Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Israel Ko Tasleem Karna

Israel Ko Tasleem Karna

گزشتہ اتوار کو امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو سعودی عرب میں موجود تھے۔ عبرانی زبان کے اسرائیلی میڈیا نے انکشاف کیا کہ اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسی موساد کے سربراہ یوسی کوہن بھی اسی روز اچانک سعودی عرب پہنچ گئے جہاں انکی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات ہوئی۔ جب یہ خبر عام ہوئی تو سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے نیتن یاہو کے دورہ کی تردید کی لیکن اسرائیلی میڈیا اپنی خبر پر قائم رہا۔ نیتن یاہو نے اس خبرپر تبصرہ کرنے سے انکار کردیا جسکا مطلب ہے کہ وہ نہ تو انکارکررہے ہیں اورنہ اقرار۔ ان خبروں کو اس بات سے بھی تقویت ملی کہ دنیا میں ہوائی جہازوں کی پرواز کو مانیٹر کرنے والی ایجنسیوں کے ڈیٹا نے بھی تصدیق کی کہ ایک نجی طیارہ اتوار کو اسرائیل سے سعودی عرب پہنچا تھا۔

اسرائیل کے ایک بڑے اخبار ہاریٹزنے دعویٰ کیا ہے کہ سعودی ولی عہد محمدبن سلمان چاہتے ہیں کہ پاکستان اسرائیل سے باقاعدہ معمول کے تعلقات قائم کرے۔ عمران خان نے خود بھی ایک ٹیلی ویژن انٹرویو میں یہ دعویٰ کیا کہ امریکہ اور ایک خلیجی ملک ان کی حکومت پر دباؤ ڈال رہے ہیں کہ اسرائیل کو تسلیم کیا جائے۔ تاہم عمران خان نے انٹرویو کرنے والے کے اصرار کے باوجوداس خلیجی ملک کا نام لینے سے انکار کردیا۔ عمران خان نے کہا کہ ہم کچھ باتیں کہہ نہیں سکتے کیونکہ ہمارے ان سے تعلقات اچھے ہیں۔ ہم انہیں پریشان نہیں کرنا چاہتے۔ جب ہمارا ملک اپنے پاؤںپر کھڑا ہوجائے گا تو پھر آپ مجھ سے ایسے سوال کیجیے گا۔ ، تاہم جب یہ ٹیلی ویژن انٹرویو اخباروں میں لفظ بہ لفظ بڑے پیمانے پر شائع ہوا توپاکستانی دفتر خارجہ نے وضاحت جاری کی کہ امریکہ کا پاکستان پر ایسا کوئی دباؤ نہیں ہے اور یہ کہ ایسی رپورٹیں خود ساختہ ہیں۔ حالانکہ ٹیلی ویژن انٹرویو کے کلپ میں یہ باتیں سنی جاسکتی ہیں۔ چند ماہ پہلے تک وزیراعظم عمران خان کا یہ موقف تھا کہ اسرائیل سے اس وقت تک تعلقات قائم نہیں ہوسکتے جب تک ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہ کردی جائے۔ لیکن شایدشدید سفارتی دباؤ کا اثر ہے کہ اب انکے موقف میں بتدریج قدرے نرمی آرہی ہے۔ ایک حالیہ انٹرویومیں انہوں نے کہا ہے کہ اسرائیل سے تعلقات اس وقت قائم کیے جا سکتے ہیں جب اسرائیل کا فلسطینیوں کے ساتھ ایک منصفانہ تصفیہ ہوجائے۔ سفارتی زبان میں آزاد ریاست اور منصفانہ تصفیہ دو الگ الگ باتیں ہیں۔ ایک اور انٹرویو میں عمران خان نے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیےسمجھوتہ، کا لفظ بھی استعمال کیا ہے۔ تاہم مجموعی طور پر عمران خان اب تک اسرائیل کو تسلیم کرنے کے مطالبہ کی مزاحمت کررہے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ جب سے بحرین اورمتحدہ عرب امارات نے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرکے اس سے سفارتی تعلقات قائم کیے ہیں پاکستان پر بھی امریکہ اور ایک عرب ملک کا دباؤ بڑھ رہا ہے کہ وہ بھی اسرائیل سے تعلقات قائم کرے۔ ملک میں ایک بڑی لابی ہے جس نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی مہم چلاناشروع کردی ہے۔ ٹیلی ویژن کے بعض اینکرپرسن اورصحافی ذاتی حیثیت میں اسرائیل سے تعلقات قائم کرنے کے لیے عوامی رائے عامہ ہموار کرنے کا کام شروع کرچکے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیل کے حق میں مہم چلانے والے وہ صحافی ہیں جن کے ریاستی اداروں سے قریبی تعلقات ہیں۔ دانشوارانہ حلقوں میں بھی ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اسرائیل کے حق میں لابنگ کررہے ہیں۔ ان لوگوں کا نہ کوئی اصول ہے نہ نظریہ۔ گو پاکستانی عوام کی اکثریت واضح طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے خلاف ہے اورایک آزاد، خود مختار فلسطینی ریاست کا قیام چاہتی ہے۔ لیکن حکمران طبقہ اور اشرافیہ میں ایسے لوگوں کا ایک بڑا گرو پ موجود ہے جو اسرائیل سے قریبی تعلقات قائم کرنے کا خواہش مند ہے۔ اسرائیل نواز لوگوں کا موقف ہے کہ پاکستان کو اسرائیل سے سفارتی تعلقات قائم کرنے سے معاشی اور سفارتی فوائد ہونگے۔ ہماری اسرائیل کو برآمدات بڑھیں گی۔ ہم اسرائیل سے جدید زرعی، آبپاشی ٹیکنالوجی حاصل کرسکیں گے۔ بھارت اور اسرائیل کے درمیان بہت قریبی تعلقات ہیں۔ کشمیرمیں اسرائیل کے فوجی افسر بھارتی فوج کی معاونت کررہے ہیں۔ وہ بھارتی فوجیوں کو تربیت دیتے ہیں اور کئی آپریشن میں بنفسِ نفیس شریک ہوتے ہیں۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں جو حکمت عملی اور طریق کار اختیار کیا ہے وہ اسرائیل سے مستعار ہے۔ بھارت اسرائیل سے بڑے پیمانے پر میزائیل ٹیکنالوجی اور دیگرفوجی سازوسامان خرید رہاہے۔ اسرائیل نواز لابی کا خیال ہے کہ پاکستان سے تعلقات قائم ہونے کے بعد کشمیر پر اسرائیل کی پوزیشن یکطرفہ طور پر بھارت کے حق میں نہیں رہے گی بلکہ اسے پاکستان کے موقف کو بھی اہمیت دینا ہوگی۔ سب سے اہم، امریکہ میں انتہائی بااثر صیہونی اور یہودی لابیاں پاکستان کے بارے میں دوستانہ موقف اختیار کریں گی جس سے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔

اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کو تسلیم کرنا پاکستان کے تاریخی اصولی موقف کی نفی ہوگی۔ انیس سو اڑتالیس میں جب اسرائیل کی ریاست قائم ہوئی تو اسکے صدر نے بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کو ایک خط لکھا جس میں ان سے کہا کہ اسرائیل پاکستان سے تعلقات کا خواہش مند ہے لیکن قائداعظم نے اسکا جواب بھی نہیں دیا کیونکہ وہ اور علامہ اقبال شروع دن سے اسرائیلی ریاست کے تصور کے خلاف تھے۔ اسوقت سے پاکستان اسرائیل کے خلاف عربوں اور فلسطینیوں کا بھرپور ساتھ دیا۔ حالانکہ فلسطینی لیڈروں نے کبھی کشمیر پر پاکستان کے موقف کی حمایت نہیں کی کیونکہ وہ بھارت کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اگر پاکستان فلسطین پر اصولی موقف ترک کرتا ہے تو اس سے ہمارا کشمیر پر موقف بھی اخلاقی طور پر کمزور ہوجائے گا۔ اگر ہم فلسطین پر یہودیوں، صیہونیوں کے ناجائز طبقہ کو جائز تسلیم کرلیتے ہیں تو کس بنیاد پر مقبوضہ کشمیر پر بھارتی قبضہ کی مخالفت کریں گے۔ یوں بھی پاکستان میں عوام کی اکثریت میں اسلامی وحدت اور اسلامی اُمت کا تصور راسخ ہے۔ عوام کی اسلامی ممالک سے جذباتی وابستگی ہے۔ یروشلم میں قبلہ اوّل اور مسجد اقصیٰ سے بھی پاکستانیوں کی جذباتی وابستگی ہے۔ حکمران اشرافیہ کچھ بھی کہے عوام اس فیصلہ کو اسلام اور مسلمانوں سے غداری تصور کریں گے۔ اسرائیل کو تسلیم کرنا ایک بہت نامقبول فیصلہ ہوگا۔ جو بھی حکومت یہ کام کرے گی اسے عوام کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وہ حکمران عوام کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہے گا اور نہ حکومت میں رہ سکے گا۔ اسے سیاست کو خیر باد کہہ کر رُوپوش ہوناپڑے گا۔