Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Reaya Par Budget Hamla

Reaya Par Budget Hamla

مالی سال دو ہزار چوبیس و پچیس کے وفاقی بجٹ کی تفصیلات پڑھتے وقت احتیاط واجب ہے کیونکہ گرمی بہت شدید ہے عین اس وقت جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں تو گھر کی دوسری منزل پر واقع میری لائبریری میں تپش عروج پر ہے۔ کچھ دیر قبل مہنگائی اور ایک چھوٹے سے فراڈ سے متاثر ہوئی ہماری خاتون خانہ کا غصہ بھی 47 سینٹی گریڈ پر تھا۔ وہ تو شکر ہے کہ ہم اس کی زد میں نہیں آئے۔

ہمارے ہمزاد پیر سید فقیر راحموں بخاری ملتانی پوچھ رہے ہیں کہ اتنا عالی شان و ظالمان بجٹ پیش کرنے پر ادھار پر لائے گئے وزیر خزانہ کو مبارکباد دینی ہے یا شہباز سپیڈ کو؟

فقیر راحموں کے غصے کی وجہ ایک ہو تو بتائوں بھی۔ مہنگائی نے چار دہائیوں کے ساتھی "ڈن ہل" کی جگہ امریکن برانڈ پائن سگریٹ کی ڈبیا پکڑادی ہے۔ وہ بھی محض چند ماہ میں 140روپے سے 220 روپے تک پہنچ گئی ہے۔

چند دن قبل فقیر راحموں نے فیس بک پر اپنا دُکھِ سگریٹ بیان کیا تو درجن سوا درجن دوستوں نے اپنے اپنے سگریٹ برانڈز کا نام لے کر کہا "فقیر راحموں جی خدا کے لئے یہ برانڈ نہ شروع کردینا".

کتابیں مہنگی ہورہی ہیں۔ ملتان کا کرایہ بڑھ گیا ہے۔ فقیر اکثر مجھ سے کہتا ہے "یار شاہ جی کیا بھلے وقت تھے ملتان سے لاہور کا کرایہ 5 روپے اور کراچی کا 16 روپے ہوا کرتا تھااب تو 23 سو روپے ہے، ظلم خدا کا"۔

اس کے غصے کی ایک وجہ اور بھی ہے وہ یہ کہ فقیر راحموں اپنی امڑی حضور کے شہر میں جس ہوٹل میں برسوں سے قیام کرتا ہے اس کا کرایہ بھی چند برسوں میں 2 ہزار روپے سے 4 ہزار 5 سو رپے ہوگیا ہے۔ سگریٹ، کتاب، ملتان یاترا سب کچھ مہنگا ہی ہوگیا ہے بندہ کرے تو کیا کرے۔

معاف کیجئے گا بجٹ تفصیلات پر لکھنے کے لئے بیٹھا تھا باتاں اور ہونے لگیں۔ وجہ گرمی مہنگائی اور بجٹ ہے۔ میں کچھ دیر قبل پیاز 2 سو روپے اور ٹماٹر 150 روپے کلو خرید کرلایا ہوں۔ پنجاب حکومت کی جانب سے مہنگائی میں گیارہ فیصد کمی کے دعوے ہماری کالونی میں داخل ہونے کی بجائے غالباً گرمی کے مارے نہر میں نہانے کے لئے کود گئے ہیں؟

خیر ہم اصل موضوع پر آتے ہیں ہمارے ایک مہربان ہیں سرفراز صاحب، انہوں نے ڈیفنس پنشن پر لکھی پوسٹ پر سوال کیا چند برس قبل تک آپ لوگ دعویٰ کرتے تھے دفاعی بجٹ کل بجٹ کا 70 فیصد ہوتا ہے اب کیوں نہیں بولتے؟ باخدا میں نے کبھی 70 فیصد والے دفاعی بجٹ کی بات نہیں کی میں تو ہمیشہ یہ کہتا ہوں کہ ملکی و بیرونی قرضوں کی قسطوں اور سود کے ساتھ مجموعی ڈیفنس بجٹ بمعہ ڈیفنس پنشن ملاکر بجٹ کا بڑا حصہ کھاجاتا ہے۔

مجموعی دفاعی بجٹ میں ظاہر ہے ایٹمی پروگرام و میزائل پروگرام کے اخراجات بھی شامل نہیں اور دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے خرچے بھی۔

آپ دیکھ لیجئے کہ سول انتظامیہ کے لئے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں 839 ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے اور ڈیفنس پنشن 662 ارب روپے ہے۔ میں چونکہ اب بوڑھا ہوگیا ہوں اس لئے مختلف دفاعی و جاسوسی کی مدوں میں"انڈر دی ٹیبل" دی جانے والی سالانہ رقم کے حساب سے ہی بھاگتا ہوں جوانی میں تو تفصیلات لکھ دیا کرتا تھا کالم یا اداریہ میں، خیر جوانی دیوانی ہوتی ہے تب آپ پہاڑ سے بھی ٹکراجاتے ہیں بوڑھاپے میں لاٹھی ٹیک کے چلتے آدمی پر احتیاط واجب ہے۔

بہرطور خواتین و حضرات 18877 ارب روپے کے بجٹ کا مجموعی خسارہ 8500ارب روپے ہے۔ دفاعی بجٹ 2122 ارب روپے ہے اس میں 662 ارب روپے کی دفاعی پنشن شامل نہیں نہ ہی دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کے اخراجات شامل ہیں۔ بدقسمت تنخواہ دار طبقے پر صرف 75 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں (اضافی شدہ کہہ لیجئے) کا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔

فقیر راحموں کا جگرم مارکہ دوست مدثر بھارا کہتا ہے "گریڈ 16 سے اوپر کے ملازمین کے ساتھ جو سلوک حکومت نے کیا وہ تو فرعون صاحب مصر کی عوام سے بھی نہیں کرتے تھے"۔

چلئے آگے بڑھتے ہیں۔ نیوز پرنٹ سمیت کاغذ کے تمام برانڈز پر ٹیکس کی شرح بڑھادی گئی ہے۔ مجھے حیرانی ہوئی کہ نیشنل میڈیا مالکان نیوز پرنٹ مہنگا ہونے پر شور مچارہے ہیں حالانکہ یہ اس قدر ظالم ہیں کہ ایک جانب ملازمین کو ویج بورڈ ایوارڈ کے مطابق تنخواہیں نہیں دیتے دوسری طرف چند پرنٹنگ سٹیشنوں پر 6 صفحات کا اخبار 30 روپے میں فروخت کررہے ہیں جوکے اخباری صفحات کے لئے طے شدہ قیمت کے خلاف ورزی ہے۔

وفاقی بجٹ میں کم از کم اجرت 37 ہزار روپے رکھی گئی ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل حکومت کو چیلنج ہے کہ اس پر صرف سرکاری محکموں میں عمل کراکے دیکھادے ہمہ قسم کے نجی اداروں اور اخبارات و جرائد کو تو رہنے ہی دیجئے۔

نان فائلر کے لئے دنیا تنگ کرنے والے اس بجٹ کے منشیوں سے کوئی پوچھے کہ اوسط 15 ہزار روپے ماہوار کمانے والا شخص بھی ماچس، آٹے، دالوں، ڈبے کے دودھ وغیرہ پر ٹیکس دیتا ہے۔ بجلی کے بلوں میں ٹیکسوں کے نام پر بھتے لئے جاتے ہیں، ٹیلیفون اور سوئی گیس کے بلوں میں بھی ٹیکس شامل ہیں۔ یوٹیلٹی بلز ادا کرنے والے صارف (شہری) کو اور کتنا ذبح کرنا ہے اور اس پر ٹیکس چور کی پھبتی کسنی ہے؟

امریکی پہلے ہی فقیر راحموں کو ویزا نہیں دیتے تھے اب تو خیر نان فائلر کے بیرون ملک سفر پر پابندی لگادی گئی ہے۔ فقیر راحموں نے ایک انقلابی مشورہ دیا ہے وہ کہہ رہا ہے کہ

"حکومت ملک کے تمام نان فائلرز کو صحرائے تھل یا چولستان وغیرہ میں جمع کرکے ان پر ایٹم بم ماردے۔ اس طرح ایک تو ایٹم بم ٹیسٹ ہوجائے گا اور آبادی میں کمی بھی ہوجائے گی۔ معیشت پر بوجھ بنے نان فائلرز کا یہی علاج ہے"

خزانے اور ملک کے حالات جتنے خراب ہیں مجھے ڈر ہے کہ حکومت فقیر راحموں کا یہ زریں مشورہ مان ہی نہ لے۔ ہائبرڈ اور الیکٹرانک گاڑیاں، موبائل فون تو مہنگے ہوں گے ہی یہ ادویات، چینی، دودھ کے علاوہ زرعی معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی ٹریکٹر مہنگے کرنے کا مشورہ کس کم بخت نے دیا تھا؟

بجلی، گیس اور دیگر شعبوں کے لئے سبسڈی کی رقم 1363ارب روپے ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر 20 روپے فی لٹر لیوی بڑھانے کی تجویز ہے۔ سگریٹ دشمن حکومت نے سمگل شدہ سگریٹ فروخت کرنے پر کاروبار سیل کرنے اور سزا و جرمانے کی تجویز بھی دی ہے۔

یہ ایک طرح سے پھر ہمارے ہمزاد پیر فقیر راحموں پر کھلا حملہ ہے چاچے فورمین کی حکومت کا۔

دو جمع دو کے حساب سے یہ بجٹ قاتل بجٹ ہے۔ نرم سے نرم الفاظ میں اسے رعایا پر خودکش حملہ کہہ لیجئے۔ صحافیوں کو مکھن لگانے کے پروگرام کے تحت 5 ہزار صحافیوں اور میڈیا ورکرز کی ہیلتھ انشورنس کرانے کا اعلان کیا گیا ہے۔

یہ صحافی آسمان سے اتری ہوئی مخلوق ہیں کیا کبھی انہیں کالونیاں بناکر دو اور کبھی مزید مراعات، صحافیوں سے اتنی ہی ہمدردی ہے تو سرکاری اشتہارات کو ویج بورڈ ایوارڈ سے منسلک کردیا جائے جو ادارے کم از کم 6 ماہ ویج بورڈ کے مطابق تنخواہیں نہ دیں انہیں سرکاری تحویل میں لے لیا جائے۔

بار دیگر کم از کم اجرت کے حوالے سے عرض کروں اس پر کبھی عمل نہیں ہوتا، کیوں؟ اس کی وجہ میں اور آپ سب جانتے ہیں۔ مالکان ضرورت مند افراد کی مجبوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ چند زندہ مثالوں میں سے ایک مثال (یہ تحریر نویس) خود ہے۔ کام کرنے پر اس لئے مجبور ہوں کہ زندہ انسان ہوں ضرورتیں ہیں۔ خیر اس ذاتی دکھ کو اٹھارکھتا ہوں۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں پنشن اور تنخواہوں میں ہوا اضافہ دم توڑتی قوت خرید کو بہتر بنانے میں مدد اس لئے نہیں دے گا کہ مہنگائی کے مقابلہ میں یہ اضافہ 80 فیصد کم ہے۔

حرف آخر یہ ہے کہ بجٹ خودکش حملے کے نتائج اچھے نہیں نکلیں گے حکومت کے لئے سیاسی مشکلات بڑھیں گی۔ رعایا کی گردنوں پر شکنجہ مزید سخت ہوگا۔ دیکھتے ہیں کتنے سخت جان اگلے بجٹ تک بچ رہتے ہیں۔