لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی کی تازہ کتاب آنر امنگ دی اسپائز، (جاسوسوں میں عزت و وقار) سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پاکستانی ریاست اسامہ بن لادن کوامریکی حملہ میں ہلاک کرنے کے واقعہ میں شریک تھی۔ اسد درانی نے بھارتی میگزین دی ویک، میں اپنی کتاب کے بارے میں دیے گئے انٹرویومیں کہا ہے کہ انکی اس کتاب میں یہی بات سب سے زیادہ سچ کے قریب ہے۔ انکا کہنا ہے کہ انکے ایک ساتھی کو سرکاری طور پر اس معاملہ میں رسائی حاصل تھی لیکن وہ ہر بات جو اُس نے دیکھی بتانے کو تیار نہیں لیکن انکے دوست کا کہنا تھا کہ پاکستان نے معاونت پر نااہلی، کو ترجیح دی۔ مطلب، کہ اصل میں پاکستانی ریاست نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے میں امریکہ کی مدد کی تھی لیکن اس نے ظاہر یہ کیا کہ اسے اسامہ کی پناہ گاہ کا اپنی نااہلی کی وجہ سے پتہ نہیں چلا۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر)اسد درانی کہتے ہیں کہ مئی دو ہزار گیارہ میں یہ جانے بغیر کہ کیا ہوا میرا اپنا تجزیہ یہ تھا کہ یہ سب کام ہماری مدد کے بغیر نہیں ہوسکتا تھا۔ میں سمجھ سکتا تھا کہ ہم نے معاونت سے انکار کیوں کیا۔ مقصد سیاسی ردّعمل سے بچنا تھا۔ ، تاہم میں یہ دعویٰ نہیں کر رہا کہ مجھے معلوم ہے کہ اصل میں کیا ہوا۔ اسد درانی کا یہ موقف اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کے لیے پریشان کُن ہوگا۔
اسد درانی ملک کی دو بڑی انٹیلی جنس ایجنسیوں ملٹری انٹیلی جنس اور انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے سربراہ رہے۔ انٹیلی جنس ایجنسیوں کے سربراہ کے طور پرانکو ریاست کے وہ راز معلوم ہیں جو قومی سلامتی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ جرمنی اور سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر بھی رہے۔ روایتی طریقہ تو یہ ہے کہ ریاست ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں جو خفیہ کارروائیاں کرتی ہے و ہ ایجنسیوں میں کام کرنے والوں کے سینوں میں راز کے طور پر محفوظ رہتی ہیں۔ اکثر ایسے سرکاری افسران خواہ فوجی ہوں یا سویلین یہ راز اپنے ساتھ قبر میں لے جاتے ہیں۔ لیکن بعض لوگوں کو دانشوری کا شوق ہوتا ہے۔ وہ نمایاں ہونا چاہتے ہیں یا اصل حقائق کو ہر صورت میں قوم کے سامنے لانا چاہتے ہیں، تاریخ کا حصہ بنانا چاہتے ہیں۔ ریاستی اداروں میں کام کرتے ہوئے انہیں جن معلومات تک رسائی ہوتی ہے انہیں منظر عام پر لاتے ہیں۔ اسد درانی بھی ایک ایسی شخصیت ہیں۔ وقفہ وقفہ سے پاکستان کی سیاست، خارجہ پالیسی اور بھارت سے پاکستان کے تعلقات کے بارے میں اپنی یادداشتیں، مشاہدات اور تبصرے قلمبند کرتے رہتے ہیں۔ اسد درانی کوئی راز اپنے پیٹ میں نہیں رکھ سکتے۔ انہوں نے سپریم کورٹ میں بیان حلفی جمع کرایا تھا کہ انیس سو نوّے کے الیکشن کے موقع پر آئی ایس آئی چیف ہونے کی حیثیت سے اسوقت آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کی ہدایت پر انہوں نے بینکر یونس حبیب سے کروڑوں روپے لیکر سیاستدانوں میں تقسیم کیے تھے تاکہ پیپلز پارٹی کو شکست دی جاسکے۔ انکے اس اعترافی بیان سے ان افواہوں کی تصدیق ہوگئی تھی کہ ریاستی اداروں کا ملکی سیاست میں بہت عمل دخل ہے اور وہ الیکشن کے عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
کچھ عرصہ پہلے اسد درانی نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی را کے سابق سربراہ ایس کے دُلت کے ساتھ ملکر ایک کتاب لکھی تھی۔ اسکا نام تھا۔ دی اسپائی کرانیکلز، را، آئی ایس آئی اور امن کا سراب،۔ اس میں پاکستان بھارت تعلقات اورمقبوضہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی اورکارروائیوں کی ایسی تفصیلات شامل تھیں جو متنازعہ قرارپائیں۔ اس پاداش میں پاک فوج نے انکے خلاف کارروائی کی اور انکی پنشن بند کردی۔ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا گیا۔ تاہم انہوں نے ایک اور کتاب لکھ ڈالی۔ پاکستان اَڈرفٹ، (بھٹکتا ہوا پاکستان)۔ اب انکی تیسری کتاب شائع ہوئی ہے۔ آنر امنگ دی اسپائز، (جاسوسوں میں عزت و وقار)۔ ماضی کی کتابوں کی طرح یہ بھی ایک متنازع کتاب قرار دی جاسکتی ہے جس میں بہت سے انکشافات ہیں۔ گو اس کتاب میں بہت سی معلومات ایسی ہیں جو مختلف ذرائع سے پہلے بھی میڈیا میں غیر مصدقہ طورپر شائع ہوچکی ہیں لیکن اسد درانی کے حوالہ سے یہ باتیں اسلیے اہم ہیں کہ وہ انتہائی اہم عہدوں پر فائز رہے اور کئی واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ ان کے بیانیہ کو ایک تاریخی حوالہ کے طور پر استعمال کیا جاسکتا ہے۔ نئی کتاب انہوں نے ایک افسانوی انداز میں تحریر کی ہے۔ شاید اس لیے کہ ماضی کی طرح ان پر گرفت نہ کی جاسکے۔ کتاب میں انہوں نے اُسامہ بارکزئی کا فرضی نام اختیار کرکے تاریخی واقعات بیان کیے ہیں۔ آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ کو جبار جٹ کے نام سے اور عمران خان کو خورشید قادری کا نام دیا گیا ہے۔ بھارتی میگزین دی ویک کے انٹرویومیں انہوں نے اعتراف کیا کہ ان فرضی ناموں کے پیچھے اصل نام یہی ہیں۔ لیکن وہ چاہتے تھے کہ کتاب کا قاری خود سے اس نتیجہ پر پہنچے۔ جب ان سے سوال کیا گیا کہ پاکستان میں ایسی کتاب لکھنا بڑی بات ہے تو انہوں نے جواب میں کہا کہ اگر یہ بڑا کام ہے پھر تواسے کیا جانا چاہیے۔ کسی کو تو بلی کے گلے میں گھنٹی باندھنی ہوگی۔ ، ملکی سیاست کے بارے میں انکی رائے ہے کہ پاکستان گزشتہ چند برسوں سے ایک خاص سمت میں جارہا ہے لیکن اس راستہ پر چلنا زیادہ دیر تک ممکن نہیں۔ انکے خیال میں اس غلط سمت کوبدلنے کے لیے بڑی تبدیلی لانی ہوگی۔ انکا کہنا ہے کہ ملک میں ایک دوہرا نظام چل رہا ہے جس میں چلانے والوں کو پتہ نہیں کہ کسی کام کی ذمہ داری کیسے لینی ہے۔
اپنی کتاب میں اسد درانی نے ایک دلچسپ بات یہ لکھی ہے کہ جب دو ملکوں میں حالات اتنے خراب ہوجائیں کہ جنگ کی نوبت آجائے تو جنگ کو ٹالنے کے لیے سرجیکل اسٹرائیک کرکے بحرا ن ٹالنا زیادہ اچھا طریقہ ہے۔ انکے خیال میں انڈیا نے پلواما واقعہ کے بعدبالاکوٹ پر جو فضائی حملہ کیا وہ اسی پالیسی کے تحت تھا۔ اسی طرح امریکہ نے ایران سے جنگ کرنے کی بجائے ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کو ڈرون حملہ میں قتل کیا تاکہ امریکہ کی عزت بھی رہ جائے اور جنگ بھی ٹل جائے۔ اسی طرح ماضی میں پانچ برس پہلے شام کے ایک جنگی اڈہ پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملہ کے بارے میں شام کے اتحادی روس کو پہلے سے بتا دیا گیا تھا۔ اسد درانی کی کتاب میں کئی انکشافات اور دلچسپ باتیں ہیں۔ کتاب یقیناً متنازعہ ہوگی لیکن پاکستان کی سیاست، قومی سلامتی کے اداروں کے کرداراورپاک بھارت تعلقات کو سمجھنے کیلیے ایک اہم دستاویز ہے۔