Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Riasat Ke Pas Waqt Kam Hai

Riasat Ke Pas Waqt Kam Hai

گزشتہ ایک کالم "جہاد سے فساد تک کے پچاس سال" کے ضمن میں مزید عرض ہے کہ اگر ریاست کے "بڑے" ان میں اسٹیبلشمنٹ اور اس کے نسل در نسل ٹوڈی شامل ہیں معروضی حالات اور تقاضوں کا ادراک نہ کرپائے تو جن مسائل کا آج سامنا ہے یہ آنے والے برسوں میں نہیں بلکہ دنوں اور مہینوں میں بد سے بدتر ہوتے چلے جائیں گے اور پھر محفوظ واپسی کا راستہ نہیں ہوگا۔

یہ محفوظ واپسی کا راستہ ضرورت کس کی ہے؟ اس کا آسان فہم جواب یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور اس کے حواری موالی طبقات کی جنہیں یہ بات سمجھ نہیں آرہی کہ انسانی تاریخ میں بھائیوں کا خون بہانے اور ان کا گوشت کھانے والی ریاستیں ہوں یا طبقات دونوں تاریخ کے کوڑے دان کا رزق ہوئے۔

ثانیاً یہ کہ اگر ہم "یہاں ہم سے مراد ریاست کا مالک ہونے کے زعم کا شکار ادارے محکمے اور بالادست طبقات ہیں"۔ اس ملک کو موجودہ حالت میں اکٹھا رکھتا چاہتے ہیں تو پھر صرف فکر و نظر میں ہی نہیں قوانین میں تبدیلی ناگزیر ہے۔

غلطیوں، خون بہانے اور گوشت کھانے پر معافی مانگے بغیر اب کوئی بات سننے کو شاید ہی آمادہ ہو۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ ریاست اور اس کی جغرافیائی حدود میں آباد ہزاریوں کی شناخت رکھنے والی قوموں کے درمیان بداعتمادی کی خلیج بہت گہری ہے۔ بداعتمادی کا آغاز کب ہوا اور خلیج ہر گزرنے والے دن کے ساتھ گہری کیوں ہوتی چلی گئی یہ کوئی مسئلہ فیثا غورث نہیں کہ سمجھ میں نہیں آرہا۔

سمجھنے اور سمجھانے کے لئے ضروری ہے کہ مطالعہ پاکستان کے ذریعے تاریخ، معیشت، مذہبی حقوق اس سے جڑی شناختوں کے ساتھ ان پالیسیوں اور قوانین پر ازسرنو غور کیا جائے جن کی وجہ سے عدم توازن نے جنم لیا۔ فقط یہی نہیں بلکہ جہاں اعتماد سازی کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے وہیں ازبس ضروری ہے کہ ایک ہسٹری کمیشن تشکیل دیا جائے۔

یہ کام ابتداً ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں شروع ہوا تھا پھر سرکار جنرل محمد ضیاء الحق جالندھری تشریف لے آئے اور انہوں نے ہر چیز کو تہس نہس کرکے رکھ دیا۔

بھٹو دور کا ہسٹری کمیشن بھی تحلیل ہوگیا کیونکہ وہ جنرل ضیا تو ان طبقات کے زیر اثر تھے جن کا خیال تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو اصل میں گھاسی رام ہے اور اس کی مسلمانی بھی نہیں ہوئی ہوگی۔ وہ تو شکر ہے بھٹو کو پھانسی چڑھانے کے بعد چیک کیا گیا تو مسلمانی ثابت ہوگئی ورنہ بھٹو خاندان اور پیپلزپارٹی کے ساتھ وہی سلوک ہوتا جو ہمارے ہاں 1970ء کی دہائی کے بعد سے ایک مذہبی اقلیت کے ساتھ ہورہا ہے۔

ہم اپنے موضوع کی جانب پلٹتے ہیں ہمیں ماننا ہوگا کہ یہ ریاست مجموعی طور پر عدم توازن کا شکار ہے اس عدم توازن میں بہتری لانے کے لئے دستیاب ریاستی دستور کوئی مدد کرنے سے محروم ہے جان کی امان ہو تو عرض کروں 1973ء کے دستور کی اتنی درگت بن چکی کہ اب یہ "الماس بوبی اور رمل شاہ" سے زیادہ کچھ بھی نہیں۔

میں غلط ہوں تو مجھے بتایئے کہ دستور کہتا ہے کہ ایسی تنظیم سازی نہیں ہوسکتی جو لوگوں میں نفرتیں بھر کر سماج کی وحدت کو پارہ پارہ کرے پھر فرقہ وارانہ بنیادوں پر تنظیمیں کیسے بن کر پھلی پھولیں؟

جناح صاحب مرحوم نے تو گیارہ اگست 1947ء کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے اس سے بھی آگے کی بات کرڈالی تھی انہوں نے کہا "آج سے آپ آزاد ریاست کے مساوی حقوق والے شہری ہیں جو اپنی عبادت گاہوں میں مذہبی شناخت کے ساتھ جانے کا حق رکھتے ہیں ریاست کا فرض ہے کہ وہ آپ کے سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی حقوق کا احترام کرے اور اس پر اس طور عمل کو یقینی بنائے کہ کوئی دوسرے کے سیاسی، مذہبی، معاشی اور ذاتی معاملات میں مداخلت کا مرتکب نہ ہو"۔

آپ کامل فہم کے ساتھ بتایئے کہ جناح صاحب مرحوم کا یہ خطاب 1956ء کے دستور، پھر ایوب دور کے صدارتی آئین اور 1973ء کے پارلیمانی نظام والے آئین میں رہنما بیانیے کی حیثیت کیوں نہیں پاسکا اس کے برعکس 1948ء والی قرارداد مقاصد کو دستور کا رہنما بیانیہ کیوں قرار دیا گیا؟

حالانکہ جناح صاحب مرحوم تو کہتے تھے کہ "میں تھیوکریٹ (رجعت پسند) ریاست اور نظام پر یقین نہیں رکھتا"۔

اسی طرح آگے بڑھنے سے قبل دیانتداری کے ساتھ یہ تجزیہ بھی کرنا ہوگا کہ اکثریتی آبادی والا صوبہ مشرقی پاکستان ہم سے الگ کیوں ہوا۔ تجزیہ کرنے سے قبل ہر معاملے میں بھارت یا یہود و ہنود والی سازشی تھیوریوں کو پیش کرنے کی بدعت سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ بظاہر یہ مشکل کام ہے کیونکہ ہم گزشتہ 76-77 برسوں سے سازشی تھیوریوں کا منجن فروخت کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کرپائے۔

ذرا ذرا سی بات پر یہاں اسلام اور پاکستان کو خطرات لاحق ہوجاتے ہیں۔ ہسٹری کمیشن بنانے کے ساتھ نصاب ہائے تعلیم کا ازسر نو جائزہ لے کر اسے جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا تاکہ ہمارے تعلیمی ادارے ملازمت پیشہ ذہنیت کے دولے شاہی چوہے تخلیق کرنے کی بجائے انسان سازی میں اپنا کردار اس طور ادا کرپائیں کہ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل طالب علم صرف گھر والوں کے لئے نہیں بلکہ سماج اور نظام کے ساتھ اپنے مخصوص شعبہ میں بھی کارآمد ثابت ہوں۔

کھمبیوں کی طرح اُگ آئے مکتب امامت و مکتب خلافت کے دینی مدارس کے دروازے قانونی طور پر جدید علوم کی تدریس کے لئے کھلوانے ہوں گے۔

ریاست میں توازن موجودہ فیڈریشن اور دستور میں ممکن نہیں اس کے لئے نئے عمرانی معاہدے کی ضرورت ہے اور فیڈریشن کی بجائے کنفیڈریشن کا عملی تصور اپنانے کی بھی۔

وفاق کے چند بڑے عہدے لازماً اس قانون کے تابع کرنا ہوں گے کہ یہ باری باری تمام اکائیوں کو ملیں۔ میری دانست میں تو صدر، چیئرمین سینیٹ، چیف جسٹس سپریم کورٹ، آرمی چیف، پلاننگ کمیشن کی سربراہی یہ پانچ عہدے باری باری اکائیوں کو ملنے چاہئیں یہ اسی صورت ممکن ہے جب متعقلہ اداروں میں توازن ہوگا۔

مثلاً میں ایک طویل عرصے سے ان سطور میں عرض کررہا ہوں کہ موجودہ فیڈریشن اپنی چار اکائیوں کے باوجود عدم توازن کا شکار ہے۔ صوبہ پنجاب کی 12 کروڑ سے زائد آبادی ہے اور قومی اسمبلی میں اس کی جنرل نشستیں 140سے زائد ہیں۔ قومی اسمبلی کی پنجاب سے مخصوص نشستیں شامل کرکے بھی گو تنہا پنجاب وفاقی حکومت نہیں بناسکتا تو اسی طرح باقی کی تین اکائیاں مل کر بھی وفاقی حکومت نہیں بناسکتیں۔ اس عدم توازن پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ میری دانست میں تو نیا عمرانی معاہدہ ہی پائیدار حل ہے۔

یہ بھی عرض کردوں کہ اہل ریاست بھی اب تجربات والی لیبارٹری بند کردیں کیونکہ ماضی میں اس نے جتنے تجربات کئے وہ ریاست کے ساتھ عوام کے بھی گلے پڑے ہوئے ہیں۔ آخری دو تجربوں کے گلے پڑے ہونے کو ہی دیکھ لیجے۔

دستوری طور پر کسی بھی شخص کی اس کے مذہب و عقیدے کی بنیاد پر تکفیر کو جرم قرار دیا جانا چاہیے یہ اسی صورت ممکن ہے جب ریاست سیکولر جمہوری چہرہ اپنائے۔ مقامی وسائل ایک دوسرے کی ضرورت ہیں اس کے لئے اکائیوں کے درمیان معاملات طے پانے چاہئیں۔

تاریخ و سیاست اور صحافت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میری دیانتدارانہ رائے یہی ہے کہ سنجیدہ اصلاح احوال کے لئے ریاست کے پاس وقت بہت کم ہے۔ فیڈریشن کے طرزعمل سے نالاں اکائیوں کا عدم تحفظ دور کرکے اعتماد سازی کرنا ہوگی۔

بلوچستان کے مسئلہ کا حل بندوق کے زور پر تلاش کرنے کی بجائے مذاکرات کی میز پر تلاش کیا جانا چاہیے۔

اگر کالعدم فرقہ پرست اور زندہ فرقہ پرست ہر دو قسم کی تنظیموں سے مختلف مواقع پر مذاکرات ہوسکتے ہیں تو بلوچوں سے کیوں نہیں؟

ریاست کو بھی بطور خاص یہ بات سمجھنا ہوگی کہ اگر میرے گھر کے باورچی خانے پر محلے والے قبضہ کرلیں تو میرا ردعمل کیا ہوگا۔ ایک قلم مزدور طالب علم معروضات ہی پیش کرسکتا ہے سو کردیں۔ امید کا دامن اب بھی تھامے ہوئے ہوں کہ ان معروضات پر غور کرنے کی زحمت کی جائے گی۔