میں سئیں شاہ لطیف بھٹائیؒ کی خانقاہ کے صحن میں داخل ہوا تو رات کا تیسرا پہر تیزی سے بیت رہا تھا۔ آسمان پر روشن پورے چاند کے نور سے شاہ کی خانقاہ جگ مگ کررہی تھی۔ خانقاہ کا اندرونی داخلی دروازہ بند تھا اس کی چوکھٹ کی بائیں سمت مجھے تین اشخاص بیٹھے اور دلگیر انداز میں بات چیت کرتے دیکھائی دیئے۔
تیزی سے انکی طرف بڑھتے ہوئے مجھے سنائی دیا کہ دریافت کیا جارہاہے کہ مسافر رات کے اس وقت خیر سے آئے ہو؟ عرض کیا، شاہ لطیف سے ملنے آیا ہوں۔ ایک اور آواز نے سماعتوں پر دستک دی "بھلی کر آیاں سئیں"۔
مزید آگے بڑھتے ہوئے میں نے چوکھٹ کی بائیں سمت بیٹھے تنوں افراد کے چہروں کو چاندنی کے اجالے میں پہچاننے کی کوشش کی۔ یوں لگا میرے اندر سے آواز آرہی ہے یہ شاہ لطیفؒ ہیں۔ سچلؒ اور سامی۔ مزید قریب ہونے پر من میں گونجتی صدا کی تصدیق ہوگئی۔ واقعتاً سچلؒ سامی اور شاہؒ سائیں ہی تشریف فرما تھے۔ پگڑیاں گود میں رکھے، چہروں کی دھول کو آنسوئوں سے دھوتے سچلؒ، سامی اور شاہؒ سائیں کی قدم بوسی کرچکا تو سامی بولے فقیر راحموں بیٹھو۔ سفر کیسا گزرا، خیر سے آئے ہو؟
عرض کیا سندھی سماج پر تکفیر کے خودکش حملے کی تعزیت کے لئے حاضر ہوا ہوں۔
مرشدین گرامی! یہ آپ کا سندھ ہے جہاں کبھی امن و محبت کے نغمے گونجتے تھے۔ حق شناسی کے راستے پر چلنے والے سرمدی لباس پہنتے تھے لیکن آج، بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ۔ شاہؒ سائیں (شاہ لطیفؒ) نے ہاتھ کے اشارے سے خاموش ہونے کے لئے کہا۔ خاموشی نے چند ساعتوں کے لئے حصار میں لیا۔
پھر شاہ گویا ہوئے، فقیر راحموں یہ تم نے ہی لکھا تھا نا "اصل سے کم اصل کٹتے ہیں؟"۔ جی ادب سے سر جھکاتے ہوئے عرض کیا۔ شاہ پھر بولے۔
"اپنے چار اور دیکھو، کیا واقعی لوگ اپنے اصل سے جڑے ہوئے ہیں یا نفسانفسی کو رزق بنائے ہوئے ہیں" عرض کیا، مرشد! لیکن سامی نے تو کہا تھا، دوست سندھو ندی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانیوں کی طرح ہوتے ہیں۔
سوال ہوا تم اس سے کیا سمجھے؟ عرض کیا "لوگ محبتوں کے اظہار اور ایثار کے عمل میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے دیکھائی دیں گے تب ایسا لگے گا کہ ہر طرف دوست ہی دوست ہیں۔ جسے سندھو ندی کا ٹھنڈا اور میٹھا پانی۔ مگر اب تو لگتا ہے کسی نے سندھو ندی کے میٹھے پانیوں میں نفرت، تعصب، تکفیراور طبقاتی بُعد کے زہروں کو ملادیا ہے"۔ سامی کہنے لگے فقیر راحموں کہنا کیا چاہتے ہو؟
عرض کیا "سائیں میں مرشد سچلؒ سے یہ دریافت کرنا چاہتا ہوں کہ جب ان کے خلاف خیر پور کے ملاوں نے تکفیر کے زہر سے بھرا فتویٰ دیا تو رانی پور کے راجہ نے تلوار نیام سے نکالتے ہوئے کہا تھا "وہ ایک قدم آگے بڑھے جسے مرنے کا شوق ہو میں بھی تو دیکھوں کس ملاں میں جنت کمانے کا شوق ہے؟"۔
سچلؒ بولے "ہاں درست ہے لیکن اس بات آج سے کوئی تعلق ہے؟" عرض کیا "سچلؒ کے لئے رانی پور کا راجہ آواز بلند کرسکتا ہے تو سچل کے سندھ میں توہین کے مبینہ الزام میں ریاستی اہلکاروں کے ہاتھوں مارے گئے ڈاکٹر شاہنواز کے لئے پوری سندھ وادی سے ایک بھی آواز کیوں بلند نہیں ہوپارہی۔ آخر کیوں، تحقیق اور انصاف پر سٹریٹ جسٹس کو مقدم سمجھ لیا گیا"۔
یہ بھی عرض کیا کہ "ریاستی اہلکار تو قانون کی عملداری اور شہریوں کے تحفظ ک حلف لیتے ہیں۔ اپنے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب ریاستی اہلکاروں کو پھولوں سے اسی سندھ دھرتی میں لادیا گیا جہاں سچلؒ، سامی او شاہؒ کے گیت گونجتے ہیں"۔
قبل اس کے کہ میں کچھ اور کہتا شاہ بولے "فقیر راحموں یہاں سے واپسی پر ذرا سن گائوں جاکر اپنے مرشد سید غلام مرتضیٰ شاہ (جی ایم سید) کی تربت پر ایک سوال رکھنا"۔ جی حکم کیجئے، میں نے عرض کیا۔
شاہ بولے، "اپنے مرشد سے پوچھنا بٹوارے کی قرارداد اسمبلی میں پیش کرنے اور مسجد منزل گاہ کی تحریک چلانے کے نتائج سے وہ کیوں بے خبر رہے؟" کیا "علم نے ان کی اس سمت رہنمائی نہیں کی تھی کہ لوگوں کی شناخت کو ان کے اصل سے کاٹ کر مذہب سے جوڑ دینے سے نفرتوں کے بیوپار اور قتال کے دروازے کھلتے ہیں؟"
ابھی شاہ کے ارشاد کی سماعت مکمل ہوپائی تھی کہ سچلؒ بولے، "تم نے سامی کا شعر دہرایا تھا نا۔ دوست سندھو ندی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانیوں کی طرح ہوتے ہیں؟" جی میں نے عرض کیا۔ سچلؒ گویا ہوئے یاد کرو میں نے کہا تھا "اگر دوست ہوں تو"۔
عرض کیا " ایک زمین، تہذیب و ثقافت اور تاریخ کے مشترکہ وارثوں میں دوستی کا رشتہ نہیں ہوتا؟"
اب شاہؒ سائیں نے سچلؒ کے شانے پر ہاتھ رکھا اور بولے "جب لوگ خواہشوں کے بے لگام گھوڑوں پر سوار ہوکر پیاروں کو روندنے لگیں، حسد کا الائو جلاکر تاپیں اور بھائیوں کا گوشت رغبت سے کھانے لگیں تو محبت، علم، ایثار ہجرت کرجاتے ہیں"۔
پھر کہنے لگے "آج کے حالات کا کوئی ایک شخص تنہا ذمہ دار نہیں پورا سندھی سماج مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہے۔ یہ عدم برداشت، تنگ نظری، حرص اور بُعد ان خرابیوں نے راتوں رات جنم نہیں لیا۔ امن، علم، تہذیب، تاریخ، ایثار اور انسان سازی کے دشمنوں نے سندھی سماج کو یہاں تک لانے او تکفیر و تعصب سے اٹی بند گلی میں پھنسانے کےلئے بڑی محنت کی ہے"۔
شاہ سائیں نے کہا فقیر راحموں"اپنے سندھی زمین زادے دوستوں سے پوچھو کہ سندھ نے اجلے باشعور انسانیت و علم دوست فرزند پیدا کرنا کیوں چھوڑدیئے؟"
مرشد شاہؒ کی بات تمام ہوئی تو میں نے عرض کیا، "مرشدی آپ نے ہی کہا تھا "سرمدی نغمہ الاپنے کے لئے اپنے لہو سے غسل لینا پڑتا ہے؟"۔
شاہؒ سائیں رسان سے بولے "سرمدی نغمہ محبتوں کی آبشار سے پھوٹتا ہے، نفرتوں کے ہنکاروں سے نہیں۔ سندھ وادی کے فرزندوں کو اپنے اصل کی طرف پلٹنا ہوگا۔ ان کا اصل محبت و رواداری، ایثار اور جڑت میں ہے۔ اس سے سوا سب فریب ہے۔ جاگتی آنکھ کے خوابوں کی طرح"۔
میں نے شاہؒ سائیں کی خدمت میں ایک اور سوال رکھنے کا سوچ رہا تھا کہ سامی گویا ہوئے۔ فقیر راحموں"ہم نے دنیا طلبی کو غلط نہیں کہا بلکہ یہ کہا تھا کہ "اپنے حصے سے زائد پر سانپ کی طرح بیٹھ رہنا غلط ہے۔ دنیا میں رہ کر اسے انسانوں کے قیام کے لئے بہتر سے بہتر بنانے کی بجائے اس سے بیزاری کا درس دینا اور خود دنیا سے دامن بھرتے رہنا صریحاً غلط ہے"۔ اس ایک غلط کو بہتر کرنے کی بجائے غلطیاں کرتے چلے جانا بھی ایسے ہی ہے جیسے "ایک جھوٹ کو آگے بڑھانے کے لئے جھوٹ پر جھوٹ بولتے چلے جانا"۔
ان (سامی) کی بات ختم ہوئی تو میں نے شاہؒ سائیں سے عرض کیا "مرشد! سچلؒ سائیں نے تو کہا تھا "ملاں تو روٹی کے لئے اذان دیتا ہے" سچل سامی اور شاہ کے وارثوں نے اپنی لگامیں ملاکے ہاتھوں میں کیوں پکڑادیں؟"
جواب ملا "محبت اور ایثار کو اوڑھنے کی بجائے خواہشوں کے کنچوں سے جی بہلاتے ہوئے یہ حرص رکھنا کہ سارے کنچے بس میری جیب میں ہوں اس بات نے بگاڑ پیدا کیا۔ دنیا داری، اقتدار طلبی دونوں اگر خدمت کے جذبے سے دور کردیں تو سماج دلدل بن جاتا ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ لوگ دلدل میں جینے بسنے کو زندگی سمجھ لیتے ہیں"۔
فقیر راحموں۔ "کبھی چند ساعتیں نکال کر خود بھی غور کرنا اور دوستوں کو بھی غور وفکر کی دعوت دینا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ظلم و جور، نفرت و تکفیر، سماجی ناہمواری کے خلاف شخصی وقار کے ساتھ سوچا جارہا ہے نہ بات ہورہی ہے اور نا ہی اس پر مکالمہ ہورہا ہے"۔
عرض کیا مرشدین گرامی!
"یہ ساری باتیں اپنی جگہ بجا ہیں مگر میرا سوال یہ ہے کہ انڈس ویلی (وادی سندھ) کو فتوئوں، نفرتوں، تکفیر، علم دشنمی حرص و حسد سے محفوظ رکھنے کے لئے کیا کیا جائے؟"
تب ایک بار پھر شاہؒ سائیں گویا ہوئے "اپنے اصل کی طرف پلٹنے کی شعوری کوششیں واجب ہیں۔ سندھ وادی پر لہراتے آگ دھوئیں اور دھول کے بادلوں سے تربتوں میں ابدی نیند سوتے بچھڑ جانے والوں کو جو تکلیف پہنچ رہی ہے اس تکلیف کو زندہ ہونے کے دعویدار کیوں محسوس نہیں کررہے؟"
ساعت بھر کے وقفے سے شاہ پھر گویا ہوئے "زندگی کا حُسن درگزر میں ہے کچلنے اور ماردینے میں نہیں"۔ سماعتوں پر صبح کی اذان نے دستک دی تو میں نے رخصت کے لئے اجازت چاہی۔ تب سچل سرمستؒ نے کہا "فقیر راحموں، زندہ وہی ہے جو سوچتا ہے بولتا ہے، سرمدی نغمہ الاپتا ہے، باقی تو سارے مرے ہوئے ہیں"۔
شاہؒ سائیں نے شفقت سے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور بوسہ دیتے ہوئے کہا "اس تک جانے کے لئے اپنے اندر سے گزرنے کا حوصلہ نہ کرنے والے آخری سانس تک بھٹکتے رہتے ہیں، یہی ابدی سچائی ہے"۔
سامی کہنے لگے "اپنے ہم نفسوں سے کہنا تم نے ایک لاش نہیں جلائی بلکہ سندھ کا چہرہ جلایا ہے اس جلی ہوئی لاش کی کالک دھونے میں تمہیں صدیاں لگیں گی"۔
میں نے سچلؒ سامی اور شاہؒ سائیں کے قدم چھوئے اور خانقاہ سے باہر جانے والے راستے پر چل پڑا خانقاہ سے باہر قدم رکھتے ہی مجھے لگا بس دمِ آخر ہے اجل سے پہلے دم گھٹنے لگا ہے۔۔