گیارہ جولائی رضو شاہ (سید حسن رضا بخاری) کے سانحہ ارتحال کا دن ہے۔ گیارہ جولائی ہی ہماری امڑی حضور کے حیات ابدی کے سفر پر رخصت ہونے کا دن بھی۔ رضو شاہ کو یاد کرنے میں ایک دن کی تاخیر نہیں ہوئی اس کی یادوں کو ان سطور میں لکھنے میں ایک دن کی تاخیر ضرور ہوگئی۔ آپ میری مجبوری ابتدائی سطور سے جان سکتے ہیں۔
میں ہمیشہ کہتا لکھتا ہوں اور میرا ایمان بھی یہی ہے کہ دوست کعبہ کی طرح محترم و مقدس ہوتے ہیں۔ سندھی زبان کے عظیم صوفی شاعر سامی نے کہا تھا "دوست سندھ ندی کے ٹھنڈے اور میٹھے پانی کی طرح ہوتے ہیں"۔ سچل سرمستؒ کہتے تھے "ہاں شرط یہ ہے کہ دوست ہوں"۔
رضو شاہ کہنے لکھنے یاد کرنے کو فقط ایک اعلیٰ اوصاف کے حامل انسان، سچے اور اجلے سرائیکی قوم پرست، دلنواز دوست تھے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ وہ سرائیکی قومی جدوجہد کی تاریخ کے امین اور اس جدوجہد کے متحرک و فعال کردار تھے۔ ان سے دوستی 1970ء کی دہائی میں ہوئی۔
تب چوک کمہاراں والا کے قریب ان کی قیام گاہ والی گلی ابھی پختہ نہیں ہوئی تھی، ان برسوں میں جب میں ملتان آتا تو شام کو ان کے گھر کے باہر گلی میں ایک محفل روزانہ کی بنیاد پر سجتی (یہ محفل ہماری غیرحاضری کےدنوں میں بھی جاری و ساری رہتی) عزیز نیازی، محمود نواز بابر، مقبول انیس، منصور کریم سیال اور دوسرے چند دوست اس نشست کے مستقل رکن تھے۔ ملتان اور وسیب سے باہر یا وسیب کے کسی حصے سے ملتان آنے والے ترقی پسند سیاسی کارکنوں کی ملتان یاترا رضو شاہ کے گھر کے باہر جمی چندال چوکڑی (یہ چنڈال چوکڑی وولا نام رضو شاہ کے والد بزرگوار نے رکھا تھا) میں شرکت واجب رہتی۔
سپہر کے بعد شروع ہونے والی اس "چنڈال چوکڑی" کا زیادہ تر اختتام نماز مغربین کے بعد رضو شاہ کے گھر سے آنے والے لنگر کو تناول کرکے ہوتا تھا لیکن جس دن کوئی مسافر دوست شریک محفل ہوتا مجلس دیر تک جاری رہتی۔ رضو شاہ کے والد بزرگوار نماز مغربین کے لئے گھر سے نکلتے اپنے صاحبزادے اور اس کے دوستوں پر طائرانہ نگاہ ڈالتے اور پھر دروازہ کھول کر بلند آواز میں کہتے "رضو دی اماں تیڈے بال دے سنگتی ڈیرہ لائی پئین انہاں دی روٹی ٹکر دا وی بندوبست کریں پتہ نئیں اے کیہڑے ویلے تے بھکے ہوونڑ"۔
یہ پیغام دے کر وہ ایک بار پھر چنڈال چوکڑی پر نگاہ ڈالتے اور کہتے "میں نماز پڑھی آواں، روٹی پکدی پئی اے کھاکے ونجائے"۔ رضو شاہ کے والد بزرگوار اپنے صاحبزادے اوراس کے دوستوں کی محفل کو " چنڈال چوکڑی" کے نام سے کیوں یاد کرتے تھے؟ سادہ سا جواب یہ ہے کہ انہیں علم تھا کہ نوجوانوں اور جوانوں کی یہ ٹولی مذہب و ملا بیزار ہے اور اکثر خدا کو بھی نہیں مانتے۔
وہ خود ایک روایتی شیعہ سید خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ نماز و مجالس ان کے لئے زندگی کے واجبات میں شامل تھے۔ رضو شاہ کے والد بزرگوار نماز مغربین پڑھ کے واپس آتے تو محفل گرم ہوتی ان کی آمد پر کچھ ساعتوں کے لئے خاموشی چھاجاتی وہ گلی میں چہل قدمی کرنے لگتے۔ ہر چکر پر وہ ایک نگاہ بیٹے اور اس کے دوستوں پر ڈالتے۔ چہل قدمی کے آخری مرحلے میں وہ "چنڈال چوکڑی" کے پاس ٹھہر جاتے۔
دوچار لمحوں کی خاموشی کے بعد وہ کہتے "اوئے بالو میں سنڑے تساں خدا کوں نیوے منیدے چلو خیر اے بس ہک گال یاد رکھائے مولا علیٰ حق دا امام ہے تے امام حسینؑ حریت فکر دا پاسبان انہاں کو ضرور منائے"۔ روزانہ کی بنیاد پر جاری ہونے والے اس ہدایت نامے میں چند لفظی اضافہ ان دنوں ہوتا جب میں بھی ملتان میں قیام کے دنوں میں اس محفل میں موجود ہوتا۔
تب وہ اپنی بات یوں مکمل کرتے "اوئے بالو میں سنڑے تساں خدا کوں نیوے منیدے چلو خیر اے بس ہک گال یاد رکھائے مولا علیؑ حق دا امام ہے تے امام حسینؑ حریتِ فکر دا پاسبان انہاں کو ضرور منائے "۔ یہاں پہنچ کر وہ ساعت بھر کا وقفہ لیتے اور پھر مجھے متوجہ کرکے کہتے " شاہ پُتر توں تاں وعظ آلی بی بی دا پتر ہیں انہاں کو سمجھا"۔ میں خاموشی سے سر جھکالیتا محفل میں سے کوئی نہ کوئی باآواز بلند کہتا "چاچا سئیں اے وی ساڈے آلی کار ہے پیا"۔
اب وہ قہقہ لگاتے اور کہتے مولا حق دا امام علیؑ تہاکوں اپنڑی امان رکھے پھر وہ گھر میں داخل ہوجاتے۔
کچھ دیر بعد لنگر آجاتا ہم سب اس سے انصاف کرنے لگتے۔
رضو شاہ زمانہ طالب علمی سے ہی ترقی پسند سیاسی شعور کے حامل تھے۔ بہاولپور صوبہ بنائو تحریک میں شریک زمین زادوں پر توڑے گئے ریاستی مظالم کے چشم دید گواہ بھی کیونکہ ان دنوں وہ بہاولپور میں زیرتعلیم تھے۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ اپنے والد بزرگوار کی خواہش پر یو بی ایل میں بھرتی ہوئے۔ پیپلزپارٹی ان کی پہلی سیاسی محبت تھی۔ ہمارے مشترکہ دوست مرحوم بیرسٹر تاج محمد لنگاہ نے جب خورشید حسن میر کے ساتھ مل کر عوامی جمہوری پارٹی کی بنیاد رکھی تو اس جماعت کا پہلا ورکر کنونشن خانیوال روڈ ملتان پر واقع سیدی زمان جعفری مرحوم کی قیام گاہ پر منعقد ہوا۔ زمان جعفری رضو شاہ پر عوامی جمہوری پارٹی میں شمولیت کے لئے زور دیتے رہے مگر انہوں نے انکار کردیا۔
اگلے مرحلوں میں وہ سرائیکی لوک سانجھ کے پلیٹ فارم سے فعال ہوئے سرائیکی لوک سانجھ ہی سرائیکی وسیب کے لوگوں کی سیاسی و قومی شعور کی اتالیق تنظیم ہے۔
بہاولپور صوبہ محاذ کے بزرگوں سئیں ریاض اختر ہاشمی مرحوم، سیٹھ عبید الرحمن مرحوم اور وسیب کے دیگر بزرگوں ان میں بیرسٹر تاج محمد لنگاہ بھی شامل تھے کی کوششوں سے سرائیکی صوبہ محاذ تشکیل پایا تو رضو شاہ بھی دیگر دوستوں کے ہمراہ سرائیکی صوبہ محاذ میں سرگرم ہوگئے۔
سرائیکی صوبہ محاذ کی عوامی کامیابی سے بوکھلاکر ریاستی جغادریوں نے 1984ء میں سرائیکی وسیب میں شیعہ دیوبندی فسادات کی راہ ہموار کی اس سے سرائیکی تحریک کو بہت نقصان پہنچا۔
بیرسٹر تاج محمد لنگاہ مرحوم نے جب سال 1989ء میں پاکستان سرائیکی پارٹی کی بنیاد رکھی تو دوسرے متعدد دوستوں کے ساتھ رضو شاہ بھی سرائیکی پارٹی کے بانی ارکان میں شامل ہوئے۔ اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل وہ سرائیکی پارٹی سے الگ ہوکر خواجہ غلام فرید کی جماعت سرائیکستان قومی اتحاد کے سیکرٹری جنرل بھی بنے لیکن یہ عرصہ بہت مختصر رہا۔ رضو شاہ ایک بار پھر سرائیکی پارٹی میں لوٹ آئے۔ اس واپسی میں منصور کریم سیال کی کوششوں کا عمل دخل زیادہ تھا۔
سرائیکی وسیب، قومی جدوجہد میں فعال کردار ادا کرنے والی زندہ و مرحوم شخصیات کی باتیں اور تاریخ انہیں ازبر تھی۔ ملتان کی تاریخ پر گفتگو شروع ہوتی تو ایسا لگتا کہ ملتان کی ہزاریوں کی تاریخ ہاتھ باندھے رضو شاہ کے سامنے کھڑی ہے وہ بس حوالہ دیکھنے کے لئے ایک نگاہ ڈالتے ہیں۔
رضو شاہ وسیع مطالعہ شخص تھے۔ رواں صدی کے دوسرے عشرے کے جو چند برس میں ملتان میں مقیم رہا ان برسوں میں شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب ہم نہ ملے ہوں۔ روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں پریس کلب ملتان کے صحن میں دوپہر سے شام تک جاری رہتیں۔ گرمی شدید ہوتی تو پریس کلب کے سامنے والے پلازہ کی بیس منٹ واقع منصور کریم سیال کے صاحبزادے کا کیفے ہمارا ٹھکانہ ہوتا۔
روزانہ کسی نہ کسی موضوع پر یعنی نئی کتاب یا تاریخ، ادیان، سرائیکی تحریک پر بات ہوتی کبھی دوستوں کا محبت بھرا ذکر چھڑ جاتا۔ دوست جوکہ ننانوے فیصد مشترکہ تھے ان کی یادیں تازہ ہوتیں۔ کبھی زندگی کا سفر تمام کرکے رخصت ہوجانے والے دوستوں کا تذکرہ شروع ہوجاتا۔
سال دو ہزار پندرہ میں جب "دی فرنٹیئر پوسٹ" گروپ میں بطور ایڈیٹر شمولیت کے لئے ملتان سے لاہور کے لئے رخصت ہورہا تھا تو رضو شاہ بظاہر دوسرے دوستوں کی طرح مین سٹریم میڈیا میں واپسی پر خوشی کا اظہار کررہا تھا لیکن اس کے چہرے سے صاف لگتا تھا کہ اسے میرا ملتان سے چلے جانا اچھا نہیں لگ رہا۔
ملتان سے رخصت ہوتے وقت وہ مجھے بس سٹینڈ پر چھوڑنے آئے اور بولے "یار شاہ افسوس کہ تم سے بچھڑنا پڑرہا ہے کاش ہم ایسا کچھ کرپاتے کہ تم ملتان سے نہ جاتے"۔
چلو ہم کچھ دوست ملکر ایک فورم بناتے ہیں مکالمے کو رواج دینے کیلئے اس طرح تمہارا ملتان آناجانا لگا رہے گا۔
یہ فورم تو نہ بن سکا البتہ رضو شاہ دنیا سرائے سے اپنا پڑاو اٹھا کر رخصت ہوگئے حق تعالیٰ مغفرت فرمائے اس مردِ آزاد کی آمین۔