Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bharat Se Taluqat Ki Bahali

Bharat Se Taluqat Ki Bahali

امریکہ کے دو قریب ترین اتحادی ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات خفیہ سفارت کاری کے ذریعے پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کروانے اور انکے تعلقات بہترکرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ ظاہر ہے ان ممالک کا یہ عمل امریکہ کی آشیرباد کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ اِس سفارتی کوشش کا عملی نتیجہ ہم نے گزشتہ ماہ دیکھا جب دونوں ملکوں نے کشمیر میں لائن ٓف کنٹرول پر اچانک سیز فائر کا اعلان کردیا۔ خفیہ سفارت کاری کی خبروں کو اس بات سے بھی تقویت ملی کہ گزشتہ ہفتہ پاکستان کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ نے پاک بھارت تعلقات پر ایک طویل پالیسی بیان دیا جس میں ماضی کو دفن کرکے آگے بڑھنے کی بات کی۔ انکا یہ کہنا تھا کہ پاکستان، بھارت سے مذاکرات کے لیے تیار ہے لیکن اسکے لیے بھارت کو ماحول بہتر بنانا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر کا خصوصی آئینی درجہ بحال کرنا ہوگا۔ پاکستان کے آرمی چیف کا بھارت سے متعلق حالیہ بیان بہت اہمیت کا حامل ہے۔ اس بیان سے یہ واضح پیغام گیا کہ اگر دونوں ملکوں کے درمیان امن عمل شروع ہوا تو اسے پاک فوج کی بھرپور حمایت حاصل ہوگی۔

اگلے روز سعودی عرب کے پاکستان میں سفیر نے بھی بیان دیا کہ انکا ملک پاکستان اور بھارت میں کشیدگی کم کروانے کے لئے کوشش کررہا ہے۔ بین الاقوامی میڈیا تنظیم بلوم برگ میں چند روز پہلے قدرے تفصیلی رپوٹ شائع ہوئی ہے جس میں اعلیٰ سفارتی ذرائع کے حوالہ سے انکشاف کیا گیا ہے کہ متحدہ عرب امارات کی وساطت سے پاکستان اور بھارت کے درمیان درپردہ، بالواسطہ بات چیت ہورہی ہے اور امن عمل کے نقشہ (روڈ میپ)پر کام ہورہا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ ماہ جیسے ہی دونوں ملکوں کی افواج نے لائن آف کنٹرول پر آٹھ سال پرانے سیزفائر معاہدہ کی توثیق کا مشترکہ بیان جاری کیااسکے اگلے روز متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ شیخ عبداللہ بن زائد دہلی پہنچے۔ انہوں نے اپنے ہم منصب بھارتی وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر سے ملاقات کی۔ اسکے بعد متحدہ عرب امارات نے ایک بیان جاری کیا جس میں پاکستان اوربھارت کے درمیان کی جانے والی سفارتکاری کا کھُل کر تذکرہ تو نہیں کیا گیا لیکن اس کی طرف واضح اِشارہ کیا گیا۔ بیان میں کہا گیا کہ دونوں ملکوں نے مشترکہ دلچسپی کے تمام علاقائی اور بین الاقوامی امور پر بات چیت اور تبادلۂ خیال کیا۔ ، بلوم برگ کواعلیٰ حکام نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان سیزفائر پر اتفاق ہوناخفیہ مذاکرات میں ایک سنگِ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اقدام دونوں ملکوں کے درمیان قیام ِامن کے طویل مدتی روڈ میپ کی محض شروعات ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اگلا قدم یہ ہوگا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ہاں اپنے اپنے سفیر واپس تعینات کردیں گے۔ جب بھارت نے اگست2019 میں کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی تب پاکستان نے دہلی سے اپنا سفیر واپس بُلالیا تھا۔ اسکے جواب میں بھارت نے بھی ایسا ہی کیا تھا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق سفیروں کی تعیناتی کے بعد دونوں ممالک تجارت کی بحالی اور کشمیر کے تنازعہ کو حل کرنے کیلیے مذاکرات شروع کریں گے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے بلوم برگ کی رپورٹ کی تردید نہیں کی۔ یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ اس ماہ کے آخر میں دو شنبہ میں ہارٹ آف ایشیا کانفرنس منعقد ہو گی جس میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کی ملاقات اور بات چیت متوقع ہے۔

پاکستان اور بھارت میں کشیدگی اور تناؤ کم کرنے کا معاملہ خوش آئند عمل ہے۔ لائن آف کنٹرول پر بندوقیں اور توپیں خاموش ہونے سے دونوں ملکوں کے ساتھ ساتھ کشمیریوں کو بھی فائدہ ہوگا کیونکہ فائرنگ کے تبادلہ میں عارضی سرحد کے قریب رہنے والے معصوم شہری سینکڑوں کی تعداد میں شہید ہوچکے ہیں۔ تاہم جب تک بھارت کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت بحال نہیں کرتا اس سے مکمل سفارتی تعلقات بحال کرنا، سفیروں کی تعیناتی اور تجارت کی بحالی کو پاکستان کی کمزوری پر محمول کیا جائے گا۔ عالمی میڈیا کی رپورٹوں سے یہ تاثر ملتا ہے کہ پہلے سفیروں کی تعیناتی ہوگی اسکے بعد مذاکرات شروع ہوں گے۔ اگر ہم نے ایسا کیا تو یہ ہمارے اب تک کے موقف کی پسپائی ہوگا۔ پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ مذاکرات اسوقت شروع ہونگے جب بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کرے گا۔ یہی بات آرمی چیف نے کی ہے۔ تاہم، بھارت میں اس معاملہ پر مکمل خاموشی ہے۔ دہلی سے اسکا کوئی جواب نہیں آیا۔ یُوں بھی بھارت کی سفارتکاری ہمیشہ سے نپی تلی رہی ہے۔ ہر دور میں اُنکے وزیرخارجہ اور دیگر اعلیٰ سفارتی حکام پاکستان کے بارے میں بہت کم بیان دیتے ہیں۔ جبکہ ہماراکوئی بھی وزیرخارجہ ہو وہ خاموش رہنا پسند نہیں کرتا۔ حالانکہ حساس سفارتی معاملات پر جتنی کم اور محتاط بات کی جائے اتنا اچھا ہوتا ہے۔ انڈیا کو بار بار مذاکرات کی پیشکش سے پاکستان کی کمزوری کا تاثراُبھرتا ہے۔

پاکستان کے مفاد میں ہے کہ وہ سیز فائر معاہدہ پر عمل درآمد کے بعد خاموشی سے بھارت کے اگلے اقدام کا انتظار کرے کہ وہ کب کشمیر کا پرانا اسٹیٹس بحال کرتا ہے۔ بات چیت کے لئے بے تابی اور جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرے۔ نریندرا مودی کے لیے سیاسی اعتبار سے بہت مشکل ہوگا کہ وہ کشمیر پر یُو ٹرن لیں۔ زیادہ امکان ہے کہ وہ اس معاملہ پربھارتی سپریم کورٹ کے فیصلہ کا انتظار کریں گے جہاں اگست 2019 کے اقدام کو چیلنج کیا گیا ہے۔ اگر سپریم کورٹ کشمیریوں کے حق میں فیصلہ دیتی ہے تو مودی اسے ماننے کے پابند ہوں گے۔ مودی کی سیاسی پوزیشن بھی خراب نہیں ہوگی اور پاکستان کا مطالبہ بھی پورا ہوجائے گا۔ امن مذاکرات کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ اسوقت تک عرب ممالک کا دباؤ ہو یا امریکہ کا ہمیں اس کا مقابلہ کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ سعودی عرب نے مسئلہ کشمیر پربھارتی اقدام کے خلاف اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی کے وزرائے خارجہ کا اجلاس بلانے سے صاف انکار کردیا تھا۔ سعودی عرب کے اپنے قومی مفادات ہیں اور ہمارے اپنے۔

پاکستان کو امریکہ سے بھی امیدیں وابستہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ امریکہ تنازع ِ کشمیرکے حل کی خاطر کبھی بھارت کو ناراض نہیں کرے گا۔ وہ صرف پاکستان کو لالی پاپ دے گا۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے صدارت سنبھالنے کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندرا مودی سے ٹیلی فون پر بات چیت کی لیکن پاکستان کے وزیراعظم سے رابطہ نہیں کیا۔ چند روز پہلے امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن بھارت کے سرکاری دورہ پر تھے جہاں انہوں نے نریندرامودی سمیت اعلیٰ حکام سے ملاقاتیں کیں اور بھارتی وزیر دفاع کے ساتھ مشترکہ بیان جاری کیا۔ وہ پاکستان نہیں آئے، سیدھے افغانستان چلے گئے۔ امریکہ اپنی ترجیح واضح کرچکا ہے کہ جنوبی ایشیا میں بھارت اسکا قریب ترین اتحادی ہے۔ اسکے باوجود اشارے مل رہے ہیں کہ ہماری حکمران اشرافیہ امریکی ڈالروں کے لالچ میں واشنگٹن سے اُمیدیں لگائے بیٹھی ہے۔ پاکستان میں امریکی لابی طاقتور ہے۔ ہماری اشرافیہ اور مقتدر حلقوں میں اسکی گہری جڑیں ہیں۔ امریکہ کو خوش کرنے کی خاطر بھارت کی شرائط پر اس سے مذاکرات کرنا، کشمیریوں سے بے وفائی ہوگی اور پاکستان کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ ہمیں اپنے اُصولی موقف پر قائم رہتے ہوئے مناسب وقت کا انتظار کرنا چاہیے جیسا چین تائیوان کے معاملہ پر کررہا ہے۔