود پی ٹی آئی کے اندر بھی اتفاق رائے پایا جاتا تھا۔ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس معاملے پر تحریک انصاف کے غیر پشتون رہنماوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔
پی ٹی آئی حکومت اور کالعدم تحریک طالبان کے درمیان کابل میں ہونے والے مذاکرات پر ان دنوں بھی بہت نقدونظر ہوا لیکن ریاست اور حکومت چونکہ متفق تھے اس لئے اختلافی آوازیں سنی گئیں نہ ہی مذاکرات کے حوالے سے یا طے پائے امور ہر دو پر پارلیمان کو اعتماد میں لیا گیا۔
یہ بات درست ہے کہ کابل مذاکرات کے بعد لگ بھگ 25 ہزار افراد کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں واپس آنے کی اجازت دی گئی لیکن ان 25 ہزار افراد میں جنگجووں کے اہل خانہ بھی شامل تھے۔ کابل مذاکرات میں طالبان نے جو مطالبات کئے ان میں اہم ترین مطالبات میں بندوبستی علاقوں میں (یعنی صوبے میں) ضم شدہ قبائلی علاقوں کی ایف سی آر کے تحت واپس بحالی، حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان جنگ کے برسوں میں ٹی ٹی پی کے ہونے والے جانی نقصان کا 7 ارب روپے تاوان اور سابق قبائلی علاقوں میں امن جرگوں کا خاتمہ بھی شامل تھے۔
آخری دو مطالبات کے لئے وقت لیا گیا یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ آئندہ عام انتخابات کے بعد جب پی ٹی آئی دوبارہ اقتدار میں آئے گی اور اس کے پاس دو تہائی اکثریت ہوگی وہ قانون سازی کے ذریعے کابل مذاکرات میں طے پانے والے امور کو تحفظ فراہم کرے گی۔
خیبر پختونخوا اور خصوصاً اس کے جنوبی اضلاع اور شمالی و جنوبی وزیرستان میں طالبانائزیشن سے پیدا شدہ نئی صورتحال کو سمجھنے کے لئے اس پس منظر کو پڑھنے والوں کے لئے رقم کرنا ازبس ضروری تھا۔
خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سے بنوں اور کرک میں ابھی طالبان ماضی والا اثرورسوخ حاصل نہیں کرپائے البتہ لکی مروت، ٹانک اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ان کے اثرورسوخ اور نقدوصولیوں سے انکار خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں۔
مثلاً ڈی آئی خان سے بنوں بائی پاس تک پٹرول پمپوں اور ہوٹلوں کے علاوہ دیگر کاروبار کرنے والے تحفظ کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ ضلع ڈی آئی خان کی حدود میں فی پٹرول پمپ 30 ہزار سے 50 ہزار روپے ماہانہ "حفاظتی" نرخ ہیں۔
اس وقت جو تنظیم ان تین اضلاع میں سب سے زیادہ حفاظتی خدمات کی قیمت وصول کررہی ہے وہ وہی ہے جس نے دو ماہ قبل ایک سیشن جج کو اغوا کرکے پانچ کروڑ روپے تاوان لیا تھا۔ ہم اس پر بات نہیں کررہے کہ کیا پورے پانچ کروڑ روپے اغوا کنندگان نے وصول کئے یا ففٹی ففٹی پر معاملہ ہوا۔
ہماری رائے میں مولانا فضل الرحمن درست خطرات کی نشاندہی کررہے ہیں۔ پانچ جنوبی اضلاع میں عموماً اور تین لکی مروت، ڈیرہ اور ٹانک میں خصوصاً جو صورتحال ہے اور پھر شمالی وزیرستان میں جس طرح کالعدم ٹی ٹی پی اور حال ہی میں جنم لینے والی تحریک المجاہدین والے منظم ہورہے ہیں اس حقیقت سے چشم پوشی ممکن ہی نہیں۔
کابل میں افغان طالبان کی واپسی کے بعد 20 قسطوں میں لکھے گئے افغان منظرنامے کے علاوہ بھی ان سطور یمں تواتر کے ساتھ عرض کرتا ارٓہا ہوں کہ کالعدم ٹی ٹی پی کرم ایجنسی، اورکزئی ایجنسی، بنوں، کرک، لکی مروت، شمالی و جنوبی وزیرستان ڈیرہ اور ٹانک پر مشتمل امارات اسلامیہ کے قیام کا ایجنڈا لئے ہوئے ہے۔ کابل مذاکرات کے دوران بھی ٹی ٹی پی کے مذاکرات کار یہ کہتے رہے کہ اگر امارات اسلامیہ یعنی ٹی ٹی پی کی ریاستی طرز حکمرانی کے قیام کے لئے شرائط مان لی جائیں تو ٹی ٹی پی اور اس کے ہم خیال گروپ اپنی کارروائیاں روک دیں گے۔
اس امر کا اعتراف بہرطور ضروری ہے کہ ٹی ٹی پی کے معاملے میں اپنی ترجیحات کی اسیر تحریک انصاف کی قیادت نے امارات اسلامیہ والے خواب کو تعبیر دینے میں تعاون نہیں کیا اسے اس کا خمیازہ پھر یوں ادا کرنا پڑا کہ اس وقت کے وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے خاندان نے بھی مجموعی طور پر ساڑھے چار سے چھ کروڑ روپے بطور تاوان ٹی ٹی پی کو ادا کئے۔ متعدد صوبائی وزراء اور مرکزی رہنمائوں کے خندان بھی بھتے دیتے رہے۔
یہ عرض کرنے میں رتی برابر تامل نہیں کہ جنوبی اضلاع اور بالخصوص لکی مروت، ٹانک و ڈیرہ کی حدود میں ٹی ٹی پی کے مختلف دھڑوں اور تحریک المجاہدین کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے انتباہ کو محض ناراض سیاسی رہنما کی بڑھ کہہ کر نظرانداز کردینا صریحاً غلط ہوگا۔
بہتر یہی ہے کہ اس سارے معاملے کو درست تفہیم کے ساتھ سمجھنے کے لئے پارلیمانی کمیٹی بنائی جائے جس میں چاروں صوبوں کی نمائندگی بھی ہوتاکہ عوام پورا سچ جان سکیں۔