اس امر پر دو آراء نہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف جمہوری نظام کے دو ایسے حصے ہیں کہ اگر حزب اختلاف نہ ہو تو جمہوریت روکھی پھیکی لگتی ہے۔ ہمارے ہاں البتہ بدقسمتی سے ہی روز اول سے ہر حکومت خود کو حرف آخر، عقل کل اور نجات دہندہ ہی سمجھتی ہے اوراس کے خیال میں حزب اختلاف جمہوریت اور ترقی کی دشمن ہے۔
کبھی کبھی حزب اختلاف پر ملک دشمن ہونے کی پھبتی بھی کسی جاتی ہے۔
دوسرے ترقی پذیر ممالک کے برعکس ہمارے ہاں ہر حکومت بڑھ چڑھ کر یہ تاثر بھی دیتی دیکھائی دیتی ہے کہ حکومت اور عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں۔ دونوں کا ہم پلہ ہونا ایک پیج پر رہنا اور اس کے اقرار کا راگ الاپتے رہنا کیوں ضروری ہے اور یہ ملکی دستور کی کس شق کے عین مطابق ہے یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں۔
غیر ضروری طور پر یا نفسیاتی طور پر لشکر پسندی کے مرض نے سیاسی جماعتوں کو اس راستے پر سرپٹ بھگائے رکھا بلکہ اب بھی اسی راستے پر بھاگ رہی ہیں حالانکہ اس کی ضرورت نہیں۔ حکومت رائے دہندگان کے ووٹوں سے برسراقتدار آتی ہے اور اس کا دستوری قانونی اخلاقی اور جمہوری فرض یہ ہوتا ہے کہ جس جماعت یا اتحاد کی حکومت ہو وہ اپنے انتخابی منشور پر اس طور عمل کرے کہ دورانیہ مکمل ہونے کے بعد دوبارہ جب الیکشن کے میدان میں اترے تو رائے دہندگان کے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دے نہ کہ منہ چھپائے پھرے اور سازشوں، گھٹالوں، آر ڈی ایس بیٹھاتے، نتائج مینج کرانے کے ذریعے اقتدار کے پھل دار درخت کے نیچے بیٹھے۔
صاف سیدھے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان میں عوام کے حق حکمرانی کے وعدے اور باتیں سراب ثابت ہوئے۔ سیاسی جماعتیں اپنے اختلاف خود طے کرنے کی بجائے سہاروں کی تلاش میں رہتی ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ "سب کچھ" سہارے سمیٹ کر لے جاتے ہیں اور سیاسی جماعتوں کا حال کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا کروانے کے مصداق ہوتا ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ اپنے آغاز سے اب تک بغض دشنام طرازی اسٹیبلشمنٹ کی چاپلوسی جیسے کاموں سے عبارت ہے۔ 75 یا 76 برسوں کی تاریخ کے اوراق کھنگالنے کی بجائے اگر رواں صدی کے 24 برسوں کے معاملات، اثرات اور نتائج کو ہی دیکھ لیں تو یہ امر دوچند ہوجاتا ہے کہ ماضی کی طرح ان برسوں میں بھی سب اچھا ہرگز نہیں وجہ یہی ہے کہ سیاسی عمل اقدار و روایات اصولوں اور دستور و قانون کی پاسداری سے یکسر محروم ہے۔
شخصیت پرستی اوئے توئے دشنام طرازی و کردار کشی سیاسی عمل کا رزق بن کر رہ گئے ہیں نتائج بھی بہت واضح ہیں۔ آج پاکستان صرف سیاسی عدم استحکام کا شکار ہی نہیں، معاشی ابتری کا بھی دوردورہ ہے۔
مہنگائی ہے، غربت، بیروزگاری اور طبقاتی تضادات اس کے ساتھ ہی فیڈریشن اور اکائیوں کے درمیان موجود اختلافات بھی ہیں۔ بلوچستان کا سلگتا آتش فشاں بھی پھٹنے کو ہے مگر کیا مجال کہ کسی کو ان مسائل و مشکلات کا ادراک ہو۔ تقریباً سبھی اپنی اپنی ڈفلی بجارہے ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ روز تحریک انصاف سے بات چیت کے لئے حکومت کے نمائندے رانا ثناء اللہ کے اپوزیشن اتحاد کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے رابطے کی خبر آئی تو ایک امید بندھی کہ شاید فریقین کو سمجھ میں آگیا ہے کہ
"لڑتے لڑتے ہوجاتی ہے گم ایک کی چونچ اور ایک کی دُم"
مگر صرف 24 گھنٹے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر اور سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صدارت میں منعقد ہونے والے اجلاس کے بعد لیگی رہنما اور وفاقی وزیر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات پر معافی مانگنے تک عمران خان سے کوئی بات نہیں ہوسکتی جبکہ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف یہ کہتے دیکھائی دیئے کہ ہم پی ٹی آئی سے مذاکرات کے حق میں نہیں۔ اس ہم سے مراد ان کی ذات ہے یا جماعت، اس کی وضاحت تو وہی کرسکتے ہیں البتہ ذرائع اس امر کی تصدیق کررہے ہیں کہ میاں نوازشریف کی صدارت میں منعقدہ اجلاس میں تحریک انصاف سے مذاکرات کے حوالے سے پارٹی کے اندر تقسیم بہت گہری دیکھنے میں آئی۔
مذاکرات کے حق میں جو پانچ سات رہنما ہیں انہیں وزیراعظم شہباز شریف کا ہم خیال سمجھا جاتا ہے جبکہ اکثریت جو مذاکرات کی مخالف ہے وہ بظاہر تو پی ٹی آئی دور میں روا رکھے گئے بدترین سلوک، مقدمات کے قیام، پولیس اور نیب کی تحویل کے دوران تشدد کا نشانہ بنائے جانے اور منظم انداز میں کی جانے والی کردار کشی کی وجہ سے نہ صرف تحریک انصاف کے خلاف سخت موقف رکھتی ہے بلکہ یہ اکثریتی گروپ بعض معاملات میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی شاکی ہے۔
گو کہ ان شکوئوں اور شکایات کو کبھی کبھار مسلم لیگ (ن) کے چند رہنما خواجہ آصف، میاں جاوید لطیف، سینیٹر عرفان صدیقی اور نہال ہاشمی زبان دیتے رہتے ہیں مگر گزشتہ روز منعقد ہونے والے مسلم لیگ (ن) کے اجلاس میں تحریک انصاف اور عمران خان کے حوالے سے جو غم و غصہ دیکھنے میں آیا وہ عجیب تو نہیں مگر اس پر حیرانی اس لئے ہے کہ سیاسی عمل اور نظام ہائے حکومت کا تجزیہ کرنے والوں کے خیال میں مسلم لیگ (ن) کو ذاتی و جماعتی رنجشوں کی سطح سے اوپر اٹھ کر سیاسی مفاہمت کے لئے بڑے دل سے کام لینا چاہیے تھا۔
یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ کرپشن اور بعض دوسرے مقدمات میں گرفتار اڈیالہ جیل میں بند سابق وزیراعظم عمران خان بھی ایک ایسی بند گلی میں سیاست کے عادی ہیں جس میں دوسرے کسی فریق کا وجود نہ ہو اور اگر ہو تو ایک پیج پر رکھی گئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس کا بھرکس نکالنے میں عملی طور پر مدد کرے۔ ان کے ساڑھے تین برسوں کے دور اقتدار میں جنرل باجوہ رجیم نے بے مثال انداز میں حکومت کی مدد کی اور ناز نخرے اٹھائے وہ کسی سے مخفی نہیں یہاں تک کہ قانون سازی اور اجلاسوں کا کورم پورا کرنے کا "ٹھیکہ" بھی خفیہ ایجنسیوں کے افسروں نے اعلیٰ حکام کے حکم پر سنبھال رکھا تھا۔
بہرطور یہ ماضی ہے یقیناً اس کی یادیں خوشگوار نہیں تلخیوں بھری ہیں ان تلخیوں کو عملی طور پر بھگتنے والے آج اقتدار میں ہیں مگر یہ بھی امر مسلمہ ہے کہ سیاست میں دوستیاں اور دشمنیاں مستقل نہیں ہوتیں۔ مثلاً عمران خان انتہائی بازاری انداز میں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کا جلسوں اور محفلوں میں تمسخر اڑاتے تھے آج ان کی جماعت فضل الرحمن کے دروازے سے اُٹھ ہی نہیں رہی جبکہ محمود خان اچکزئی اس اتحاد کے سربراہ ہیں جو تحریک انصاف نے بنایا ہے۔
دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے رہنما کہتے ہیں کہ عمران خان اور ان کی جماعت سیاسی اصولوں اور ضرورتوں سے بے بہرہ ہی نہیں بلکہ وہ نظام کو ساواک اور گسٹاپو کی طرح چلانے کی سوچ رکھتے ہیں۔
عمران اور ان کی جماعت سے مذاکرات کے لئے رانا ثناء اللہ کے محمود خان اچکزئی سے رابطوں پر لیگی رہنمائوں کا کہنا ہے کہ اس شخص سے کیسے بات ہوسکتی ہے جو قومی اسمبلی کے فلور پر کھڑا ہوکر کہہ چکا ہو کہ اپوزیشن سے ہاتھ ملانا میرے نظریے کی توہین ہے۔
بادی النظر میں تو یہ بات اور رویہ درست ہے لیکن کیا اقتدار سے تین بار محرومی سے مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں نوازشریف اور انکے ساتھیوں نے کچھ نہیں سیکھا؟
ہمارے خیال میں انہیں بھی کمرے کو کنڈی لگاکر بیٹھنے کی بجائے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور کوشش کرتے رہنا چاہیے کہ بند گلی کے "میدان" میں تنہا کھیلنے کے شوقین کو آمادہ کیا جائے کہ سیاسی عمل، جمہوریت، نظام عوام اورملک کے لئے آگے بڑھایا جائے۔
اس کی بجائے اگر مسلم لیگ بھی دروازے بند کرکے بیٹھ رہی تو مسائل کیسے حل ہوں گے، سیاسی و معاشی استحکام کیسے آئے گا، بلوچستان میں لگی آگ بجھانے کی ذمہ داری کس نے پوری کرنا ہے؟