اپوزیشن جماعتیں کورونا پر مکمل یُو ٹرن لے چکی ہیں۔ جوپہلے کہا کرتی تھیں کہ وبا کو کنٹرول کرنے کی خاطر مکمل کرفیو لگایا جائے اب کسی احتیاطی تدبیر کے بغیرعوامی اجتماعات کررہی ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ حکومت کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا جائے۔ وبا تیز ہوجائے تو حکومت کی توجہ اور وسائل معاشی ترقی کی بجائے بیماری سے نپٹنے پر لگ جائیں۔ ملک میں کورونا وبا کی دوسری لہرتیزی سے پھیل رہی ہے۔ روزانہ چالیس سے ساٹھ متاثرہ افراد جاں بحق ہورہے ہیں۔ ماہرین زور دے رہے ہیں کہ احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں۔ سماجی فاصلہ رکھا جائے۔ منہ پر ماسک پہنا جائے۔ میل جول کم سے کم کیا جائے تاکہ وبا زیادہ نہ پھیلے۔ لیکن حزب اختلاف کی سیاسی جماعتیں جلسے منعقد کرنے سے باز نہیں آرہیں۔ اس سال فروری میں جب کورونا شروع ہوا تو پیپلز پارٹی کے وزیراعلی مراد علی شاہ ہاتھ جوڑ کر لوگوں سے التجا کررہے تھے کہ وہ احتیاط کریں۔ گھروں سے نہ نکلیں۔
پیپلز پارٹی نے سندھ میں سب سے پہلے لاک ڈاون کردیا تھا جس سے کاروبار شدید متاثر ہوا۔ مسلم لیگ(ن) بھی ملک بھر میں سخت لاک ڈاؤن کرنے کا مطالبہ کررہی تھی۔ لیکن اب یہ دونوں جماعتیں لاک ڈاون تو دُور کی بات ہے بڑے بڑے اجتماعات منعقد کررہی ہیں۔ نہ پہلے انکے مطالبات میں عوام کے لیے خلوص اور ہمدردی تھی نہ اب انکی کارروائیوں میں عوام کی بہبودکا خیال ہے۔ ان پارٹیوں کا خیال تھا کہ عمران خان کی حکومت کورونا وبا کی لہر میں بہہ جائے گی۔ سخت کرفیو ایسی صورتحال ہوگی تو معیشت کا مکمل بھٹہ بیٹھ جائے گا۔ عوام کا ردعمل اتنا شدید ہوگا کہ حکومت کا سنبھلنا ممکن نہیں رہے گا۔ لیکن عمران خان مکمل لاک ڈاؤن کے مطالبہ کے سامنے نہیں جھکے۔ انہوں نے جزوی بندشیں لگا کر وبا کو محدود کردیا۔
پاکستان میں کورونا کی پہلی لہر نے اتنا جانی اور مالی نقصان نہیں پہنچایاجتنا ہمارے دو ہمسایہ ممالک بھارت اور ایران میں ہوا۔ ہمارے ہاں اتنے لوگ وبا سے جاں بحق نہیں ہوئے اور ہماری معیشت اتنی زیادہ منفی زون میں نہیں گئی جتنا بھارت میں۔ ہماری زرعی پیداوار میں کورونا کے باوجود خاصا اضافہ ہوا جس سے معیشت ڈوبنے سے بچ گئی۔ لوگ بھوک سے نہیں مرے۔ حکومت نے ڈیڑھ کروڑ لوگوں کوشفاف طریقہ سے امدادی رقوم تقسیم کیں۔ عام لوگوں نے بھی مستحق افراد کی دل کھول کر مدد کی۔ ا پوزیشن منفی پروپیگنڈہ کرتی رہی لیکن حالات کنٹرول میں رہے۔ نہ فیس ماسک کی قلت ہوئی۔ نہ ہسپتالوں میں بیڈز کم پڑے۔ نہ وینٹی لیٹرز کی کمی ہوئی۔ حکومت نے کاروباری افراد کو بھی آسان شرائط پر قرضے دیے تاکہ وہ اس بحران کا مقابلہ کرسکیں۔ کورونا نے یورپ اور امریکہ سمیت دنیا کے بڑے بڑے ملکوں کی اُلٹ بازی لگوادی۔ کئی ملکوں، جیسے بھارت اور امریکہ، میں روزانہ ایک ہزار سے زیادہ لوگ وبا سے ہلاک ہوتے رہے۔ اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان میں ایسا نہیں ہوا۔ ایک وقت آیا کہ جزوی لاک ڈاؤن بھی ختم کردیا گیا۔
ہمارے ہاں وبا سے ایک دن میں مرنے والوں کی تعداد چند افرادتک محدود ہوگئی۔ کچھ دن تو ایسے تھے جب کورونا سے کوئی ہلاکت نہیں ہوئی۔ حالانکہ اس دوران میں دیگر ممالک میں روزانہ سینکڑوں، ہزاروں مریض وبا کا شکار ہوکر مرتے رہے۔ در حقیقت، کورونا کے دوران میں ملک کو جانی اور معاشی نقصان سے بچانا عمران خان کی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ صنعت چل رہی ہے بلکہ ترقی کررہی ہے، بازار کھلے ہیں۔ تجارت ہورہی ہے۔ شادیوں کی تقریبات منعقد ہو رہی ہیں۔ دفاتر میں کام ہورہا ہے۔ اسکول، کالج بھی جزوی طور پر کھل گئے تھے لیکن دوسری لہر آنے کے بعد بند کرنے پڑے۔ اگر لوگ پوری طرح احتیاطی تدابیر پر عمل کرتے، ماسک پہنتے، میل جول کم رکھتے تو وبا کی دوسری لہر زیادہ نقصان نہ پہنچاتی۔ عوام کی ایک بڑی تعداد اب بھی یقین نہیں کررہی کہ کورونا نام کی کوئی چیز موجود ہے۔ گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ، پشاور اور ملتان کے بعد اب اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم تیرہ دسمبر کو لاہور میں جلسہ عام کرنے جارہا ہے۔ لاہور مسلم لیگ (ن) کا گڑھ ہے۔ تعداد کے اعتبار سے مناسب جلسہ ہوجائے گا۔
پورے و سطی پنجاب سے ن لیگ کے ورکرز اور مزدوروں کو بسوں میں بھر بھر کر لاہور لایا جائے گا جیسے گوجرانوالہ میں لایا گیا تھا۔ بہت سے لوگ مفت سیر کرنے اور اچھا کھانا ملنے کے لالچ میں ایسے جلسوں میں آجاتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو ہزار دو ہزار روپے دیہاڑی بھی دی جاتی ہے۔ جن لوگوں نے اقتدار میں رہ کرکروڑوں، اربوں روپے کی لوٹ مار کی ہے انکے لیے جلسوں پر چند کروڑ خرچ کرنا کیا مشکل ہے۔ اصل عوامی اجتماع تووہ ہوتا ہے جب لوگ رضا کارانہ طور پر جوق در جوق جلسہ گاہ پہنچیں جیسے حال ہی میں مولانا خادم رضوی کے جنازہ میں مینار پاکستان پر عوام کا سیلاب آگیا تھا۔ انیس سو چھیاسی میں جب بے نظیر بھٹو جلاوطنی کے بعد پاکستان آئی تھیں تو اس وقت اُنکے جلسوں میں بھی لوگ خود سے بڑی تعداد میں شرکت کے لیے آتے تھے۔ انہیں لایا نہیں جاتا تھا۔ دو ہزار گیارہ میں عمران خان کے مینار پاکستان کے جلسہ میں بھی لاہور کے عوام بیوی بچوں سمیت خود سے اُمڈ آئے تھے کیونکہ وہ روایتی سیاستدانوں سے مایوس ہوچکے تھے۔ اب جو اپوزیشن جلسے کررہی ہے یہ روپے پیسے کا کمال ہے۔ عوام کی رضاکارانہ شرکت نہیں۔ گیارہ جماعتوں پر مشتمل اپوزیشن اتحاد ان جلسوں سے اپنے سپورٹرز کا مورال بلند رکھنا چاہتا ہے۔ تاکہ وہ بددل ہوکر گھروں میں نہ بیٹھ جائیں۔ یہ بھی خطرہ ہے کہ کئی موقع پرست لوگ حکومتی پارٹی سے نہ جاملیں۔ اسلیے انہیں یہ اُمید دلائے رکھنی ہوتی ہے کہ حکومت جانے والی ہے اور اب اُنکی باری آنے والی ہے۔
اگر حکومت گھبراہٹ کا شکار ہوکر طاقت کا استعمال کرلے تو اپوزیشن کو اور زیادہ فائدہ ہوسکتا ہے۔ پولیس لاٹھی چارج کردے، آنسوگیس پھینکے یافائرنگ کرے تو میڈیا پر خوب تماشا لگے گا۔ اگر کچھ لوگ ا س ہنگامہ میں مر جائیں تو اپوزیشن کو اپنی سیاست چمکانے کو لاشیں مل جائیں گی۔ لاہور میں ن لیگ کے پاس ایسے عناصر ہیں جو ایسی اشتعال انگیز صورتحال پیدا کرسکتے ہیں۔ کوئی شر پسند فائرنگ کرکے افواہ پھیلاسکتا ہے کہ پولیس جوابی کارروائی کرے۔ اسلیے حکومت کے لیے بہتر یہی ہے کہ تحمل کا مظاہرہ کرے۔ اگر کچھ غنڈہ عناصر امن امان کی صورتحال پیدا کریں تو ان سے دانشمندی سے نپٹا جائے۔ پولیس کی طرف سے گولی تو بالکل نہ چلائی جائے۔ جلسے جلوسوں سے کبھی کسی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔ اپوزیشن کو لاشوں کی تلاش ہے۔ وہ اسے نہیں ملنی چاہئیں۔