Monday, 25 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Toheen e Mazhab Ke Soday Aur Chand Qabil e Ghor Nuqat

Toheen e Mazhab Ke Soday Aur Chand Qabil e Ghor Nuqat

سانحہ مدین سوات کے حولے سے سوات کے معروف صحافی فیاض ظفر اور ذرائع ابلاغ کے دوسرے احباب نے پچھلے 36 گھنٹوں کے دوران جو کچھ لکھا وہ بلوائیوں ہی نہیں ہوٹل سکائی ویز کے عملے اور اے سی مدین کے موقف سے یکسر مختلف ہے۔ میں فیاض ظفر کی تحقیقاتی رپورٹ کے کچھ اقتباسات آپ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا ہوں۔ گو کہ ان کی تحریر سوشل میڈیا کی تمام معروف سائٹس پر وائرل ہوچکی ہے لیکن اس کے چند حصے ان سطور میں لکھنا ضروری ہیں۔

سوشل میڈیا پر سانحہ سوات کے حوالے سے چند ویڈیوز بھی وائرل ہیں دو تین تو ان بلوائیوں کی ہیں جن کے بقول انہوں نے ایک گستاخ قرآن (مبینہ) کو انجام تک پہنچاکر اسلام کو زندہ کیا۔ اسلام کو زندہ کرتے رہنے کے لئے ان کے دماغوں کو (بقول ان کے) جو روشنی ممتاز قادری (یہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کا قاتل تھا) اور مولوی خادم حسین نے عطا کی وہ اس پر بھی شکرگزار ہیں۔

ایک ویڈیو مقتول کو محمد سلمان قمر کو ہوٹل سے پولیس کی تحویل میں لے کر تھانے منتقل کرنے والے افسر کی ہے وہ کہہ رہے ہیں"مقتول نے مجھ سے کہا میں مسلمان ہوں۔ میں نے صبح اور ظہر کی نماز ادا کی ہے میں بھلا ایسا کام کیوں کروں گا (قرآن مجید کیوں جلائوں گا) ایک اور ویڈیو جو وائرل ہوئی وہ مقتول کی والدہ کی ہے۔

معمولی سی فہم رکھنے والا شخص بھی اس ویڈیو میں کی گئی باتوں کا پوسٹ مارٹم کرے تو بخیئے ادھیڑ کر رکھ دے گا۔ مقتول کی والدہ کے لہجےمیں موجود کرب چہرے کے تاثرات دونوں ان الفاظ کا ساتھ نہیں دے رہے جو وہ ادا کررہی ہیں۔ ظاہر ہے جنونیت پسند معاشرے میں باقی ماندہ اولاد کے گھر بار و زندگی کے تحفظ کی بھیک اسی طرح مانگی جاتی ہے۔

ہم مزید بھی اس موضوع پر باتیں کرتے ہیں لیکن آیئے پہلے اس نکتے پر بات کرتے ہیں کہ مقتول سلمان کیا واقعی سیروسیاحت کے لئے سیالکوٹ سے سوات گیا تھا یا کسی کی دعوت پر گیا تھا۔ اس کے لئے پولیس کو مقتول کے موبائل فون (وہ اگر دستیاب ہو) کا ریکارڈ محض پچھلے پندرہ دن کا حاصل کرنا ہوگا تاکہ یہ پتہ چل سکے کہ وہ سوات سے تعلق رکھنے والے کسی شخص سے رابطہ میں تھا۔ اگر تھا تو اس رابطے کی بنیاد کیا ہے۔ محض تعلق خاطر جو عموماً دو مختلف علاقوں کے باشندوں کے درمیان استوار ہوتا اور قائم رہتا ہے یا پھر اس رابطے کی بنیاد کوئی مالی لین دین اور مشترکہ کاروبار تھا؟

مقتول محمد سلمان قمر ایک طویل عرصہ بیرون ملک مقیم رہا اور کچھ عرصہ قبل ہی پاکستان واپس آیا تھا۔ بیرون ملک قیام وغیرہ کی اس کی والدہ محترمہ شائستہ پروین نے بھی تصدیق کی۔ ان کی والدہ کے ریکارڈ بیان میں یہ کہیں نہیں ہے کہ اس نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی (طلاق والی بات ڈی پی او سوات نے کی تھی) والدہ تصدیق کرتی ہیں کہ وہ طویل عرصہ ملک سے باہر رہا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر کہا جارہا ہے کہ سلمان کے سوات کے علاقے سے تعلق رکھنے والے کسی شخص سے کاروباری مفادات سانجھے تھے اور وہ اسی شخص کی دعوت پر سوات گیا تھا۔

سلمان کاموبائل فون، ہوٹل میں لگے سی سی ٹی وی کیمرے دونوں اس نکتے پر تحقیق کو آگے بڑھانے میں بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ مثلاً موبائل فون میں وہ جس کمپنی کی سم استعمال کرتا ہوگا اس کمپنی کے ریکارڈ سے پتہ چل جائے گا کہ وہ 10جون سے 20جون کی شام تک کن افراد سے رابطے میں رہا ان میں سے کتنے لوگوں کا سوات سے آبائی یا موجودہ تعلق تھا۔ ہوٹل کے سی سی ٹی وی کیمروں سے اس کی آمدورفت اور ملاقاتیوں بارے کچھ شواہد مل سکتے ہیں۔ ہماری دانست میں اس پہلو کو دوران تحقیقات بطور خاص سامنے رکھنے کی ضرورت ہے۔

ثانیاً سلمان اور اس کی اہلیہ میں طلاق کی جو بات اس کی والدہ نے ویڈیو بیان میں نہیں کی ڈی پی او سوات نے کس الہام کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا۔ کیاان کا سلمان کی اہلیہ سے رابطہ ہوا تھا؟ اس کا جواب حاصل کرنا بھی ضروری ہے۔

اب آیئے پہلے اے سی مدین کے دعوئوں والی ویڈیو پر بات کرلیتے ہیں۔ ان کے بقول کچھ چیزیں پولیس پہلے ہی ہوٹل سے لے گئی کچھ ہم نے ہوٹل کے کمرے کا فلش سسٹم توڑ کر حاصل کیں۔ مگر سوات کے معروف صحافی فیاض ظفر اپنی رپورٹ میں یکسر دوسری بات لکھ رہے ہیں۔ ان کے بقول

"ہوٹل کے مالک نے بتایا کہ سلمان نامی شخص 18 جون کو ہوٹل میں آکر ٹھہرا 20جون کی شام دیگر کمروں میں ٹھہرے مسافروں کے شور پر جب میں سلمان کے کمرے کے باہر پہنچا تو لوگوں کے ہاتھوں میں جلے ہوئے قرآن کے اوراق تھے وہ سلمان کے کمرے کا دروازہ کھٹکھٹارہے تھے مگر وہ دروازہ نہیں کھول رہا تھا۔ بعد میں اس نے جب دروازہ کھولا تو پولیس آچکی تھی وہ اسے لے کر تھانے چلی گئی۔ "

اس بات سے ڈی پی او کی یہ بات غلط ثابت ہوگئی کہ پولیس نے سلمان کو اس وقت ہوٹل کے باہر سے اپنی تحویل میں لیا جب مشتعل افراد اسے تشدد کا نشانہ بنارہے تھے۔

اب پہلا سوال یہ ہے کہ بند کمروں میں مقیم دوسرے مسافروں کو کیسے پتہ چلا کہ سلمان اپنے کمرے میں قرآن مجید جلارہا ہے۔ وہ اپنے کمرے کا دروازہ نہیں کھول رہا تھا تو کمرے کے باہر موجود لوگوں کے ہاتھوں میں قرآن مجید کے جلے ہوئے اوراق کہاں سے آئے یہاں ایک بار پھر سلمان اور کسی مقامی شخص کے کاروباری مفادات والے پہلو کو سامنے رکھ کر غور کیجئے کہ جو لوگ (کمروں میں مقیم مسافر) ہاتھوں میں قرآن کے جلے ہوئے اوراق لے کر اس کے کمرے کے باہر شور مچارہے تھے یہ واقعی مسافر تھے؟ کہیں ان لوگوں کا تعلق اس مقامی شخص سے تو نہیں تھا جس کے ساتھ سلمان کے کاروباری مفادات تھے؟

فیاض ظفر کے مطابق ایس ایچ او مدین اسلام الحق کے بقول میں نے سلمان سے پوچھا تم قادیانی ہو تو اس نے کہا نہیں میں الحمدللہ مسلمان ہوں۔ میرے دوسرے سوال پر اس نے کہا الحمدللہ میں مسلمان ہوں میں کیوں قرآن مجید شہید کروں گا۔

فیاض ظفر کی رپورٹ کا یہ نکتہ بھی انتہائی اہم ہے کہ مشتعل ہجوم نے تھانے کے اندر کھڑی 9 گاڑیوں اور 10 موٹرسائیکلوں کو آگ لگادی۔ جلائی گئی گاڑیوں میں سے ایک گاڑی میں قرآن مجید موجود تھا جو شہید ہوگیا۔

فیاض ظفر نے اپنی رپورٹ میں 4 جولائی 2022ء کی اس ایف آئی آر کا حوالہ بھی دیا ہے جو سلمان کی والدہ نے سیالکوٹ کے تھانہ سول لائنز میں درج کرائی تھی کہ "سلمان ملائیشیا سے واپس آیا ہے وہ مجھے گالیاں دیتا اور قتل کی دھمکیاں دیتا ہے"۔ فیاض ظفر نے اپنی رپورٹ میں ایک مخصوص مذہبی گروہ (غالباً ممتاز قادری اور مولوی خادم حسین کے لئے شکر گزاری کے اعترافی بیان دینے والے بلوائیوں کی طرف اشارہ ہے) کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کی بات کی ہے۔

اب اگر اس نکتہ کو سامنے رکھیں تو ایک بار پھراس امر کی تحقیق پر زور دینا ہوگاکہ د یکھا جائے کہ سلمان سے کاروباری ساجھے داری (سرمایہ کاری کی بنیاد پر) رکھنے والا شخص مقامی تھا یا اس کا تعلق سیالکوٹ سے ہے اور اس نے مقامی طور پر اپنے ہم خیال لوگوں کو اس سارے معاملے میں استعمال کیا۔

یہ جاننا اس لئے بھی ضروری ہے کہ مقتول سلمان قمر لگ بھگ اٹھائیں تیس برس ملائیشیا میں رہا ہے اور اپریل 2022ء میں اس کی وطن واپسی ہوئی۔ باردیگر عرض ہے اے سی مدین کی دعویداری پر مبنی ویڈیو کی تائید اس لئے نہیں کی جاسکتی کہ پولیس نے سلمان کو جس وقت اس کے کمرے سے اپنی تحویل میں لیا اس وقت اس کے کمرے سے کوئی جلی ہوئی چیز حاصل نہیں کی گئی۔

فیاض ظفر کی رپورٹ کے مطابق جلے ہوئے اوراق ان لوگوں کے ہاتھوں میں تھے جو بند کمرے کے باہر شور مچارہے تھے۔ کیا یہ وہی چند افراد ہیں جن میں سے ایک ویڈیو میں خود کو ممتاز قادری کے جانشین کے طور پر پیش کرکے جذباتی بیان دے رہا ہے؟ ہوٹل میں اگر سی سی ٹی وی کیمرے ہیں تو وضاحت چند لمحوں میں ہوسکتی ہے۔ آخری بات، اس واقعہ کی ابتدائی تفتیش کرنے والی ٹیم نے جب ہوٹل سکائی ویز کے مالک سے سلمان کے قرآن مجید جلانے کے ثبوت مانگے تو اس کے پاس کسی طرح کا کوئی ثبوت نہیں تھا ماسوائے اس کے کہ "لوگ یہ کہہ رہے تھے" یہ لوگ کون تھے، اس پہلو پر تحقیقات حقیقت حال کو عیاں کرنے میں بنیادی معاون ثابت ہوگی۔