Friday, 22 November 2024
    1.  Home/
    2. Guest/
    3. Saraiki Waseb Ke Liye Aik Aur Siyah Din

    Saraiki Waseb Ke Liye Aik Aur Siyah Din

    25 اور 26 اگست اتوار اور سوموار کی درمیانی شب بلوچستان کے ضلع موسیٰ خیل میں لگ بھگ 23 افراد کو ان کے شناختی کارڈ دیکھ کر روکی گئی گاڑیوں سے اتار کر بیدردی کے ساتھ قتل کردیا گیا۔ ایک ویڈیو سے اس امر کی تصدیق ہوتی ہے کہ کم از کم چار افراد کو مسلح لوگوں نے ذبح کیا۔ اس واقعہ کے حوالے سے بی ایل اے کا دعویٰ ہے کہ "قتل کئے گئے افراد کا تعلق ایف سی و دیگر سکیورٹی اداروں سے تھا "آپریشن ھیروف" میں شامل بی ایل اے کے ارکان نے ان کے سروس کارڈز دیکھ کر پوری تسلی کی یہ لوگ اپنے کیمپوں کی طرف جارہے تھے۔

    بی ایل کے کے مطابق گاڑیاں اس لئے جلائی گئیں کہ ان گاڑیوں میں بلوچستان کے وسائل کو لوٹ کر پنجاب لے جایا جارہا تھا" مگر دوسرے ہی سانس میں بی ایل اے نے کہا گاڑیاں"فوج نے جلائی ہیں ہمیں بدنام کرنے کیلئے"۔ آگے بڑھنے سےقبل ایک سادہ سا سوال ہے وہ یہ کہ جو تنظیم لسبیلہ فوجی کیمپ پر خودکش حملہ کرنے والی اپنی فدائی ما ہل بلوچ اور اس کے ساتھی رضوان بلوچ کی تصاویر جاری کرنے میں دیر نہیں لگاتی اس نے موسیٰ خیل ضلع کی حدود میں قتل کئے جانے والوں کے سروس کارڈز کی تصاویر جاری کیوں نہیں کیں؟ ریاستی جبر اور ناروا پالیسیوں کے ساتھ مقامی وسائل پر مقامی لوگوں کا حق تسلیم نہ کئے جانے سے پیدا شدہ صورتحال پر بھی دو آراء ممکن ہی نہیں۔

    لیکن بلوچستان میں غیرمقامی محنت کشوں کو فوج کا مخبر اور سکیورٹی اداروں کا اہلکار قرار دے کر قتل کئے جانے کا یہ پہلا واقعہ ہرگز نہیں اس سے قبل درجن بھر سے زائد واقعات رونما ہوئے اور ہر واقعہ کےبعد بی ایل اے اور بی ایل ایف نے ایک ہی بات کی کہ مارے گئے غیرمقامی فوج کے مخبر تھے یا سکیورٹی اداروں کے اہلکار۔

    غیرمقامی افراد کے بے رحمانہ قتل کو بی ایل ایف اور بی ایل اے کے حامی دانشور ردعمل قرار دیتے ہیں یعنی سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں کا جواب۔

    یہاں ایک اور ستم کی نشاندہی ازبس ضروری ہے کہ 25 اور 26 اگست کی درمانی شب موسیٰ خیل بلوچستان میں بی ایل اے (اس نے ذمہ داری قبول کی ہے) کے جنگجوئوں کے ہاتھوں مارے گئے 23 میں سے 18 افراد کا تعلق سرائیکی وسیب (صوبہ پنجاب کے جنوبی حصے) سے تھا۔

    سرائیکی وسیب کا المیہ یہ ہے کہ اس کے محنت کش بچوں کو بی ایل اے اور بی ایل ایف کے جنگجو قتل کرتے ہیں اور وسطی و بالائی پنجاب کے چرب زبان پنجابی "مجاہدین" ان مقتولین کی قومی شناخت کو مسخ کرکے انہیں پنجابی قرار دیتے ہیں۔

    یقیناً گزشتہ سے پیوستہ روز کے المناک واقعہ کے حوالے سے سوال ریاست سے ہی کیا جانا چاہیے لیکن اگر کسی نے بلوچ یکجہتی کمیٹی وغیرہ سے دہشت گردی کے اس واقعہ کی مذمت کا کہہ بھی دیا تو اسے جواباً گالی دینے کی بجائے دلیل سے سمجھایئے کہ آپ کا مطالبہ درست نہیں بلکہ آپ کو سوال بلوچستان کی حکومت اور سکیورٹی اداروں سے کرنا چاہیے۔

    ہماری رائے میں وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی کی یہ منطق سطحی ہے کہ موسیٰ خیل میں مارے گئے 23 افراد کو بلوچوں نے قتل نہیں کیا دہشت گردوں نے قتل کیا ہے۔ یہ بی ایل اے، بی ایل ایف غیربلوچ فرشتوں کی تنظیمیں ہیں کیا؟

    اسی طرح یہ موقف یا مشورہ بھی ڈھونگی ہے کہ مرنے والوں کو سرائیکی، پنجابی نہ کہو پاکستانی مارے گئے ہیں۔ کیوں نہ کہیں مقتولین کو سرائیکی یا پنجابی وہ قتل اس لئے ہوئے کہ ان کے شناختی کارڈوں پر صوبہ پنجاب کے مختلف اضلاع کے ایڈریسز تھے مارنے والے کہہ رہے ہیں ہم نے "پنجابی" مارے ہیں یہاں پاکستانیت کا چورن کھیلانے کی سرتوڑ کوشش ہورہی ہے۔

    اس کوشش کا ایک ہی مطلب ہے کہ تلخ حقیقت کو چھپایا جائے۔ ہمارے ہاں یہ پھکی ہر المناک واقعہ کے بعد فروخت ہونے لگتی ہے کہ پاکستانی اور مسلمان تو دہشت گردی کر ہی نہیں سکتا۔

    حالانکہ ہر واردات پاکستانی مسلمان نے ہی سرانجام دی ہوتی ہے۔ وہ بنام فرقہ ہو یا قوم۔

    25 اور 26 اگست کی درمیانی شب موسیٰ خیل بلوچستان میں کیا پہلی بار 18 سرائیکی قتل ہوئے ہیں؟ جی نہیں اس سے قبل کے متعدد واقعات میں 100سے زائد سرائیکی بولنے والے محنت کش قتل ہوئے۔

    سرائیکی قوم پرست جماعتوں نے چند مذمتی بیانات ایک دو احتجاجی اجلاس کے سوا کیا کیا؟

    کچھ بھی نہیں انہیں ایک دوسرے کے کپڑے اتارنے اور اپنی اپنی پسند کے شخص کو سرائیکی تحریک کا جی ایم سید منوانے سے ہی فراغت نہیں ملتی حالانکہ اپنی فہم فکر مطالعے اور علمی حیثیت میں یہ اگلے دو تین سو سال تک بھی جی ایم سید کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکتے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہر نازک موقعے اورالمناک سانحہ کے بعد چند جذباتی بیانات و ویڈیو پیغامات سے حق وسیب ادا ہوجاتا ہے؟

    بہت احترام کے ساتھ عرض ہے معاملات کو ازسرنو دیکھنے سمجھنے اور قوت کے ساتھ اپنی بات کہنے کی ضرورت ہے۔ غور کرنا ہوگا کہ کیا وجہ ہے کہ ایک ہمارے بچوں کو قتل کرتا ہے دوسرا اٹھ کر ان بچوں کی قومی شناخت کو مسخ کرنے والی گالی دیتا ہے۔

    یہ بھی عرض کردوں کہ اس طعنے بازی کا کوئی فائدہ نہیں کہ "ہم نے سرائیکی۔ وسیب میں پرامن جدوجہد کرنے اور لانگ مارچ کرنے والے بلوچ بہن بھائیوں کا استقبال کیا اب ہمیں لاشیں مل رہی ہیں"۔

    آپ نے لانگ مارچ کے عمل کو جمہوری حق اور جدوجہد کا حصہ سمجھ کر اس کی حمایت کی یعنی آپ سمجھتے تھے کہ ریاست کی پالیسیاں عدم توازن کا شکار ہیں۔

    اسی طرح وہ احمق جو یہ کہتے پھرتے ہیں آزادی کی جنگ میں ایسا ہو ہی جاتا ہے خود ایک نئے ظلم کا جواز بناتے ہیں یا یہ کہنا کہ جنگ زدہ علاقوں میں غیرمقامی افراد جاتے ہی کیوں ہیں یہ بھی بچگانہ سی بات ہے۔

    انہیں سمجھنا ہوگاکہ غیرمقامی افراد کے سفاکانہ قتل کے واقعات سے دوریاں پیدا ہوں گی۔ انڈس ویلی جو آج پاکستان کے نام سے معروف ہے کہ اس وسطی حصے میں جسے پنجاب والے جنوبی پنجاب اور ہم سرائیکی وسیب کہتے ہیں مختلف قبائل اور ذاتوں کے لوگ آباد ہیں یہی صورت خود بلوچستان کی بھی ہے۔

    بطور خاص سمجھنے والی بات یہ ے کہ ریاست کی پالیسیوں سے اختلاف کے نام پر غیرمقامی محنت کشوں کے قتل عام سے صدیوں سے بنی سماجی یکجہتی متاثر ہوگی خاکم بدہن ایسا ہوا تو غور کیجے کہ نقصان بلکہ یوں کہہ لیجئے زیادہ نقصان کس کا ہوگا؟

    26 اگست سے پچھلی شب کے سانحہ موسیٰ خیل کے حوالے سے بی ایل اے کے جاری کردہ بیان میں جو دعویٰ کیا گیا کہ مرنے والے سکیورٹی اداروں کے اہلکار تھے ان کے سروس کارڈز چیک کرکے انہیں قتل کیا گیا یہ ایک سفید جھوٹ ہے جھوٹ اس لئے بھی ہے کہ آج کے جدید دور میں بہت آسان ہے کسی مقتول کا اس کے آبائی علاقے سے پس منظر معلوم کرنا۔

    مرنے والوں میں ٹرک اور پیک آپ ڈالوں کے ڈرائیور، پھلوں کی خریدوفروخت کرنے والے اور دیہاڑی دار محنت کش تھے۔ ان محنت کشوں میں سے اکثر ٹرکوں اور پیک آپ ڈالوں پر بطور معاون کام کرتے تھے ان ٹرکوں اور پیک آپ ڈالوں کی جلی ہوئی تصاویر سے بھی صاف دِکھ رہا کہ معدنی وسائل نہیں پھل وغیرہ لیجائے جارہے تھے۔

    باردیگر عرض ہے مقتولین کے ورثا اور سرائیکی وسیب کے لوگوں کو پاکستانی اور مسلمانی کی پھکیاں نہ ہی دی جائیں تو مناسب ہے۔ یہ دونوں کام سرائیکی قومی شناخت کو مسخ کرنے کے ہتھکنڈے ہیں۔

    سرائیکی قوم پرست جماعتوں کو میری بات بری لگے گی لیکن عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ وسیب کے وسیع تر مفاد کے لئے ایک تو اسٹیبلشمنٹ سے یکجہتی مارچ و ریلیاں نکالنا اب بند کردیں۔ سرائیکی لوگوں کے ساتھ آڑے وقت میں کوئی یکجہتی کا مظاہرہ کرتاہے نہ ان کی اشک شوئی پھر ہم کیوں پرائی شادی میں عبداللہ دیوان بن کر ناچنے لگتے ہیں؟

    سرائیکی جماعتوں کی آل پارٹیز کانفرنس کسی تاخیرکے بغیر بلائی جانی چاہیے اپنے وسیب کے مسائل، محرومیوں اور نسل کشی کے واقعات پر غور کرکے مشترکہ لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہے۔

    ہمیں (سرائیکی وسیب کو) یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے بچے مارے جارہے ہیں اور ہماری قومی شناخت مسخ کرکے پاکستانیت مسلمانی اور پنجابیت کے سودے فروخت کئے جارہے ہیں۔

    ایک درخواست سرائیکی وسیب میں مقیم ان بلوچ دوستوں سے بھی ہے جو بی ایل اے اور بی ایل ایف کی جدوجہد کو درست سمجھتے ہیں وہ بھی غلط کو غلط کہنے کی جرات کا مظاہرہ کریں۔ بے گناہ محنت کشوں کے قتل پر اگر وسیب کے لوگوں سے ہمدردی نہیں کرسکتے تو ان کے زخموں پر نمک بھی نہ چھڑکیں۔