اس میں کوئی شک نہیں کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے انتخابی نعروں اور وعدوں کے بعد ان گنت یوٹر ن لیے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انہوں نے ملک میں چینی بحران کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کےلئے پہلے ایک تحقیقاتی کمیشن بنایا پھر اس کمیشن کی تیار کردہ انکوائری کی فرانزک رپورٹ بھی کروا ڈالی۔ لیکن اس سے بڑھ کر وزیراعظم عمران خان کا یہ فیصلہ ہے کہ شوگر سکینڈل کے ذمہ داروں کے خلاف فوجداری مقدمات بنائے جائیں گے اور انہوں نے اپنے اس فیصلے کی توثیق وفاقی کابینہ سے بھی کروائی ہے۔ وزیراعظم کی صدارت میں پوری کابینہ نے شوگر مافیا کو ٹھکانے لگانے اور سزا دلوانے پر آمادگی ظاہر کی جو ایک بڑی کامیابی ہے جس پر پاکستان تحریک انصاف پر تنقید کرنے والوں کی زبان بندی بھی ہو چکی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے قریبی ساتھیوں جہانگیر ترین، خسرو بختیار، عبدالرزاق داؤد، اسد عمر کے خلاف بھی قانونی کارروائی کے قوی امکانات ہیں جبکہ پنجاب اور مرکز میں پی ٹی آئی کی اہم اتحادی جماعت ق لیگ کے چوہدری مونس الٰہی کا نام بھی شوگر سکینڈل میں آیا ہے جو حکومت کےلئے ایک قابل تشویش چیز ہے لیکن اس کا بھی حل اپوزیشن جماعتوں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا کر نکالا جا سکتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان جب سے اقتدار میں آئے ہیں انہوں نے اپوزیشن کی طرف جھکاؤ یا اپنے رویہ میں لچک کا مظاہرہ نہیں کیا لیکن اگر انہیں اپنی اتحادی جماعتوں کی بلیک میلنگ سے نجات حاصل کرنا ہے اور اپنے اقتدار کو طول دینا ہے تو اپوزیشن سے دوستی بھی کرنا پڑے گی بصورت دیگر ملک میں ایک بار پھر پانامہ لیکس سے ملتی جلتی صورت حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ چینی سکینڈل کے ایک اہم کردار اور تحریک انصاف کے مرکزی رہنما جہانگیر خان ترین گزشتہ دنوں اچانک لندن چلے گئے ہیں اور لندن روانگی سے قبل انہوں نے جڑواں شہروں میں اہم ملاقاتیں بھی کی ہیں اور ساتھ ہی واضح بھی کردیا ہے کہ وہ وطن واپس جلد آئیں گے۔ اطلاعات ہیں کہ جہانگیر ترین رات گئے لاہور سے اسلام آباد پہنچے اور لندن روانگی سے قبل انہوں نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں بعض اہم ملاقاتیں بھی کی ہیں اور یقین دلایا کہ وہ معمول کے چیک اپ کےلئے لندن جارہے ہیں جس کا ٹائم انہوں نے ڈاکٹروں سے پہلے ہی لیا ہوا ہے اور وہ چیک اپ کے بعد واپس آجائیں گے۔ مزید بتایا گیا ہے کہ حکومت کے بعض حلقے ان کے بیرون ملک جانے کے حق میں نہیں تھے مگر ترین چونکہ ٹکٹ بھی بک کروا چکے تھے اس لیے ان ملاقاتوں کے بعد جانے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ چینی سکینڈل کی فرانزک آڈٹ رپورٹ سامنے آنے کے بعد ذمے داروں کے خلاف ابھی نیب یا ایف آئی اے نے کوئی کاروائی شروع نہیں کی اور اس حوالے سے وہ حکومتی احکامات کے منتظر ہیں۔
دوسری طرف وزیراعظم عمران خان سے گزشتہ دنوں ہونے والی اہم ملاقاتوں میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی، سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر اور وزیر دفاع پرویز خٹک نے انہیں قائل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ جہانگیر ترین کے خلاف مزید کارروائی سے گریز کریں۔ وزیراعظم عمران خان کی زیرصدارت وفاقی کابینہ کا خصوصی اجلاس ہوا جس میں چینی بحران پر تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ پیش کی گئی، اجلاس میں کابینہ نے شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ پبلک کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے رپورٹ میں ذمہ قرار دیے جانے والوں کے خلاف کیسز نیب اور ایف آئی اے کو بھجوانے کا فیصلہ کیا، اس کے علاوہ کابینہ نے مفادات کے ٹکراؤ کا قانون جلد نافذ کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔ کابینہ نے ٹیکس چوری میں ملوث شوگر ملز کے خلاف فوجداری مقدمات قائم کرنے کا فیصلہ کیا اور آٹا بحران رپورٹ پر بھی مزید تحقیقات کا فیصلہ کیا گیا۔ کابینہ ارکان نے کہا کہ حکومت میں شامل شخصیات کے کاروبار سے مفادات کا ٹکراؤ آتا ہے جس پر وزیر فوڈ سیکیورٹی سید فخر امام نے مفادات کے ٹکراؤ کا قانون نافذ کرنے کی تجویز دی، فخر امام کی تجویز پر کابینہ کا مفادات کے ٹکرا ؤکا قانون فوری نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ میں شامل مشیران اور معاونین خصوصی کو اثاثے ظاہر کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ تمام مشیران اور معاونین خصوصی اپنے اثاثے فوری طور پر کابینہ ڈویژن میں ڈیکلیئر کریں۔ کمیشن کی رپورٹ میں ایس ای سی پی سمیت دیگر ریگولیٹرز کو بھی ذمہ دار قرار دیا گیا ہے، تحقیقاتی کمیشن نے 9 شوگر ملز کا آڈٹ کیا جبکہ مسابقتی کمیشن چینی کی قیمتیں ریگولیٹ کرنے میں ناکام رہا، شوگر ملز نے کسانوں کے ساتھ زیادتی کی اور نقصان پہنچایا، شوگر ملز نے کسانوں سے سپورٹ پرائس سے کم دام پر گنا خریدا، ملز نے کسانوں سے کچی پرچیوں پر گنا خریدا۔
اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ میاں نوازشریف کو اقتدار سے محروم کرنے کےلئے پانامہ پیپرز کو جواز بنایا گیا لیکن سب سے زیادہ حیران کن بات یہ تھی کہ انہیں اقامہ اور بیٹے سے تنخواہ لینے کے الزامات کے تحت نا اہل کر دیا گیا۔ اسی طرح خدشہ ہے کہ چینی سکینڈل منظر عام پر لانے کا مقصد وزیراعظم عمران خان کو بھی نوازشریف کی طرح نشانہ بنانا اور ایک مقبول اور منتخب وزیراعظم کو پھر سے اقتدار سے محروم کرنا ہے۔ اس حقیقت کا ادراک بھی سب کو ہو چکا ہے کہ عمران خان نے احتساب کا عمل شروع کروانے سے لیکر سمارٹ لاک ڈاؤن نافذ کرنے تک تمام فیصلے اپنی خواہشات اور پالیسیوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے کیے۔ انہوں نے اپنی وزارت عظمی میں وہ تمام پالیسیاں اپنائے رکھیں جو سابق حکمرانوں اور سیاسی جماعتوں کا فخر تھیں لیکن اس کے علاوہ وہ ایک محبوب اور مقبول ترین عوامی شخصیت ہیں۔ عمران خان کو اقتدار سے علیحدہ کرنا ملک کے باثر اور مقتدر حلقوں کےلئے بھی ایک نیا بحران پیدا کرسکتا ہے۔ داخلی اعتبار سے ملک کو بہت سے سنگین اور ہولناک مسائل کا سامنا ہے جن میں بدترین معاشی بحران، بےروزگاری اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی اولین عوامی مسائل ہیں رہی سہی کسر کورونا وائرس نے پوری کر دی ہے۔ جب سے کورونا وائرس نے دنیا پر ہلاکت خیز وار کرنا شروع کیے ہیں پاکستان سمیت تمام پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک کے استحکام کو کاری ضرب لگی ہے۔ کورونا وائرس نے امریکہ سمیت مغربی دنیا کے ان گنت خوشحال اور معاشی طور پر مضبوط ممالک کو شدید متاثر کیا۔ کاروباری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں حتی کہ تیل کی کھپت تاریخ کی کم ترین سطح پر آگئی ہے لیکن پاکستان میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے ثمرات عوام تک پہنچنے نہیں دیئے جا رہے۔ وزیراعظم عمران خان کا اصل امتحان بجٹ 2020-2021ءکے بعد شروع ہوگا کیونکہ ان کی معاشی ٹیم عالمی مالیاتی اداروں کے تعاون سے بجٹ پیش کرنے جا رہی ہے جس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اس ملک کے عوام پر مہنگائی کے پہاڑ توڑے جائیں گے اور یہاں پر ہونے والی برائے نام سرمایہ کاری بھی ختم ہو کر رہ جائے گی۔ اگر ایسا کچھ ہوا تو یقینی طور پر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے بنگلہ دیش، ساؤتھ افریقہ یا پھر ایتھوپیا چلے جائیں گے اور وہاں پر نئی انڈسٹری لگانے پر حکومت کی جانب سے بہت سی مراعات بھی دی جاتی ہیں جبکہ لیبر پاکستان سے بھی سستی دستیاب ہے۔ اسی لئے وزیراعظم عمران خان کو چینی سکینڈل میں ملوث کرداروں کو سزا دلوانے کے معاملات آگے بڑھانے کے ساتھ ساتھ عوامی بہبود کے منصوبوں پر بھی تیزی سے عمل کرنا پڑے گا ورنہ چینی سکینڈل کا اصل ٹارگٹ وہ خود ہیں۔