سابق حکمران جماعت تحریک انصاف کی جانب سے مختلف شہروں کے علاوہ اسلام آباد کے ڈی چوک میں احتجاج کے پروگرام کے دوسرے مرحلے میں خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں سرکاری مشینری اور کارکنوں کا بڑا قافلہ اسلام آباد کی جانب رواں دواں ہے۔
یہ سطور تحریر کئے جانے کے وقت اس امر کی اطلاع موصول ہوئی کہ علی امین گنڈاپور اسلام آباد میں خیبر پختونخوا ہائوس پہنچ چکے ہیں۔ اپنے اعلان اور پروگرام کے مطابق ڈی چوک جانے کی بجائے کے پی کے ہائوس وہ کیوں پہنچے اس بارے میں ذرائع کاکہنا ہے کہ اندرون خانہ کچھ معاملات طے پائے ہیں اسی لئے وزیراعلیٰ اپنے احتجاجی قافلے سے الگ ہوکرکے پی کے ہائوس پہنچ گئے۔
یہ دعویٰ کس حد تک درست ہے اگلے چند گھنٹوں میں صورتحال واضح ہوجائے گی۔ البتہ ایسا لگتا ہے کہ وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کی جانب سے لگائے گئے اس سنگین الزام کے بعد کہ علی امین گنڈاپور کے قافلے میں کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح جنگجو بھی شامل ہیں، غالباً پی ٹی آئی کی قیادت نے اپنی احتجاجی حکمت عملی اور وفاقی وزیر دفاع کے الزام کا جائزہ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
قبل ازیں گزشتہ شب آئین کے آرٹیکل 245 کے تحت وفاقی حکومت نے اسلام آباد کی سکیورٹی فوج کے حوالے کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں فوج طلب کرلی جس نے جمعہ اور ہفتے کی درمیانی شب سے ہی شہر میں فلیگ مارچ شروع کردیا تھا۔ دوسری جانب پنجاب کابینہ کی کمیٹی برائے امن و امان نے صوبے میں امن و امان قائم رکھنے کےلئے فوج طلب کرنے کی منظوری دیتے ہوئے انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت فوج کو خصوصی اختیارات بھی سونپ دیئے۔
اسی طرح جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب سے (اس وقت ہفتہ کی سپہر ہے) جڑواں شہروں (اسلام آباد اور راولپنڈی) کے بعض علاقوں میں انٹرنیٹ اور موبائل سروس بند ہے۔ انٹرنیٹ اور موبائل سروس کی بندش سے ایک جانب غیرسنجیدہ اور جھوٹی خبروں سے لوگ پریشان ہیں تو دوسری جانب ذرائع ابلاغ کے لئے خدمات سرانجام دینے والے کارکن صحافیوں کو بھی باہمی رابطوں میں مشکلات کا سامناہے جس کی وجہ سے افواہ بازوں کی چاندی ہوگئی ہے۔
سوشل میڈیا پر پرانی ویڈیوز اور تصاویر موجودہ حالات کی تصویر کے طور پر پیش کرکے مفاد پرست عناصر اپنا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ جہاں تک تحریک انصاف کے 2 اکتوبر سے 8 اکتوبر کے درمیان مختلف شہروں اور اسلام آباد میں 4 اکتوبر کے احتجاج کا تعلق ہے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پرامن جمہوری احتجاج پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت اور طبقے کا بنیادی حق ہے۔
البتہ وقت کے انتخاب کے حوالے سے اس ضمن میں دو آراء ہیں۔ تحریک انصاف کی قیادت اپنے احتجاج کو تحفظ دستور، آزاد عدلیہ اور بحالی جمہوریت کا نام دے رہی ہے جبکہ حکومتی زعما کاموقف ہے کہ پی ٹی آئی بیرونی قوتوں کے ایجنڈے پر ایسے وقت (یعنی اس دنوں میں) احتجاجی سیاست کا ڈول ڈال رہی ہے جب چند دوست ممالک کے سرکردہ رہنمائوں نے اسلام آباد کے دورہ پر آنا تھا اور انہی دنوں اسلام آباد میں شنگھائی تعاون کانفرنس کا دو روزہ سربراہی اجلاس بھی منعقد ہونا ہے۔
حکومتی زعما تحریک انصاف کے حالیہ احتجاج (جو جاری ہے) کو اس کے 2014ء کے 126دن والے دھرنے کی دوسری قسط قرار دیتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ اس وقت سی پیک کے خلاف دھرنا دیا گیا تھا آج ایک بار پھر ویسی ہی سازش رچائی جارہی ہے۔
طرفین کے ایک دوسرے پر الزامات کواگر سیاسی پوائنٹ سکورنگ بھی سمجھ لیا جائے تو بھی یہ امر اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ اگر پی ٹی آئی اپنا احتجاج چند دن آگے بڑھالیتی تو یہ نظام، ملک اور بین الاقوامی تعلقات کے فروغ کے لئے مثبت ہوتا۔
یہاں اس امر کی نشاندہی بھی ضروری ہے کہ پی ٹی آئی کے پشاور سے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی قیادت میں وزیراعلیٰ سکیورٹی کے اہلکاروں کے علاوہ بھی مسلح افراد موجود ہیں جمعہ کو اس قافلے میں شامل متعدد مسلح افراد کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جو اسلحہ ہمراہ لئے اسلام آباد جانے والے قافلے میں شامل تھے اور وزیراعلیٰ گنڈاپور کے چند دن قبل والے اس بیان کو دہرارہے تھے کہ "ہم گولی کا جواب گولی سے دیں گے"
اسی اثنا میں یہ اطلاع بھی موصول ہورہی ہے کہ اسلام آباد کی ایک عدالت نے علی امین گنڈاپور کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں گرفتار کرکے عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے نیز یہ کہ رینجرز اور پولیس کے دستوں نے خیبر پختونخوا ہائوس کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
مذکورہ اطلاعات کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ کے پی کے وزیراعلیٰ کو خیبر پختونخوا ہائوس سے باہر نکل کر اپنی جماعت کے پی کے سے آنے والے احتجاجی قافلے میں شرکت کے لئے نہ جانے دیا جائے یا پھر عدالتی حکم پر انہیں گرفتار کرلیا جائے جیسا کہ اس وقت اسلام آباد سے اطلاعات موصول ہورہی ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بڑی نفری خیبر پختونخوا ہائوس میں داخل ہوگئی ہے۔
اندریں حالات یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ فی الوقت ملک میں جو ہورہاہے وہ کسی بھی طور درست نہیں۔ شخصی انا اور ہٹ دھرمی کو سیاسی عمل کا نام دینا صریحاً غلط ہوگا۔ حکومت کو بہرطور تحمل اور سنجیدگی کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرناچاہئے مگر اس کے ساتھ ساتھ پی ٹی آئی کی قیادت اور خصوصاً خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی ٹھنڈے دل سے یہ سوچنا چاہیے کہ کسی انہونی کے رونما ہونے کا فائدہ کس کو پہنچے گا۔
پچھلے دو اڑھائی برسوں س ے جاری سیاسی عدم استحکام اور اس سے جنم لینے والے مسائل کسی بھی ذی شعور شخص سے پوشیدہ نہیں یہ بجا کہ جلسے جلوس و احتجاج جمہوری حق ہے لیکن جمہوری حق کی تکرار کے ساتھ ساتھ اگر اس امر پر بھی غور کرلیا جائے کہ کیا ملکی حالات احتجاج کے لئے سازگار ہیں؟ تو مناسب ہوگا۔
عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ پی ٹی آئی اگر اپنا احتجاجی پروگرام شنگھائی تعاون کانفرنس کے بعد رکھ لیتی تو دنیا ہاتھ سے نہیں نکل جانی تھی۔ ہماری دانست میں جہاں پی ٹی آئی کی قیادت غیرذٓمہ داری کے مظاہرے پر تلی ہوئی ہے وہیں بعض حکومتی زعما کے بیانات اور بالخصوص خواجہ آصف کے سنگین الزامات سے بھی گرماگرمی بڑھی۔
خواجہ آصف نے اپنے الزام کے حق میں یہ دلیل پیش کی ہے کہ ریاستی اداروں نے گزشتہ دو روز میں 106 افغان شہریوں کو تحریک انصاف کے احتجاجی پروگراموں کے دوران گرفتار کیا ہے۔ گو انہوں نے یہ بھی کہاہے کہ تحقیقات کے بعد واضح ہوگا کہ یہ عام افغان شہری ہیں یا کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو مگر یہ درست ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاجی پروگراموں میں سے افغان شہریوں کی گرفتاری نے متعدد سوالات کو ہی جنم نہیں دیا بلکہ حکومتی موقف کو بھی بڑی حد تک تقویت دی ہے کہ پی ٹی آئی کے احتجاجی کارکنوں کے ہمراہ افغانستان سے بلوائے گئے لوگ بھی موجود ہیں۔ مناسب یہی ہوگاکہ حالات کی سنگینی کا ادراک کیا جائے اور کوئی فریق بھی ایسا قدم نہ اٹھائے جس پر بعد میں پچھتانا پڑے۔