پرنٹ، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ٹرانسپیرنسی رپورٹ کا چرچہ ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ رپورٹ جاری کرنے والے ٹرانسپیرنسی کے ادارے کو مقبول بنانے میں سب سے زیادہ ہاتھ وزیر اعظم عمران خان کا ہے کہ وہ جب اپوزیشن میں تھے تو اس ادارے کی رپورٹوں کو اپنے جلسوں میں لہرا لہرا کر دکھاتے تھے اور کہتے تھے کہ ٹرانسپیرنسی رپورٹوں میں (ن) لیگ کو کرپٹ قرار دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم یہ بھی کہتے تھے کہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ ملک سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔ عمران خان برسراقتدار آئے تو اسی ادارے کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومتوں سے دو ہاتھ آگے ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے کرپشن سے متعلق سی پی آئی انڈیکس رپورٹ 2020ء جاری کی ہے۔ جس کے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں کرپشن میں اضافہ ہوا ہے۔ اپوزیشن خصوصاً (ن) لیگ اس رپورٹ کو بہت زیادہ اچھال رہی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ نیک پاک ہے۔ پاکستان میں جو جتنا طاقتور ہے اتنا بڑا کرپٹ ہے۔ ہر طرف لوٹ مار مچی ہوئی ہے۔ جو بھی آتا ہے ترقی کی بات کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں اگر کدی شعبے میں ترقی ہوئی ہے تو وہ کرپشن ہے، بلا شبہ کرپشن نے دگنی تگنی ترقی کی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے دعوے کے ساتھ کہا ہے کہ قبضہ گروپوں کے محل گرا دیئے گئے ہیں۔ زمینوں پر قبضہ کرنے والے ڈاکوئوں پر ہاتھ ڈالنا ہی تبدیلی ہے۔ وزیر اعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ زمینوں پر قبضہ کرنے والوں پر لعنت بھیجتا ہوں۔ وزیر اعظم کے خیالات سے کسی کو انکار نہیں مگر وزیر اعظم صرف کھوکھر پیلس کے گرائے جانے کو تبدیلی کا نام نہ دیں۔ بلکہ ان کو فرصت ملے تو میرے وسیب کے چولستان اور تھل کو آکر دیکھیں جہاں چند کنال نہیں بلکہ لاکھوں ایکڑ رقبہ پر ناجائز قبضے ہو چکے ہیں اور آبادکاری کے نام پر جعلسازی کا ایک ایسا طوفان آیا ہوا ہے جو کہ تھمنے کا نام بھی نہیں لے رہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعلیٰ عثمان خان بزدار کو کھوکھر پیلس کے انہدام پر مبارکباد دی ہے مگر وہ حقیقی مبارکباد کے حق دار تب ہوں گے جب وسیب میں آپریشن کرکے وسیب کی قبضہ کی گئی زمینیں واگزار کرائیں گے اور بنی گالہ کے معاملات پر قوم کو اعتماد میں لے کر اپوزیشن کا منہ بند کریں گے۔
وزیر اعظم عمران خان نے ساہیوال میں کہا کہ سینٹ الیکشن میں خریدوفروخت شروع ہو چکی ہے۔ جانتا ہوں کون خریدوفروخت کر رہے ہیں؟ وزیر اعظم کا یہ بیان حکومت کی کمزوری کو ظاہر کرتا ہے کہ سینٹ کے الیکشن کیلئے ووٹوں کی خریدوفروخت بدترین کرپشن ہے اور کرپشن پر قابو پانے کی ذمہ دار حکومت ہے۔ ووٹوں کی خریدوفروخت کرپشن کا ایک پہلو ہے لیکن یہ بھی ایک طرح کی کرپشن ہی ہے کہ جماعتوں کے سربراہ میرٹ کو نظر انداز کرتے ہوئے اپنے منظور نظر لوگوں کو ٹکٹیں دیں۔ تحریک انصاف نے وسیب سے کامیابی حاصل کی مگر گزشتہ الیکشن کے موقع پر سینٹ ٹکٹیں لاہور والوں کو دے دیں۔ یہی کام (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی والے کرتے رہے۔ وسیب سے اس غیر منصفانہ سلوک کا ازالہ ہونا چاہئے اور حقیقی انصاف یہ ہے کہ سینٹ کی طرف سے پاس کئے گئے سرائیکی صوبے کے بل کو عملی جامہ پہنایا جائے تاکہ وسیب کو سینٹ میں صوبائی نمائندگی حاصل ہو سکے۔
ٹرانسپیرنسی رپورٹ پر بات کرنے کے ساتھ یہ بھی کہوں گا کہ لوگ اخبار پڑھنا چھوڑ گئے اور ٹی وی چینلز کے ساتھ سوشل میڈیا پر جو ادھم مچا ہوا ہے لگتا ہے کہ لوگ یہ بھی دیکھنا چھوڑ دیں گے۔ سوشل میڈیا پر ایک مولوی کی ویڈیو وائرل ہوئی ہے جو چھ سات سال عمر کے بچوں پر بد ترین تشدد کر رہا ہے۔ معصوم بچے بد ترین تشدد پر جونہی چیختے ہیں، وحشی مولوی اور زیادہ مشتعل ہو کر زیادہ شدت کے ساتھ بچوں کو مارنا شروع کر دیتا ہے اور ان کو رونے بھی نہیں دیتا، بچوں کی ہچکیاں بندھ جاتی ہیں جو نہ سنی جاتی ہیں اور نہ دیکھی جاتی ہیں، کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس غیر انسانی منظر کو لاکھوں افراد نے دیکھا جس میں قانون نافذ کرنے والے ادارے، قانون دان، علماء کرام، مشائخ عظام، انسانی حقوق کی تنظیمیں، عدلیہ، فوج سب شامل ہیں مگر سب خاموش!!!۔ سرکاری تعلیمی اداروں کے باہر لکھا ہوتا ہے مار نہیں پیار مگر جہاں قرآن پڑھایا جا رہا ہے ان کو کون بتائے گا کہ مار نہیں پیار۔ غیر انسانی رویہ کا ایک واقعہ ملتان میں وقوع پذیر ہوا کہ کروڑ پتی ڈاکٹر اظہر نے اکلوتی بیٹی کو قتل کرکے خود کشی کر لی اور دو دن بعد ان کے بھائی ڈاکٹر سلیم کی اپنے گھر میں آگ سے جلی ہوئی لاش ملی۔ یہ لوگ ارب پتی تھے مگر یہ دولت کس کام آئی؟
ٹرانسپیرنسی رپورٹ کی طرف آئیں تو ایک بات یہ ہے کہ کچھ وزیروں نے کہا کہ ٹرانسپیرنسی رپورٹ پرانی ہے مگر ادارے کی طرف سے اس کی تردید کی گئی اور کہا گیا کہ یہ نئی رپورٹ ہے اور اس کا تعلق 2018ء سے 2020ء تک ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 180 ممالک کی عالمی فہرست میں پاکستان کی تنزلی 4 درجے رپورٹ کی گئی ہے۔ پاکستان 31 پوائنٹس کے ساتھ کرپشن کے بارے میں عالمی رینکنگ میں 124 ویں نمبر پر آگیا۔ یہ رپورٹ احتساب کے اداروں کیلئے سوالیہ نشان ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسا پوسٹ مارٹم ہے جو کہ ریاست مدینہ کے صادق اور امین لوگوں کو خود احتسابی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹیں عالمی اقتصادی نظام کی شفافیت کو یقینی بنانے کیلئے مفید ہیں۔ یہ اس اعتبار سے بھی کسی ملک کے معاشی، انتظامی اور کلی اقتصادی ڈھانچہ کے میرٹ پر تشکیل دیئے گئے سسٹم پر ایک موثر چیک اینڈ بیلنس کی نشاندہی کرتی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ٹرانسپیرنسی کے اداروں کو مقبول بنانے میں عمران خان کا بہت ہاتھ ہے لیکن یہ بھی ہے کہ آج کی اپوزیشن کل ٹرانسپیرنسی رپورٹ کو جھوٹا کہتی تھی آج اسے حقیقت کے معنوں میں پیش کر رہی ہے۔ کوئی مانے نہ مانے ٹرانسپیرنسی کی تفصیلات اس طرح ہیں کہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن گزشتہ برس کے مقابلے میں بڑھی ہے، 2019ء میں پاکستان درجہ بندی میں 120 ویں نمبر پر تھا۔ 2018ء میں موجودہ حکومت نے جب اقتدار سنبھالا اس وقت پاکستان کا کرپشن انڈیکس میں 117واں نمبر تھا۔ یوں موجودہ دور حکومت میں پاکستان کی 7 درجے تنزلی ہوئی ہے۔ بلا شبہ کرپشن معاشرے کا بہت بڑا ناسور ہے اور ظلم بھی۔ حضرت علیؓ کا قول ہے کہ کفر کی حکومت رہ سکتی ہے ظلم کی نہیں۔ عمران خان کی حکومت کرپشن کے خاتمے کے دعوے پر برسراقتدار آئی اسے زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر اپنے دعوے کی تصدیق کرنی چاہئے۔