یہ کالم لگ بھگ آٹھ نو برس قبل لکھا تھا بعد کے ماہ و سال تو کیا آج بھی حالات میں رتی برابر فرق نہیں آیا آپ مولوی عبدل کا اللہ میاں جی کے نام لکھے گئے خط سے ایک بار پھر دلپشوری کیجے وہ لکھتے ہیں۔
پیارے اللہ میاں جی!
اب تو حالت یہ ہوگئی ہے کہ لڑکے بالے بھی ہم خدمت گزارانِ دین کا مذاق اڑانے لگ گئے ہیں۔ کس "محنت اور مشقت" سے دینداری کا ٹھیکہ ملتا ہے انہیں کیا معلوم۔ خدمت کے لئے تیرے انتخاب پر چیں بچیں ہونے والے اصل میں کافرانہ علوم کے گمراہ یافتہ ہیں۔ وہی ہیں جن کے دل و دماغ اور زبانوں پر "مہریں" لگا دی گئی ہیں۔ پتہ نہیں کیسے ان کو اذنِ گویائی مل گیا۔ ایک ہم ہیں صدقہ و خیرات اور زکوٰۃ کے نام پر بکری، بکرا، اونٹ، دنبہ، گائے، بیل اور دال ساگ جو ملا کھا لیا، شکر کیا۔
اور ایک یہ ہیں بات بات میں سے کیڑے نکالتے ہیں۔ مت ماری گئی ہے ان کی۔ ہماری بات سنتے ہی نہیں، یہ ہیں تعداد میں تھوڑے۔ زیادہ تر تو وہ ہیں جو حلق تک یہ سمجھتے ہیں کہ ہم تیرے منتخب بندے ہیں۔ جنت کا پرمٹ فروخت کرنے والے اور دوزخ خیرات کرنے والے۔ کچھ ناسمجھ قسم کے لوگ یورپی کتابیں پڑھ کر ہمیں علموں کورا ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔
ذرا کسی دن "ضرب، یضربو، ضرباََ" کی نصف گھنٹہ گردان کرکے دکھلائیں سارا علم چوکڑیاں بھرتا رخصت بلکہ بھاگ جائے گا۔ عجیب ناشکرے ہیں ہماری سنتے ہی نہیں۔ کہتے ہیں طبقے تو طاقت والوں نے بنائے تھے۔ انہیں تیری تقسیم سمجھانے کی کوشش میں ہماری تو مت ماری گئی ہے۔ اب بھلا کیا اس مختصر سے طبقے کی خاطر اپنے خوانچے بڑھا کر کوئی دوسرا کام تلاش کرنے نکل کھڑے ہوں؟
اللہ میاں جی! یہ کیا دنیا پر غالب لانے کا وعدہ ہم سے، دنیا فرنگیوں کو اور مرزا غالب نامی شاعر ہمیں، وہ بھی بلا کا بادہ نوش اور منہ پھٹ۔ کہتا تھا کہ اگر مسجد پینے کی جگہ نہیں تو پھر وہ جگہ بتلاؤ جہاں خدا نہ ہو۔
ایک تو اس نگوڑے مرزا غالب کی اردو مشکل ہے اوپر سے ایسی شاعری کہ نہ چاہتے ہوئے بھی کبھی کبھی جنت والی "چیز" یہاں پی لینے کو جی کرتا ہے۔ اس مرزے غالب کو تو کم از کم ہم سے پوچھ کر ہندوستان میں پیدا کرنا تھا۔
کل اس کے مسلمہ کفر کا فتویٰ تیار کرلیا تھا پھر اس کے ایک مداح نے اس کا کچھ فارسی کلام دکھایا جس میں اس نے رسول اکرم ﷺ اور آپ ﷺ کی آلِ اطہارؑ کی مدح کی ہے۔ فتویٰ پھاڑنا پڑا اور کیا کرتا؟ نہ پھاڑتا تو تیرے ہتھ چھٹ قسم کے بندے تو ہی جانے کیا کر گزرتے۔
اب دیکھو ناں یہ تو کوئی بات نہیں کہ کچھ عجیب و غریب حلیے والے ہم ایسوں سے پوچھتے ہیں"مولوی جی! آپ نے کبھی میر، آتش، داغ، دہلوی، سواد اور مجاز کو پڑھا ہے"؟ ہماری بلا جانے ان کو۔ پھر استاد جی نے بھی تو کبھی ان کا ذکر نہیں کیا اور جس کا ذکر استاد نہ کرے وہ تو بالکل ہی حرام چیز ہوگی۔
ان کو جواب دینے کے لئے پانچ چھ بار حضرت علامہ محمد اقبال کو پڑھنے کی کوشش کی مگر اللہ میاں جی! آپ کی قسم وہ بھی اندر سے پکا "حضرت" ہی نکلا۔ انہی جیسی باتاں کرتا ہے وہ بھی۔ "مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی" تو بس ٹریلر ہے اس کی شاعری کا ورنہ باقی شاعری میں تیرے بندوں کو مولویں کے خلاف اکساتا رہتا ہے۔
اب دیکھو ناں بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ ایک جگہ یہ علامہ اقبال کہہ رہا ہے "ملاں کی اذاں اور ہے مجاہد کی اذاں اور"۔ عجیب بات ہے اذان تو جو بھی دے گا اللہ اکبر سے شروع کرے گا اور لا الہ الا اللہ پر ختم۔ پھر فرق کیا ہے ہماری اور مجاہد کی اذاں میں؟
ہاں اگر ان کا مطلب لاؤڈ سپیکر اور خود کش جیکٹ والی اذانوں کے فرق کا ہے تو یہ بھی کوئی اچھی بات نہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی میں گمراہوں کی تعداد بھی تو زیادہ ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ تیرے پراسرار بندے اس خطرے کو ٹالنے کے لئے "فرض" ادا کرتے ہیں اور یہ دنیادار مذاق اڑاتے ہیں۔
ایک شکوہ اور بھی ہے اللہ میاں جی!
وہ یہ کہ اب تیرے ناشکرے بندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ ہماری سنتے تو ہیں لیکن ایسا لگتا ہے ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں۔ ظلم یہ ہے کہ ہمیں طعنہ دیتے ہیں کہ لاؤڈ سپیکر ریڈیو ٹی وی اور تصویر جس جس چیز کو حرام قرار دیا تھا بڑے مولویوں نے اب وہ ساری چیزیں ہمارے استعمال میں ہیں۔ اتنی بات نہیں سمجھتے یہ لوگ کہ ہم یہ چیزیں ان چیزوں کا "حرامی پن" جاننے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔
نہ کریں تو کیسے معلوم پڑے گا کہ ان چیزوں کے برے اثرات کیسے مرتب ہوتے ہیں۔ چھ سے آٹھ سپیکر جو مسجد کے مینار پر لگوا رکھے ہیں ان پر اٹھتے بیٹھتے اعتراض کرتے ہیں۔ رات دو بجے سونے والوں کو نماز فجر یاد نہ کروائیں ہم تو پھر ہماری زندگی تو بے فائدہ ہوئی۔
یہ لوگ شادی والے گھروں پر ڈیک کے ساتھ سپیکر الگ سے لگاتے ہیں اس وقت محلے کے بزرگوں، بیماروں اور امتحان دینے والے بچوں کا احساس نہیں ہوتا ان کو۔ ہماری روحانی تقریروں سے ماحول خراب ہوتا ہے، لوگوں کو تکلیف ہوتی ہے۔
سچی بات کہوں اللہ میاں جی!
اگر میرے بس میں ہو تو ان سارے دنیا داروں کو دوزخ میں بھیج دوں۔ پھر ڈرتا ہوں یہ سارے مل کر وہاں بھی تحقیق کی جوت نہ جگا لیں اور نیا تماشا لگ جائے۔
پیارے اللہ میاں جی!
شکوے ہمیں بھی بہت ہیں۔ ایک کا ذکر تو اوپر کر چکا دوسرا یہ ہے کہ یہ موئے فرنگی تو مزے سے رہتے ہیں۔ صاف ستھرا گھر، شہر، پرامن ماحول، جانوروں تک کا علاج کافر حکومت خود کرواتی ہے یہاں ہم ہیں کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ اوپر سے ظلم یہ ہے کہ مسلمان روپے کے بدلے میں ایک کافر ڈالر مہنگا ملتا ہے۔
پرسوں سے پرلے دن محلے کے کیبل والے سے کہا بھائی ہمارے حجرے میں کیبل لگا دو۔ کہنے لگا مولوی جی! اللہ توبہ کرو۔ کم بخت کو اتنی بات سمجھ میں نہیں آئی کہ اللہ توبہ کا کوئی ذریعہ بھی تو ہو۔
اگر مجھے معلوم ہی نہ ہو کہ دین اسلام اور مسلمانوں کے دشمن دن رات کیسی کیسی سازشیں کرتے پھرتے ہیں تو مسلمانوں کا جذبہ جہاد کیسے زندہ رکھوں گا؟
پیارے اللہ میاں جی!
ہمارے حال پر رحم فرما اس لئے کہ ہم رحم کے جذبے سے عاری ہیں۔ بھارت کی توپوں، اسرائیل کے ٹینکوں، امریکہ کے ایٹم بموں میں پانی بھر دے۔ ان کی بندوقوں کو زنگ لگا دے۔ مودی، وہی چاہے بیچنے والا نریند مودی اسے تو اندھا اور گونگا کر دے۔ بہت بولتا ہے۔
باقی بھی کچھ باتیں ہیں مگر فوری طور پر گلی کی اگلی نکڑ پر بنی نئی مسجد کے مولوی کو اپنے پاس بلا لے۔ جب سے آیا ہے میری تو زندگی حرام کر رکھی ہے۔ بدعتی ہے پکا اور میری مسجد پر فتوے پھینکتا رہتا ہے۔
اللہ میاں جی!
ایک بات صرف مجھے ہی بتانا۔ جو نظامِ حکومت امریکہ میں حلال ہے وہ پاکستان میں حلال کیوں نہیں ہو سکتا؟ ان گمراہوں کو ہدایت دے جو مولویوں کا جی بھر کر مذاق اڑاتے ہیں۔ کسی رات ایسا کر دے کہ اگلی صبح دنیامیں ان سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کا نام و نشان ہی نہ ملے جہاں ہمارے عقیدے اور اساتذہ کے ساتھ ساتھ ہمارے خلاف نوجوانوں کے کان بھرے جاتے ہیں۔
وہ ساری کتابیں ہی گم کر دے جو دینداری کے خلاف ہیں۔
اے میرے اور خالص میرے اللہ میاں جی!
پچھلے کئی دنوں سے محلے میں کوئی مرا ہی نہیں۔ ویسے دو چار لوگ مرے تو تھے مگر دوسرے مسلک کے تھے۔ کوئی سامان کر ایک دو جوڑے نئے کپڑوں کے علاہ دو چار ہزار روپے اکٹھے ملنے کا۔
اے مالکِ دوجہاں !
ایک بار پھر تیری بارگاہ میں عرض ہے امریکہ، اسرائیل، بھارت، لندن، برطانیہ، پیرس اور فرانس کے کافروں کو ان کے اسلحہ سمیت سمندروں میں غرق کر دے۔ مولویوں کے دشمنوں کو ہدایت دے۔ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ صدقہ، خیرات، زکوٰۃ اور عطیات دینے کی توفیق عطا فرما کہ مہنگائی سے برا حال ہے۔
اچھا پیارے اللہ میاں جی!
میرا ایک ذاتی کام بھی کردے۔ فرید اور اکبر میرے دونوں بیٹوں کو امریکہ کا ویزہ دلوا دے۔ تیری جناب میں کیا کمی ہے؟
اچھا اگر دونوں کے امریکہ جانے میں کوئی مسئلہ ہے تو کم از کم فرید کو تو لازمی بھجوا دے تاکہ وہ تیری بنائی ہوئی دنیا دیکھ کر شکر گزار بندوں میں شامل ہو۔
واسلام
فقط تیرا
مولوی عبدل بقلم خود