Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Swat Mein Street Justice Ka Nanga Naach

Swat Mein Street Justice Ka Nanga Naach

مدین سوات میں گزشتہ روز اپنے خاندان کے ہمراہ (ڈی پی او سوات کے مطابق مقتول فیملی کے ساتھ نہیں بلکہ تنہا سوات آکر ہوٹل میں مقیم ہوا تھا) سیالکوٹ سے سیروتفریح کے لئے گئے ایک شہری پر قرآن مجید جلانے کے مبینہ الزام پھر کسی تاخیر کے بغیر اس الزام کی قریبی مسجد کے لاوڈ سپیکر سے اعلان کی صورت میں تشہیر، مقامی آبادی کا مشتعل ہونا، تھانے کا گھیرائو، تھانے کی عمارت کو آگ لگانے کے بعد مذکورہ شخص کو پہلے فائرنگ کرکے قتل کرنا اور پھر اس کی نعش کو گھسیٹ کر باہر سڑک پر لے جاکر اسے جلادینے کا واقعہ محض افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک ہے

آگے بڑھنے سے قبل یہ عرض کردوں کہ "میں سوشل میڈیا پر 24 گھنٹے دستیاب دانشوروں اور مجاہدین کے اس ایک طبقے کے موقف سے اتفاق نہیں رکھتا کہ مدین واقعہ پشتون پنجابی تعصبات کا شاخسانہ ہے گو اسے یہ رنگ بھی ابتداً مقامی لوگوں میں سے سوشل میڈیا استعمال کرنے والے بوزنوں کے ایک خاص طبقے نے دیا "۔ بلکہ یہ شدت پسندی، بربریت، سٹریٹ جسٹس اور لاقانونیت کا ویسا ہی واقعہ ہے جیسا کچھ عرصہ قبل سیالکوٹ میں پیش آیا تھا اور مشتعل کئے گئے ہجوم کے ہاتھوں ایک سری لنکن شہری مارا گیا تھا۔

لگ بھگ 32 برسوں سے خیبر پختونخوا کے مختلف اخبارات کے ادارتی شعبہ میں خدمات سرانجام دینے کے دوران عشرہ سوا عشرہ پشاور میں مقیم رہا ہوں۔ پشاور کے ہی ایک اخبار کےلئے اب بھی ہفتے میں دو تین دن قلم مزدوری کرتا ہوں۔ عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ مذہبی بنیادوں پر لوگوں کو مشتعل کرلینا سوات میں بھی ویسے ہی آسان ہے جیسے سیالکوٹ یا کسی اور شہر میں۔

اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں قانون کی حاکمیت کبھی تھی نہ ہے (اور مجھے یقین ہے کہ کبھی ہوگی بھی نہیں) ایسے کسی المناک واقعہ کے بعد لیپا پوتی کے لئے جاری کئے جانے والے ان بیانات کا کبھی کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ "اسلام امن کا دین ہے، لوگوں کو قانون ہاتھ میں نہیں لینا چاہیے"۔

سوال یہ ہے کہ لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینے اور سٹریٹ جسٹس کی غلط راہ پر کس نے لگایا؟

سادہ سا جواب یہ ہے کہ تعصبات کا کاروبار کرنے والے بہروپیوں اور خود ریاست نے۔

ریاست نے اگر تعصبات کا کاروبار کرنے والے بہروپیوں کی سختی سے گوشمالی کی ہوتی تو شدت پسندی اور سٹریٹ جسٹس کا جنون گلی گلی نہ دوڑتا پھرتا۔

ایک بار پھر ساعت بھر کے لئے رکئے۔ ماضی قریب میں ایک مسلکی شدت پسند تنظیم کے مرحوم بانی اپنی تقاریر میں یہ ثابت کرتے رہے کہ اسلام کشتوں کے پشتے لگاتے چلے کانے کا حکم دیتا ہے۔ یعنی طاقت کا ہمہ وقتی مظاہرہ ہی عین اسلام ہے۔ افسوس کہ دستیاب اسلامی مکاتب فکرکے علماء نے اس سوچ اور دعوے کی تردید کی بجائے خاموشی اختیار کی کیونکہ بات درست تھی۔

بار دیگر عرض ہے کہ لیپا پوتی والے "رمل شاہ برانڈ" بیانات کوئی حیثیت نہیں رکھتے۔ لوگوں کے ذہنوں میں جو خودپسندی، نفرت، شدت پسندی اورسٹریٹ جسٹس کے سودے بھردیئے گئے ہیں ان کا شافی علاج کئے بغیر اصلاح احوال ممکن نہیں۔

علاج کون کرے گا۔ سادہ سا جواب ہے کہ علاج ریاست کو کرناچاہئے لیکن تلخ حقیقت یہی ہے کہ سیکورٹی اسٹیٹ کا کاروبار چلتا ہی ان حالات میں ہے جب لوگوں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان پر ہوں اور دہنوں سے آگ کے شعلے نکل رہے ہوں۔

مدین سوات کے سانحہ پر بات اور غور کرتے وقت اس سوال کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والے جس سیاح (مقتول) پر ہوٹل والوں نے قرآن مجید جلانے کا مبینہ الزام لگایا وہ شخظ اس مبینہ مذموم کام کے لئے اتنا طویل سفر کرکے سوات ہی کیوں گیا؟

ہوٹل مالک کی گرفتاری اور تفتیش کے بغیر اس راز سے جو مبینہ توہین قرآن کے الزام میں دبایا جارہا ہے پردہ نہیں اٹھ سکتا کہ اصل میں ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے شخص کے ساتھ ہوا کیا تھا کہ اس کی اور ہوٹل مالک یا منیجر سے تلخی کس امر پر ہوئی۔

ایسا لگتا ہے کہ یہ بات اس قدر سنگین تھی جس کی پردہ پوشی کے لئے توہین قرآن کا الزام اچھالا گیا۔ چند لمحوں کی تاخیر سے قریبی مجسد سے اعلان ہوگیا کہ ایک شخص نے قرآن مجید جلادیا (مبینہ طور پر) ہے۔ دستیاب اطلاع کے مطابق یہ اعلان ایک سے زائد مساجد سے ہوا۔ عام شہری انہی اعلانات سے آگاہ اور مشتعل ہوئے۔ اس کے بعد جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔

مشتعل ہجوم سٹریٹ جسٹس کا حق استعمال کرنا چاہتا تھا۔ پولیس نے مذکورہ شخص کو تحویل میں لے کر تھانے منتقل کردیا۔ مشتعل ہجوم اس شخص کی حوالگی کا مطالبہ لئے پولیس سٹیشن پر چڑھ دوڑا۔

فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہجوم نے تھانے کو آگ لگادی۔ اسی دوران ہجوم کا ایک حصہ تھانے میں داخل ہوا اور مبینہ الزام کی زد میں آنے والے شخص کو تھانے کے اندر پہلے گولیاں ماری گئیں پھر اسے گھسیٹ کر باہر لایا گیا اور جلادیا گیا۔ تھانے کے اندر مقتول کو گولیاں کس نے ماریں؟ اس سوال کی زد میں سب سے پہلے وہ ہوٹل مالک یا منیجر آتا ہے جنہوں نے ہوٹل میں قیام پذیر شخص پر توہین قرآن کا مبینہ الزام لگایا یا وہ پوشیدہ کردار جس نے یہ ساری منصوبہ بندی کی۔

یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ گولیاں اس لئے ماری گئی ہوں کہ وہ شخص تنازع کی اصل وجہ بیان نہ کرسکے۔ ہوٹل سے پولیس اسے اپنی تحویل میں لے کر تھانے آئی تھی کیا کسی اہلکار نے اس شخص کا ابتدائی بیان لیا یا اس کا موقف سنا؟ کیا اس واقعہ کی تحقیقات کرنے والے ان پہلوئوں کو مدنظر رکھیں گے؟

اصولی طور پر آزادانہ تحقیقات کے عمل میں یہ پہلو مدنظر رکھے جانے چاہئیں۔ کیا یہاں میں آپ کو کچھ عرصہ پیچھے کے اس وقت میں لے جائوں جب سوات میں صوفی محمد کی تحریک نفاذ شریعت محمدی منظم ہوئی تھی پھر اس کی کوکھ سے صوفی محمد کے داماد ملا فضل اللہ کی طالبانائزیشن کی تباہ کاریاں برآمد ہوئی تھیں؟

رواں صدی کے پہلے عشرے اور اس سے قبل سوات میں مذہبی جنونیت کو بڑھاوا دینے کے لئے سرمایہ کاری کا الزام مری کی ہوٹل انڈسٹری کے مالکان پر لگا تھا۔ الزام لگانے والوں کا موقف تھا کہ چونکہ موسمیاتی تبدیلوں سے مری کا سیاحتی کاروبار متاثر ہواہے جس کی وجہ سے سیاحوں نے سوات کالام وغیرہ کا رخ کرلیا اس کاروباری نقصان کا بدلہ مذہبی جنونیت کو ہوا دینے والوں پر سرمایہ کاری کرکے لیا گیا۔

ہمیں یاد ہے کہ پچھلی صدی کی آخری دہائی اور رواں صدی کے پہلے عشرے میں ابتداً مسجدوں سے سوات آنے والے سیاحوں کے خاندانوں کے مردوخواتین کے لباسوں پر اعتراضات ہوئے کہا گیا تھا کہ اس سے ہماری ثقافت اور اسلامی روایات کا مذاق اڑایا جاتا ہے۔ پھر بات سے بات نکلتی چلی گئی اور ایک مرحلہ پر سوات میں شریعت کے نفاذ کا مطالبہ ہونے لگا۔ صوفی محمد کی نفاذ شریعت تحریک کی کوکھ سے پیدا ہوئی بدامنی سوات کے امن کے ساتھ سیاحتی کاروبار کو بھی کھاگئی۔

میرے خیال میں مدین کے حالیہ افسوسناک واقعہ کی تحقیقات کے عمل میں اس پہلو کو بھی بطور خاص سامنے رکھنے کی ضرورت ہوگی۔

اسی طرح یہ امر بھی مدنظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اس واقعہ سے سوات میں صوفی محمد مرحوم کے ہم خیال طبقات پھر سے منظم تو نہیں ہوسکیں گے؟

مدین کے افسوسناک واقعہ سے پیدا شدہ صورتحال پر محض افسوس یا لیپاپوتی والے بیانات اور جی بہلانے والے دعوئوں سے کام نہیں چلے گا قانون کی حاکمیت قائم کرنے میں تساہل برتا گیا تو حالات مزید خراب ہوں گے۔

البتہ ہمیں یہ بات بہرصورت مدنظر رکھنا ہوگی کہ بلاشبہ مدین کا واقعہ پاکستانی معاشرے پر بدنما داغ ہے۔ یہ داغ ہلکی پھلکی کیا طوفانی بارشوں سے بھی نہیں دھلے گا۔ اس داغ کو دھونے (صاف کرنے) کے لئے تمام طبقہ ہائے زندگی کے لوگوں کو میدان عمل میں نکلنا ہوگا۔

تعصبات، تنگ نظری، فرقہ پرستی اور سٹریٹ جسٹس کے خلاف عصری شعور کا مظاہرہ ہی بھیانک تباہیوں سے محفوظ رکھ سکتا ہے۔

فیصلہ آپ کو کرنا ہے سٹریٹ جسٹس کو رزق فراہم کرنا ہے یا قانون کی حاکمیت کے قیام کے لئے توانائی صرف کرنی ہے۔

پسِ نوشت

سانحہ سوات کے حوالے سے چند مزید معلومات ملی ہیں کالم کے دامن میں گنجائش نہیں اس لئے اگلے کالم پر اٹھا رکھتے ہیں