وہ بھی کیا دن تھے جب میاں نوازشریف اور مسلم لیگ (ن) کی قیادت اسٹیبلشمنٹ کو آڑے ہاتھوں لیتی تھی تو وزیراعظم عمران خان کہا کرتے تھے "جنرل باجوہ پاکستان کی تاریخ کے سب سے جمہوریت پسند آرمی چیف ہیں، یہ لوگ اس لئے اس کے خلاف ہیں کہ وہ ان چوروں کی سرپرستی کرنے کی بجائے میری حکومت کے ساتھ کھڑا ہے"۔
پھر وہ دن بھی آئے جب عمران خان نے اسی جنرل باجوہ کو میر جعفر میر صادق امریکی ٹوڈی، جمہوریت اور تبدیلی کا دشمن قرار دے دیا۔ اپنی حکومت گرائے جانے کو دو سال تک وہ امریکی سازش قرار دیتے رہے لیکن اگلے روز انہوں نے کہا میری حکومت جنرل باجوہ نے گرائی وہی اس کے ذمہ دار ہیں۔
ایک وقت تھا جب میاں نوازشریف کا خون جوش مارتا تھا وہ کہا کرتے تھے محترمہ بینظیر بھٹو سکیورٹی رسک ہیں، انہیں کہوٹہ ایٹمی پلانٹ وغیرہ کا دورہ اس لئے نہیں کروایا جاتا کہ ریاست بینظیر بھٹو کے بھارت سے تعلقات کی وجہ سے احتیاط کرتی ہے۔
جناب نوازشریف پیپلزپارٹی کو بھٹو خاندان سمیت سمندر میں پھینک کر اس ملک کو بھٹو کے سحر سے آزاد کروانا چاہتے تھے۔ وقت تبدیل ہوا یہ ہمیشہ ایک جیسا کب رہتا ہے۔ مسلم لیگ (ن) جنرل پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد اسی پیپلزپارٹی کے ساتھ اے آر ڈی میں بیٹھی۔ آگے چل کر دونوں جماعتوں میں میثاق جمہوریت بھی ہوا۔
ایک وقت تھا عمران خان نے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم کی نہ صرف حمایت کی بلکہ ریفرنڈم کے حق میں مہم چلائی ان دنوں وہ کہا کرتے تھے "جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی قیمت پر اگر پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) سے نجات مل جاتی ہے تو یہ برا سودا نہیں"۔
جنرل پرویز مشرف نے بھی انہیں خوب شیشے میں اتارا۔ شوکت خانم ہسپتال میں منعقدہ ظہرانے سے خطاب کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ عمران خان میرے وزیراعظم ہوں گے۔ 2002ء کے انتخابات سے قبل مشرف اور عمران میں دوریاں پیدا ہوئیں پرویز مشرف کہتے تھے "عمران نے قومی اسمبلی کی 117 سیٹیں مانگی تھیں (عمران خان نے بعد کہا ہمارے 90 امیدوار کامیابی کی پوزیشن میں تھے) لیکن ایجنسیوں کی رپورٹ یہ تھی کہ عمران صرف میانوالی سے ہی جیت سکے گا۔ اب میں ایک نشست والے کو کیسے وزیراعظم بنادیتا"۔
پرویز مشرف اور عمران کے اختلافات کا دور شروع ہوا تو عمران خان جلسوں تقاریب اور ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں تواتر کے ساتھ کہنے لگے کہ مشرف حکومت نے میاں نوازشریف کو بندوق کے زور پر پاکستان سے باہر بھیجا ہے۔
بالائی سطور میں دی گئی چند مثالیں ہماری مروجہ سیاست کی روش کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔ آپ کو ناگوار نہ گزرے تو ایک کڑوی مثال اور پیش کردوں۔ 1988ء کے عام انتخابات میں لاہور سے اسلامی جمہوری اتحاد کے قومی اسمبلی کے امیدوار حافظ سلمان بٹ نے ٹیکسالی کے قریب علی پارک میں جلسہ کرتے ہوئے بازار حسن کے لوگوں سے کہا کہ تم لوگ دو کوٹھے خالی کردو الیکشن کے بعد یہاں ماں بیٹی کو بٹھانا ہے یہ ماں بیٹی بیگم نصرت بھٹو اور محترمہ بینظیر بھٹو تھیں۔
جنرل پرویز مشرف دور کے بلدیاتی انتخابات میں یہی حافظ سلمان بٹ نائب ضلعی ناظم کے طور پر اس پینل میں شامل تھے جو پیپلزپارٹی کا حمایت یافتہ تھا۔
2013ء سے 2018ء کے درمیان آزاد کشمیر کی ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی مہم کے دوران پی پی پی کے سربراہ بلاول بھٹو نوازشریف کو مودی کا یار قرار دیتے نہیں تھکتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) نے آصف علی زرداری کو پروپیگنڈے کے زور پر مسٹر ٹن پرسنٹ بناکر پیش کیا آج بھی پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ موٹرویز کے ٹال پلازہ اور موبائل کارڈوں پر زرداری ٹیکس بھی شامل ہے۔
ہمارے محبوب و مربی مولانا فضل الرحمن ایم آر ڈی میں رہے۔ پھر عورت کی حکمرانی کے خلاف ہوگئے بعد میں عورت کی حکمرانی میں ہی اہم کمیٹیوں کے سربراہ بنائے گئے۔ چند دن قبل تک وہ کہتے تھے عمران خان ایک یہودی ایجنٹ ہے عالمی سامراجی طاقتوں نے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں موجود اپنے مہروں کے ذریعے اسے پاکستان پر مسلط کیا ہے۔
مولانا اس ضمن میں اور بھی بہت کچھ کہتے تھے مگر ان دنوں وہ پی ٹی آئی کے مسلم پشتون ولی کے علمبردار گروپ کی وجہ سے پی ٹی آئی سے اتحادی سیاست کے لئے مذاکراتوں کے ساتھ جماعتی سطح پر بھی غوروفکر کررہے ہیں۔
کچھ پیچھے چلیں، 1971ء سے جنرل ضیاء کے 5 جولائی 1977ء والے مارشل لاء کے درمیانی عرصے میں اس ملک کے اسلام پسند سیاسی رہنمائوں، صحافیوں اور دانشوروں نے ذوالفقار علی بھٹو ان کی اہلیہ، بیٹی اور مرحومہ والدہ کے لئے کیا کیا نہیں کہا لکھا۔ جماعت اسلامی والے تو بھٹو کے خون کے پیاسے تھے۔
بہت پیچھے جائیں تو جناح صاحب مولانا آزاد کو کانگریس کا شو بوائے کہتے دیکھائی دیتے ہیں۔ کانگرس، جمعیت علمائے ہند، مسلم لیگ اور جناح بارے کیا کہتی تھیں وہ بھی تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔
ہمارے محبوب ذوالفقار علی بھٹو ایوب خان کی کنونشن مسلم لیگ کے سیکٹری جنرل بھی رہے بی ڈی نظام والے صدارتی انتخابات میں ایوب کے چیف پولنگ ایجنٹ تھے۔
اچھا دلچسپ بات یہ ہے کہ ماضی اور حال کے سیاستدان، ملا، صحافی، دانشور وغیرہ وغیرہ ایک دوسرے کے خلاف زہر گھول کر پھر ایک ہوجاتے ہیں لیکن ان کے حامی رائے دہندگان اور دیگر ساری عمر یہ زہر چاٹتے رہتے ہیں۔
ان سطور میں ایک سے زائد بار عرض کرچکا کہ جمہوریت، جمہوری نظام اور سیاستدانوں کو گالی بناکر پیش کرنے کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی سرمایہ کاری ہے۔ اگر کسی دن اس ملک میں ایک قومی کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے جمہور دشمن کردار اور اس کی سرمایہ کاری بارے تحقیق کے لئے بنادیا گیا تو یقین کیجئے لوگ اسٹیبلشمنٹ کے بعض مرے ہوئے کرداروں کو قبروں سے نکال لائیں گے۔
حوصلہ رکھیں وہ دن کبھی نہیں آئے گا کیونکہ یہ ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے۔
ستم یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان اقتدار کے لئے سمجھوتوں کی سیاست کرتے ہیں ایک دوسرے کو گرانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ کو اپنا اپنا کاندھا تبرک کے طور پر پیش کرتے ہیں۔
ساعت بھر کے لئے رکئے میں اپنے ملتانی مخدوم پیر شاہ محمود قریشی کو تو بھول ہی گیا کہ کیسے انہوں نے ریمنڈ ڈیوس والے معاملے میں جنرل شجاع پاشا کے اشارے پر اپنی ہی جماعت پیپلزپارٹی کی پشت میں چھرا مارا تھا۔
سچ پوچھئے تو پاکستانی سیاست کی اس تاریخ کی وجہ سے ہی میں ان سطور میں عرض کرتا رہتا ہوں کہ سیاستدان ماضی سے سبق نہیں سیکھتے۔ جیسے تحریک انصاف والے ماضی سے سبق سیکھنے اور اسٹیبلشمنٹ کی گود میں بیٹھ کر اقتدار حاصل کرنے پر معذرت نہیں کرتے دوسرے بھی اسی دوغلے پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
کاش دعائوں سے بہتری آسکتی اور سیاستدان کہلانے والے سماج میں موجود تقسیم کو مزید بڑھانے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کریں۔