دوپہر عصر کی طرف بڑھ رہی تھی جب میں سن گائوں میں مرشد جی ایم سید کی تربت پر پہنچا۔ یہاں آنے کا حکم مرشد سائیں سیدی شاہ عبداللطیف بھٹائیؒ نے پچھلی شب کے آخری حصے میں اس وقت دیا تھا جب میں ان کی خانقاہ پر حاضر ہوا۔ وہیں سائیں سچل سرمستؒ اور سامی سئیں سے بھی ملاقات ہوئی۔
مسافر طالب علم نے مرشدین سے خوب باتیں کیں۔ مرشدوں سے جی بھر کے باتیں ہوہی کہاں پاتی ہیں۔
شاہؒ سائیں (شاہ عبدالطیف بھٹائی رح) نے کہا تھا "فقیر راحموں یہاں سے واپسی پر ذرا سن گائوں جاکر اپنے مرشد سید غلام مرتضیٰ شاہ کاظمی (جی ایم سید) کی تربت پر ایک سوال رکھنا۔ اپنے مرشد سے پوچھنا "بٹوارے کے لئے سندھ اسمبلی میں قرارداد پیش کرکے منظور کرانے اور مسجد منزل گاہ کی تحریک چلانے کے نتائج سے کیوں بے خبر رہے۔ کیا علم و مشاہدات نے ان کی اس سمت رہنمائی نہیں کی تھی کہ لوگوں کی شناخت کو ان کے اصل سے کاٹ کر مذہب سے جوڑ دینے سے نفرتوں کے بیوپار اور قتال کے درزواے کھلتے ہیں؟"
مسافر طالب علم کو اب یہ سوال اپنے سیاسی و فکری مرشد کے حضور رکھنا اور جواب جاننا تھا۔
مرشد جی ایم سید کی تربت پر سلام و نیاز پیش کرکے تربت سے لگ کر بیٹھ گیا۔ کچھ دیر بعد مرشد کی آواز نے ذہن و دل پر دستک دی۔ مرشد کہہ رہے تھے "آو میرے شاہ زادے مسافر، مل آئے شاہ سائیں کی خانقاہ پر شاہ، سچل اور سامی سے؟" جی میں نے عرض کیا۔
پھر مرشد شاہ سائیںؒ کا سوال ان کے حضور رکھتے ہوئے عرض کیا مجھے امید ہے کہ جس طرح اپنی زندگی میں آپ مجھ طالب علم پر مہربان رہے آج بھی نہ صرف سوال کا جواب عنایت کریں گے بلکہ طالب علم کی رہنمائی بھی کریں گے۔
شاہ سائیںؒ کا سوال مرشد کے گوش گزار کرچکا تو عرض کیا، مرشد اگر اجازت ہو تو ایک بات میں بھی عرض کروں؟
ان کی اجازت سے عرض کیا، "مرشد آپ نے اپنی ایک تصنیف "جیسا میں نے دیکھا" کے انتساب میں لکھا تھا "میں اپنی یہ کاوش نقیب انسان صوفی یگانہ حضرت شاہ عنایت شہید کے نام نامی و اسم گرامی سے منسوب کرتا ہوں جنہوں نے مذہبی تعصب کے خلاف جہاد کرتے ہوئے سر قربان کردیا"۔
جواب ملا، "بالکل انتساب کے لئے یہی کلمات لکھے تھے مگر شاہ زادے، اس انتساب کا حوالہ دے کر تم کیا کہنا یا پوچھنا چاہتے ہو؟"
عرض کیا "مرشد گو کہ آپ نے اس کتاب کی سال 1968ء میں ترتیب و تدوین مکمل کی۔ شاہ سائیں کے سوال میں موجود دو واقعات اس سے پہلے ہوچکے تھے طالب علم سمجھنا یہ چاہتا ہے کہ آپ کی ابتدائی تحریروں اور بعض تقاریر میں شاہ عنایت شہید کا بڑے جذباتی انداز میں تذکرہ ملتا ہے۔
آپ نے سال 1939ء میں حیدر آباد میں اہل علم و دانش سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا "شاہ عنایت شہید سے اُجلا سندھ واسی پھر سندھ نے نہیں دیکھا۔ مطلب یہ ہوا کہ آپ تب بھی صوفی شاہ عنایت شہید کی فکر اور جدوجہد سے کامل اتفاق رکھتے تھے پھر سندھ اسمبلی میں تقسیم ہند اور قیام پاکستان کے لئے بٹوارے کے حق میں جو قرارداد آپ نے پیش کی اور منظور کرائی وہ قرارداد صوفی شاہ عنایت شہید کی صلح کُل کی فکر سے متصادم نہیں تھی؟
کیونکہ شاہ عنایت شہید تو مذہبی نہیں انسانی سماج اور وحدت کے ساتھ مساوات پر کامل یقین رکھتے تھے؟"
مرشد کے زندگی سے بھرپور قہقہے نے سماعتوں پر دستک دی پھر کہنے لگے۔
"ایک بار نہیں بلکہ تواتر کے ساتھ میں بٹوارے کی قرارداد اور مسجد منزل گاہ تحریک کے معاملے پر سندھ وادی کے واسیوں سے کھلے دل سے معذرت کی۔ جس کتاب کے انتساب کا تم نے حوالہ دیا اس کتاب میں بھی میں نے سندھ واسیوں کو ملائیت کے زہر سے بچانے کے لئے تفصیل کے ساتھ اپنی معروضات پیش کی تھیں۔ میں نے کبھی عقل کُل ہونے کا دعویٰ نہیں کیا غلطیاں ہوئیں تو کھل کر ان کا اعتراف کیا اور مداوے کے لئے بساط مطابق کوششیں بھی کیں"۔
میں نے عرض کیا "مرشد کیا بٹوارے والی قرارداد اور مسجد منزل گاہ والی تحریک نے سندھ وادی اور سندھ واسیوں کو جو گہرے گھائو لگائے مذہبی شناختوں کی خلیج سے دوریاں بڑھیں ان کا مداوا محض معذرت سے ممکن تھا؟"
مرشد کہنے لگے "ایک تو تم بولتے بہت ہو ویسے یہ اچھی بات ہے آدمی بولتا رہے تو زندگی کی گرمی برقرار رہتی ہے"۔
عرض کیا "مرشد کیا صرف بولتے رہنے سے زندگی کی گرمی برقرار رہتی ہے بھلے آدمی کچھ بھی بولے؟"
مسکراتے ہوئے کہنے لگے "یہ جو اچانک طالب علم کے اندر سے صحافی نکل کر باہر آجاتا ہے یہ بھی خوب ہے۔ آدمی اگر طالب علم رہے اور اسی طور بولے تو وہ رہنمائی چاہتا ہے۔ اپنے عصر کو شعور کی روشنی میں سمجھنا چاہتاہے۔ بٹوارے کی قرارداد کے منطقی نتیجے نے سندھ وادی اور سندھیوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ مجھے ان دونوں معاملات سے (قرارداد اور مسجد منزل گاہ تحریک) سے دامن بچاکر رکھنا چاہیے تھا، لیکن تمہیں اور تمہارے دوستوں کو یہ بات سمجھنا ہوگی کہ کوئی بھی شخص جنم دن سے فکری ارتقا کی معراج نہیں پالیتا فکری ارتقا کا لمبا اور کٹھن سفر کبھی نعمتوں سے نواز دیتا ہے اور گاہے آدمی لحد میں اترتے وقت رنج و ملال سے نجات نہیں پا سکتا۔
سیاسی اور مذہبی جذبات کے اثر میں جو غلطیاں ہوئیں ان کے مداوے کے لئے عملی اور تحریری طور پر جتناکام میں کرسکا یا یوں کہہ لو مجھے جتنا کام کرنے کا وقت ملا اس پر مجھے اطمینان ہے"۔
ایک مختصر وقفے کے مرشد نے کہا "شاہ زادے ویسے میں بھی اس بات پر حیران ہوں کہ سندھ واسیوں نے اپنے گھروں میں"شاہ جو رسالو"، "پیغام شاہ لطیفؒ"، " جیسا میں نے دیکھا"، "زنجیروں میں جکڑی ہوئی قوم" اور "سندھ کی آواز" کی بجائے موت کا منظر، راجہ گدھ، مرنے کے بعد کیاہوگا اور تلوار ٹوٹ گئی جیسی کتابیں کیوں بھرلیں"۔
سندھیوں کی نئی نسل نے "پیغام شاہ لطیفؒ" کا شعوری طور پر مطالعہ کیا ہوتا تو انہیں ملائیت، تعصبات اور چھوت چھات سے محفوظ رہنے کے گُر آجاتے"۔
چند ساعتوں کے لئے خاموشی نے حصار میں لیا پھر مرشد کی آواز سنائی دی "شاہ زادے، کیا میں نے ساری عمر کٹھ ملائیت کے جبر اور اس سے جنم لینے والی خرابیوں بر بات نہیں کی۔ کیا میں نے سندھ واسیوں سے یہ نہیں کہا تھا کہ تمہاری اصل شناخت سندھ ہے سندھ وادی، سندھو ندی، اپنی تاریخ ثقافت تہذیب و تمدن ہے۔ تمہارا فکری اثاثہ شاہ لطیفؒ، سچلؒ اور سامی کی شاعری ہے۔ اس فکری اثاثے سے منہ موڑو گے تو انسانیت کشی کے شوقین خیراتی ملائوں کا ریوڑ بن جائو گے"۔
میں نے عرض کیا " مرشد آپ بجا کہہ رہے ہیں مگر اس وقت صرف سندھ ہی نہیں بلکہ پوری انڈس ویلی فکری، شناختی، تہذیبی بحران سے دوچار ہے۔ بٹوارے نے ہمیں اپنے اصل سے کاٹ کر جس سمت ہانکا اس سمیت تو گہری کھائیاں ہیں یا تپتا ہوا صحرا۔ اب تو یہ لگتا ہے کہ ہم ایک بنجر سماج میں جی رہے ہیں"۔
مرشد سئیں کہنے لگے "شاہ زادے بٹوارے کی کوکھ سے جنم لینے والے عذابوں اور بربادیوں سے کسی کو انکار نہیں البتہ میری رائے یہ ہے کہ اب اس کا ماتم کرتے رہنے سے بہتر ہے کہ ہر شخص اپنی اپنی بساط کے مطابق ایسے انسانی سماج کی تشکیل کے لئے جدوجہد کرے جو تعصبات، چھوت چھات، اقربا پروری، عدم مساوات اور ناانصافیوں سے محفوظ ہو اور شرف انسانی کی دولت سے مالامال، البتہ اس کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے ملائیت کے زہر کا تریاق تلاش اور استعمال کیاجائے۔ یہ تریاق صرف اور صرف علم و انسان دوستی سے ممکن ہے۔
اپنے بچوں اور نئی نسل کو مطالعے کی نعمتوں سے آگاہ کرو انہیں سچل سرمستؒ کی زبان میں سمجھائو کہ "ملا تو روٹی کے لئے اذان دیتا ہے"۔
ملائیت اب پیشہ بن چکا یہ فرقہ وارانہ بُعد اور نفرتیں اس سرزمین کے لوگوں کا اصل ہرگز نہیں"۔
عرض کیا مرشد سئیں!
"کیا اپنی تاریخ پر شرمندہ اور پرائی تاریخ پر اترانے والوں کی عصری شعور سے رہنمائی ممکن ہے؟"
کہنے لگے "ناممکن کچھ نہیں ہوتا انسان تو چاند پر پہنچ گیا یہ زمین کے واسی حق شناسی میں تاخیر ضرور کررہے ہیں؟
یاد رکھو بالآخر انہیں ایک دن اپنے اصل کی طرف پلٹنا ہوگا"، مرشد کے ارشادات کی نعمتوں سے مسافر طالب علم دامن بھر رہا تھا کہ اچانک مرشد سئیں بولے شاہ زادے، شام اترنے کی تیاریوں میں ہے تمہارا سفر بھی طویل ہے۔ بس ایک بات اور "وہ یہ کہ جو لوگ غلطی کرکے اس پر اتراتے ہیں وہ دنیا کو جہنم بنادیتے ہیں انسانیت کا پہلا سبق یہ ہے کہ غلطی کی جائے تو برملا اعتراف کرتے ہوئے شرمسار نہیں ہونا چاہیے۔
انکار سے اعتراف کچھ مشکل ضرور ہے لیکن اعتراف ہی جہل کے اندھیرے کو کاٹتا ہے کیونکہ اعتراف کو اصل میں علم و مشاہدے کی طاقت حاصل ہوتی ہے"۔
مرشد کی بات تمام ہوئی میں اجازت لے کر ان کی تربت سے اٹھا اور واپسی کے لئے چل دیا۔
جاری ہے۔۔