Saturday, 23 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Tareekh Ke Mazmoon Mein Thora Kamzor Sa Hoon

Tareekh Ke Mazmoon Mein Thora Kamzor Sa Hoon

میں تاریخ کے مضمون میں ہمیشہ سے ہی بہت کمزور ہوں اسلئے "بہت کچھ" تو بھول جاتا ہوں اور کچھ واقعات کو خالصتاً یہود و ہنود کی سازش قرار دے کر پتلی گلی سے نکلنے میں جلدی کرتا ہوں۔

مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے باوجود یہی مضمون (تاریخ) مجھے پسند بھی ہے۔

آٹھویں جماعت کے امتحان میں سندھ پر محمد بن قاسم کے حملے والے سوال کے جواب میں لکھ دیا تھا "حجاج بن یوسف نے خلیفہ کو خط لکھ کر سندھ پر حملہ کرنے کی اجازت طلب کی اور اس کےساتھ اخراجات کے علاوہ ممکنہ مال غنیمت کا حساب بھی پیش کیا"۔

چچ نامہ کا یہ حوالہ لکھ کر اگلی سطر میں لکھ دیا کہ "کسی آزاد مورخ نے سری لنکا سے عرب جاتے مسلمان تاجروں کے جہاز کو لوٹے جانے اور پھر گرفتار ہونے والوں میں سے خواتین کے حجاج بن یوسف کو لکھے گئے خط اور قاصد کی تصدیق نہیں کی"۔

اس طرح کم ازکم یہ طے ہوتا ہے کہ اُس زمانہ میں چونکہ حکومتیں چلانے کے لئے چند ٹیکسوں کے علاوہ جنگ ہی منافع بخش انڈسٹری تھی جس کے ذریعے ملکی خزانے بھرے جاتے تھے اسلئے سندھ کے مالدار اور زرخیز خطے پر عرب مسلمانوں نے لشکر کشی کی۔

ایک وجہ اور بھی اس لشکر کشی کی لکھی (لیکن وہ یہاں لکھنے سے قاصر ہوں)۔

پیپر مکمل کرکے نگران اُستاد محترم کو جمع کروا دیا۔ دو دن بعد اُستاد مکرم محمد رحیم ذوق نے کہا صاحبزادے آپ کو ہیڈماسٹر صاحب بلا رہے ہیں۔

کلاس روم سے نکل کر صدر معلم (ہیڈماسٹر) کے دفتر میں اجازت لے کر داخل ہوا۔

دفتر میں ہیڈماسٹر صاحب کے علاوہ اُردو کے استاد سید عباس نقوی، تاریخ کے استاد جناب مگسی صاحب اور ایک دو دیگر اساتذہ بھی تشریف فرما تھے۔

اساتذہ کرام کو سلام کر چکا تو صدر معلم بولے صاحبزادے۔ سندھ میں مسلمانوں کی آمد اور محمد بن قاسم کی فتوحات کے حوالے سے دو سوالوں کے جواب میں آپ نے جو لکھا وہ درسی کتب میں کہاں لکھا ہے؟

سر جھکا کر ادب سے کھڑے شاگر کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے محمد عباس نقوی صاحب بولے بیٹا!

صدر معلم صاحب کے سوال کا جواب دو۔

عرض کیا! اُستاد محترم فرماتے ہیں کہ امتحانی پرچہ کے سوالات کا جواب لکھتے وقت درسی کتب اور مطالعہ دونوں سے استفادہ کرنا چاہئے۔

صدر معلم بولے، کونسے اُستاد محترم۔

میں نے ادب سے جناب عباس نقوی اور مگسی صاحب کا نام لیا۔

اب مگسی صاحب کے بولنے کی باری تھی۔ فرمانے لگے صاحبزادے! تمہارے جوابات درست ہیں۔ مطالعہ سے استفادے سے ہی ذہن کو وسعت ملتی ہے مگر امتحانی پرچے کے سوالات کا جواب درسی کتب کے اسباق کی روشنی میں لکھا جاتا ہے۔ اس پر میں نے آگے بڑھ کر مگسی صاحب کے گھٹنے چھوکر عرض کیا۔

اُستاد محترم آپ ہی تو اکثر فرماتے ہیں"زندگی کے امتحانی پرچوں کے سوالات کے جوابات جو اپنے شعور کی روشنی میں نہیں لکھتے وہ کامیاب نہیں ہوتے"۔

مگسی صاحب مسکراتے ہوئے صدر معلم کی طرف دیکھنے لگے، صدر معلم اپنی کرسی سے اُٹھے، میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے صاحبزادے تاریخ کا شعوری مطالعہ اور اظہار اچھے طالب علم پر فرض ہے۔ لیکن تعلیمی امتحانات درسی پڑھی گئی درسی کتب سے ہوتے ہیں۔

بھول نہیں پا رہا تو انہوں نے مجھے ایک روپیہ انعام میں دیا تھا۔ گھر پہنچ کر میں نے سارا قصہ اپنی آپا سیدہ فیروزہ خاتون نقوی کو سنایا تو بہت خوش ہوئیں۔

مگسی صاحب نصرت الاسلام ہائی سکول کراچی میں تاریخ اور اسلامیات کے مضامین پڑھاتے تھے۔ بہت نفیس، علم دوست اور شاگردوں کے لئے شفیق ترین اُستاد تھے۔ آپ میں بہت خوبیاں تھیں مگر دو خوبیوں کا جواب نہیں، اولاً یہ کہ پڑھاتے وقت طلباء کو سوال کرنے کی مکمل اجازت دیتے یوں ہم ان سے ایسے ایسے سوال پوچھ لیتے جو آج کسی استاد سے پوچھیں تو فوراً کفر لادینیت کا فتویٰ لگ جائے۔

دوسری خوبی یہ تھی کہ آپ اپنی تنخواہ کا چوتھائی حصہ (ہر ماہ) سکول کے قریب واقع ایک کتب فروش کے پاس باقاعدگی سے جمع کرواتے۔

ان کا حکم تھا کہ کوئی بھی طالب علم حصول تعلیم میں معاون اشیا ان کا نام لےکر اگر مانگے تو طالب علم کا نام پوچھے بغیر وہ اشیا اسے دےکر ان کے کھاتے میں لکھ دی جائیں۔

مجھ سمیت درجنوں طلباءنے اسکول میں تعلیم کے دوران جناب مگسی صاحب کے اس فیض سے ضرورتیں پوری کیں۔

مگسی صاحب ہمیشہ فرمایا کرتے تھے "اچھا انسان وہ ہے جو دوسروں کی عزت نفس کا احترام کرے، مطالعہ عصری شعور کی روشنی میں کرے، اپنے کھانے میں اس ہم جماعت کو شریک کرے جو گھر سے کھانا نہیں لاسکتا، اساتذہ سے خوف کے بغیر سوال کرے، علم کو مقصد زندگی سمجھے"۔

مجھے لگ بھگ سات سال ان کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا، چوتھی جماعت سے دہم تک ہم ان سے پڑھتے رہے۔

ہمیشہ سفید شلوار قمیض پہنتے اور اجرک ان کے گلے میں ہوتی۔

کلاس میں تشریف لاتے تو سب کی خیرخیریت دریافت کرتے۔ جس شاگرد نے کوئی مسئلہ بیان کیا وہ اسے حل کرنے کی بھرپور کوشش فرماتے۔

سیاست کے اس ہنگامہ خیز دنوں میں اُستاد مکرم مگسی صاحب یوں یاد آئے کہ ان دنوں تبدیلی پسند دوست بات بات پر تاریخ یاد کروانا شروع کردیتے رہے۔ میں چونکہ تاریخ کے مضمون میں ازل سے کمزور ہوں اسلئے اکثر بھول جاتا ہوں کہ سچ صرف حکمران بولتے ہیں، تاریخ بھی حکمران بناتے اور بیان کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پچھلے تیس پینتیس برسوں کے دوران تین تین چارچار پارٹیاں بدلنے والے اور درمیان میں پرویز مشرف کا پانی بھرنے والے بھی تاریخ، اصولوں، قوانین اور سیاسی رویوں پر دروس دے رہے ہیں۔

مجھ سا طالب علم سندھیوں سرائیکیوں بلوچوں پشتونوں کشمیریوں اور پنجابیوں سمیت تمام لوگوں کے سیاسی، سماجی اور قانونی حقوق کا حامی ہے۔ ہمیشہ ان سطور میں یہ عرض کیا کہ اس کثیرالقومی ملک کو صرف سیکولر جمہوریت قائم رکھ سکتی ہے، جمہوریت کےلئے دستور کی سربلندی لازم ہے اور اس سے بڑھ کر یہ کہ کوئی ادارہ دستور میں طے شدہ حقوق اور حدود سے تجاوز نہ کرے۔

یہ ملک کسی خاص ادارے یا اشرافیہ کا نہیں نا ہی یہ کسی لشکر کا مفتوحہ ہے گو بٹوارے کے زخم ہرے ہیں لیکن یہ پچیس چھبیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے۔ ایک دوسرے کو غدار، مشرک کافر یا بھارتی افغانی اور ایرانی ایجنٹ قرار دینے کی بجائے ہمیں ایک دوسرے کے حقوق اور حدود کا احترام کرنا چاہئے اور یہ کوشش بھی کہ کسی کی عزت نفس پامال نہ ہونے پائے نیز یہ کہ ہم اور آپ اس حقیقت کو مدِ نظر رکھیں کہ طبقاتی جمہوریت کے کوچے سے جمہوریت کیلئے راستہ نکالا جاسکتا ہے لیکن کسی انہونی کی وجہ سے تاریک شب مسلط ہوئی تو سحر ہونے تک بہت کچھ برباد ہوچکا ہوگا اس لئے مطالعہ کیجے مکالمہ بھی دلیل کی بجائے گالی دینے والے بدزبان کا بائیکاٹ کیجے چاہے وہ آپ کا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔