اپوزیشن جماعتیں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔ ن لیگ کی ییشین گوئی ہے کہ دسمبر میں حکومت کی چھٹی ہوجائے گی۔ پیپلزپارٹی جنوری کی تاریخ دے رہی ہے۔ اب تو مسلم لیگ (ن) کی عملی طور پر سربراہ مریم نواز نے فوجی قیادت سے مطالبہ بھی کردیا ہے کہ وہ عمران خان کی حکومت رخصت کرے تو ان سے بات چیت ہوسکتی ہے۔ یہ وہی کھیل ہے جو انیس سو نوّے کی دہائی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹوایک دوسرے کے خلاف کھیلتے تھے۔ دونوں نے دو باروفاق میں حکومت بنائی اور دونوں بار ایک دوسرے کی حکومت گرانے میں اسٹیبلشمینٹ کا ساتھ دیا۔
پاکستان میں جب بھی عام انتخابات ہوتے ہیں شکست خوردہ سیاسی پارٹی دھاندلی کا الزام لگا کر نتائج تسلیم کرنے سے انکار کردیتی ہے۔ پہلے دن سے ہارنے والی جماعت جیتنے والی پارٹی سے اقتدار چھوڑنے یا وسط مدتی الیکشن کرانے کا مطالبہ شروع کردیتی ہے۔ یہ ہماری قومی سیاست کا مستقل وصف ہے۔ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو انہوں نے بھی وزیراعظم نواز شریف کو چین سے حکومت نہیں کرنے دی۔ ایک کے بعد دوسرا دھرنا دیتے رہے۔ حالانکہ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں کوئی منظم دھاندلی کے شواہد نہیں تھے۔ اسی طرح دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن کے نتائج بھی توقع کے عین مطابق تھے۔ وسطی پنجاب یعنی لاہور فیصل آباد اور لاہور ڈویژنز میں ن لیگ کا زور تھا۔ یہاں اس نے بہت زیادہ ترقیاتی کام کروائے تھے۔ اس علاقہ میں ن لیگ کے امیدوارہی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے۔ ن لیگ نے جنوبی پنجاب کو اپنے دور حکومت میں نظر انداز کیا تھا۔ وہاں سے اسے شکست ہوئی۔ پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک اندرون سندھ میں مضبوط تھا۔ اسے وہاں کامیابی مل گئی جس کے بل پر اس نے سندھ کی صوبائی حکومت بنا لی۔ لیکن افسوس کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں اتنی پختگی نہیں آسکی کہ وہ الیکشن نتائج کو تسلیم کرلیں اور کامیاب ہونے والی جماعت کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع دیں۔ دو ہزار اٹھارہ کے الیکشن میں دھاندلی کا بیانیہ سراسر جھوٹ اور بدنیتی پر مبنی ہے۔ عمران خان کی حکومت آئین اور قانون کے تحت عام انتخابات کے نتیجہ میں وجود میں آئی۔ بلاول زرداری آج اس حکومت کو ناجائز کہتے ہیں۔ حالانکہ قومی اسمبلی کے شروع دنوں کے اجلاس میں انہوں نے کہا تھا کہ عمران خان قدم بڑھاؤ، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔
ایک منتخب حکومت کو گرانے کا ایک طریقہ تو یہ ہوسکتا ہے کہ وزیراعظم کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک لا ئی جائے۔ عمران خان کی پارٹی کو اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل نہیں۔ انکی حکومت ایم کیوایم، ق لیگ اور چند دیگر چھوٹی جماعتوں کے سہارے قائم ہے۔ اگر یہ پارٹیاں انکا ساتھ چھوڑ دیں تو عمران خان وزیر اعظم نہیں رہیں گے۔ سوا دو برس گزر گئے اپوزیشن جماعتیں ان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد تو نہیں لاسکیں حالانکہ حکومت کی ایک اتحادی جماعت بی این پی مینگل اس سے الگ ہوچکی ہے۔ حکومت کی ایک اتحادی جماعت مسلم لیگ ( ق) وزیراعظم سے خوش نظر نہیں آتی لیکن وہ بھی حکومت گرانے کو تیار نہیں۔ مسلم لیگ (ق) کی قیادت کوشریف خاندان پر قطعاً بھروسہ نہیں۔ اس بات کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لا کر وزیراعظم عمران خان کی چھٹی کراسکیں۔
اپوزیشن کے پاس دوسرا راستہ یہ ہے کہ وہ زوردار ایجی ٹیشن کرے۔ عوام لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر آجائیں۔ پورے ملک میں تاجر طویل ہڑتال کردیں۔ پورے ملک میں پہیّہ جام ہوجائے۔ یہ ایجی ٹیشن کئی ہفتے جاری رہے۔ حکومت مفلوج ہوجائے اور وزیراعظم خود سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہوجائیں یا ریاستی ادارے ان سے مطالبہ کردیں کہ وہ ملک و قوم کے مفاد میں حکومت چھوڑ دیں۔ اس بات کا بھی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ اپوزیشن جماعتیں اتنی مقبول نہیں کہ عوام انکی خاطر ایسا زبردست احتجاج کریں۔ عمران خان کو ہٹانے کا تیسرا راستہ غیر آئینی ہے۔ وہ یہ ہے کہ ریاستی ادارے انہیں زبردستی اقتدار سے الگ کرکے اقتدار سنبھال لیں۔ مارشل لاء یا نیم مارشل لا لگادیں جیسا جنرل ضیاالحق یا جنرل پرویز مشرف نے کیا تھا۔ ملک میں عدلیہ اور میڈیا جتنے طاقتور ہوچکے ہیں عملی طور پر یہ ممکن نہیں کہ غیرآئینی طریقہ سے حکومت کو رخصت کیا جاسکے۔ یوں بھی جس ملک کی آبادی بہت زیادہ ہو جیسا کہ بائیس کروڑ کا پاکستان اس پر آمرانہ طور سے حکومت کرنا کسی ریاستی ادارہ کے بس کی بات نہیں۔
ان حالات میں اپوزیشن کے پاس ایک آخری راستہ بچتا ہے کہ وہ اسمبلیوں سے استعفے دے ڈالے۔ اس سے ایک بڑا سیاسی بحران جنم لے سکتا ہے۔ کم سے کم پنجاب کی صوبائی اسمبلی سے تون لیگ سے تعلق رکھنے والے تقریبا چالیس پینتالیس فیصد ارکان اسمبلی مستعفی ہوجائیں گے۔ ان حالات میں پنجاب اسمبلی کے نئے الیکشن کروانا پڑیں گے۔ مشکل قومی اسمبلی کی ہے جہاں پیپلزپارٹی استعفے دینے کے حق میں نہیں۔ پیپلز پارٹی کے اسٹیبلشمینٹ سے فاصلے کم ہوئے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کو ریاستی اداروں نے گلگت بلتستان کے الیکشن میں انتخابی مہم چلانے میں مکمل تحفظ فراہم کیا ہے۔ پیپلز پارٹی اسمبلیاں توڑ کر سندھ میں اپنی حکومت کھونے کا خطرہ بھی مول نہیں لینا چاہتی۔ ن لیگ کے پاس یہی آپشن بچتا ہے کہ وہ اور اسکی قریب ترین اتحادی جمعیت العلمائے اسلام کے ارکان قومی اسمبلی سے مستعفی ہوجائیں۔ اس عمل سے سیاسی بحران پیدا ہوگا لیکن اگرحکومت نے اپنے اعصاب مضبوط رکھے تو وہ ان کی سیٹوں پر ضمنی انتخابات کرواسکتی ہے جس سے ن لیگ کی قومی اسمبلی میں پوزیشن مزید کمزور ہوسکتی ہے۔ نواز شریف نے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف زہریلا بیانیہ اختیار کرکے ایک جواء کھیلا ہے۔ نواز شریف کی پالیسی بلیک میلنگ کی ہے۔ اگر ریاستی ادارے انکا دباؤ برداشت کرنے میں کامیاب ہوگئے تو ن لیگ کو بہت نقصان ہوگا۔ اس صورتحال کا بڑا فائدہ فی الحال تو وزیراعظم عمران خان کو ہوگالیکن آنے والے دنوں میں بلاول بھٹو زرداری کو بھی ہوگا۔