بہت سارے دوست برسوں عشروں سے اور کچھ پچھلے سال بھر سے کہہ رہے ہیں، احتیاط کی ضرورت ہے، چند دن اُدھر میرے بھائی کے ایک بیچ میٹ دوست نے ٹیلیفون پر سلام و آداب کے بعد کہا "بھائی جان آپ درست اور تاریخی حقائق پر بات کرتے ہیں لیکن جب ہر کوئی خاموش ہے تو آپ کیوں صرف اس موضوع پر لکھتے ہیں جس سے "کہیں" برہمی پیدا ہونے کے زیادہ امکان ہیں"۔ اس عزیز کی خدمت میں بہرطور اپنا موقف پیش کیا ان کی تشفی ہوئی یا نہیں یہ الگ معاملہ ہے۔
میں ان سطور میں باردیگر عرض کئے دیتا ہوں کہ ایک قلم مزدور اور طالب علم کی حیثیت سے کبھی بھی پاپولر بیانیہ کا شکار ہوا نہ اس کے جھانسے میں آیا۔ سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی سیاسی عمل میں دلچسپی، جوڑتوڑ، حاکمیت کُلی کا جنون، 4 مارشل لائوں، اسٹیبلشمنٹ کے بھونڈے تجربات اور دیگر امور پر لگ بھگ نصف صدی سے اپنی رائے پیش کرتا آرہا ہوں۔
بھاڑے کی حب الوطنی، دفاعی محبت، ازلی دشمن کے مقابلہ میں اللہ کے رازوں والا ایک راز اور اس طرح کی دوسری من گھڑت باتوں قصوں کہانیوں سے دلچسپی تھی نہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم نے کبھی بھی بٹوارے کو آزادی نہیں کہا لکھا۔
دوستوں اور عزیزوں کی پریشانی اور محبت سر آنکھوں پر مگر جب کسی نے تو بات کرنی ہے والی بات ہو تو یہ بات ہم ہی کیوں نہ کریں؟
تیسری دنیا کے وہ ممالک جنہوں نے 1940ء، 1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں سامراجی تسلط سے نجات حاصل کی آزادی اور بٹوارے کے ذائقے چکھے ان ممالک میں چند ایک خوش قسمت ہوں گے جہاں جیسی بھی ہے جمہوریت ہے تو سہی، اکثر میں ایک قسم کی "سکھاشاہی" ہے وہ جمہوریت کی شکل میں ہو یا کسی دوسری شکل میں۔
خیر تیسری دنیا کے خوش قسمت و بدقسمت ممالک کی تاریخ اور آج کے حالات ہمارا موضوع نہیں۔ ہمارے اپنے مسائل بہت ہیں۔ ہم ایک ایسے ملک میں رہتے ہیں جس نے بٹوارے سے جنم لیا اور عدم توازن، ناانصافی اور کُلی مالکی کے شوق کے بوجھ سے ٹوٹ گیا۔ 1971ء کو بٹوارے کے انجام کا پہلا مرحلہ کہہ لیجئے۔
یہ مرحلہ دوسری بہت ساری خرابیوں کے ساتھ اس لئے بھی آیا کہ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور اس کے ٹوڈیوں نے اکثریتی آبادی والے صوبے مشرقی پاکستان کے استحصال کو قانونی بنانے کے لئے ون یونٹ قائم کرکے برابری کا اصول مسلط کیا۔
برابری کے اس اصول میں ون یونٹ کے قیام سے انجام (ہم آپ جسے سقوط مشرقی پاکستان کہتے ہیں) تک کتنے بنگالی اس ملک کے صدر، آرمی چیف، بحریہ و فضائیہ کے سربراہ، سپریم کورٹ آف پاکستان کے چیف جسٹس، سٹیٹ بینک کے سربراہ وغیرہ وغیرہ بنے؟
برابری کے جس "اصول" پر ون یونٹ بنا تھا اس پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی اکثریتی آبادی والے صوبے نے کم آبادی والے صوبے سے بالآخر آزادی حاصل کرلی۔
کوئی لاکھ کہے کہ 16 دسمبر 1971ء سے پہلے والا جغرافیہ تھا ہی غیرفطری اس لئے اسے ختم ہونا ہی تھا حقیقت یہ ہے کہ مغربی پاکستان کی سول ملٹری اشرافیہ میں عددی اکثریت نہ ہونے کے باوجود اس کے شوق حاکمیتِ کُلی نے ملک کو دولخت کردیا۔
افسوس البتہ یہ ہے کہ سول ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے اس سے سبق نہیں سیکھا اسی لئے اس کا شوق حاکمیتِ کُلی آج بھی ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔
تمہید کچھ زیادہ طویل ہوگئی۔ ہمیں ایک ہی نکتہ پر آج کے کالم میں بات کرنا ہے وہ نکتہ فقط یہ ہے کہ کیا اس ملک میں فوج صرف پچھلے دو برسوں (اپریل 2022ء سے آج تک) سے ہی سیاسی مداخلت میں مصروف ہے؟
اس سوال کی وجہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں منگل 10 ستمبر کو منظور کی گئی ایک قرارداد ہے جس کی ابتدا یوں ہوتی ہے "یہ ایوان اس بات کا مطالبہ کرتا ہے کہ ہر ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر اپنے فرائض ادا کرے۔ پچھلے دو سال سے اس ملک کے اندر فوج کے کچھ افسران کی سیاست میں مداخلت ان کے اپنے حلف سے انحراف ہے جوکہ آئین کے آرٹیکل کے مطابق غداری کے زمرے میں آتا ہے"۔
یہ اسمبلی متفقہ طور پر مطالبہ کرتی ہے کہ "ان افسران کے خلاف فوجی قوانین کے مطابق نوٹس لے کر ان کے خلاف کورٹ مارشل کیا جائے اور سخت سے سخت سزا دی جائے اور ان کو غیرآئینی و غیرقانونی اور غیرانسانی اقدامات سے باز رکھا جائے۔ قرارداد میں فوج کی لازوال قربانیوں کو خراج تحسن پیش کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ "لیکن چند افسران کے ذاتی مفادات اور ضد و انا نے اس ملک کی جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے اور یہ نقصان جاری ہے اس لئے ایوان مطالبہ کرتا ہے کہ فوج کے جو چند افسران سیاست میں ملوث ہیں وہ سیاست سے دور رہیں سیاست کو فوج کی مداخلت سے پاک کیا جائے تاکہ ہمارا ملک ترقی کرے"۔
قرارداد کے متن کے ایک ایک لفظ پر سر دھننے کے سوا کیا کیا جاسکتا ہے یہ قرارداد ایک ایسی جماعت کی صوبائی حکومت کے حکومتی ارکان اسمبلی نے ایوان میں پیش کی اور منظور کی جس جماعت کو اقتدار میں لانے کے لئے 2018ء میں اس وقت کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بڑوں نے بے شرمی کے عالمی ریکارڈ بنائے۔
کیسے دوسری جماعتوں کے بندے توڑے گئے اسے چھوڑیئے اس 126 دن کے عظیم دھرنے کے آغاز سے تجزیہ کیجئے یا پھر اکتوبر 2011ء والے جلسے سے، بجا کہ اس جماعت کے ساتھ آج کچھ زیادتی ہورہی ہے لیکن فوجی چھتری کے نیچے پروان چڑھائی گئی جماعت جسے اقتدار دلانے کے لئے دستور پاکستان اور انتخابی قوانین کو بوٹوں سے روندا گیا اسے آج شکوہ ہے کہ پچھلے دو سال سے چند فوجی افسر اپنے حلف کی خلاف ورزی کر رہے ہیں یعنی مئی 2011ء میں تیسری قوت کو عملی شکل دینے کے لئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے جو فیصلہ کیا، اکتوبر 2011ء میں اپنے وسائل اور بندوں (فیملیوں کو جلسہ میں شرکت کے لئے بھیجا گیا) سے جلسہ منعقد کرایا۔
ملک کے اندر امریکہ اور چین سے تعلقات کی لڑائی میں وزن امریکہ کے پلڑے میں ڈالتے ہوئے دھرنا دلوایا، ففتھ جنریشن وار کے مجاہدین کے ذریعے فوج اور اس نئی ٹیسٹ ٹیوب بے بی سیاسی قیادت کے ہر مخالف و ناقد کو منہ بھر کے گالی دلوانے کے علاوہ 2018ء کے انتخابات سے مرضی کے نتائج کشید کرنے
(یاد رہے کہ یہ تحریر نویس 2024ء کے انتخابات کو بھی منصفانہ نہیں کہتا) کے لئے باجوہ رجیم نے جو کچھ کیا وہ آئین پاکستان اور فوجی افسروں کے حلف کے عین مطابق تھا کیا؟
میں بہت احترام کے ساتھ یہ عرض کرنے پر مجبور ہوں کہ اگر اس ملک میں ایک آزاد قومی کمیشن بن سکتا ہوتا تو اس صورت میں جنرل کیانی، جنرل راحیل شریف، جنرل باجوہ، شجاع پاشا، ظہیر اسلام، فیض حمید وغیرہ کہاں کھڑے ہوتے اور کیسے حلف کی خلاف ورزی کی وضاحت کرپاتے۔
صرف یہی نہیں راحیل شریف سے یہ بھی پوچھا جاتا کہ کن سنہری خدمات پر سعودی عرب کی نام نہاد مسلم امہ والی فوج کی سربراہی کی ملازمت ملی اور شجاع پاشا کو دبئی کے امریکی "ہسپتال کی سکیورٹی کی سربراہی"۔
بات دور نکل گئی ہمیں یہ عرض کرنا ہے کہ صرف دو سال کیوں، کیوں نہ اس وقت سے فوجی افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے جب مئی 2011ء میں تیسری قوت کے نام پر اپنی خالص جماعت بنوانے کا فیصلہ ہوا تھا۔ تلخ حقیقت یہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمٹن کی بالادستی اور حاکمتِ کُلی کا شوق پہلے دن سے 4 مارشل لاء اسی شوق کے نتیجے میں لگے۔
اسی شوق کی تکمیل کے لئے 1988ء میں جنرل حمید گل نے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا تھا۔ اسی شوق نے تیسری قوت کے نام پر ذاتی جماعت بنوانے کی طرف رہنمائی کی۔
حیران کن بات یہ ہے کہ 10 ستمبر کو اڈیالہ جیل میں تحریک انصاف کے بانی عمران خان کہہ رہے تھے "میں نے فوج سے مذاکرات کے لئے 6 افراد کو نامزد کیا ہوا تھا لیکن آج میں فوج سمیت تمام قوتوں سے مذاکرات کے دروازے بند کررہا ہوں"۔
یہ فوج سے مذاکرات دستور کی کس شق کے تحت کرنے کا شوق "تھا" خان صاحب کو؟
کیا فوج کی یا چند فوجی افسر کہہ لیجئے، سیاسی عمل میں مداخلت من پسند نتائج حاصل کرنا بھی اتنا ہی سنگن جرم نہیں جتنا فوجی افسروں کو سیاست میں مداخلت کی دعوت دینا اورصرف ان سے مذاکرات کرنے کی ضد کرنا ہے؟
امید ہے کہ نومولود انقلابی اس سوال پر ضرور غور کریں گے۔