پاکستان میں ایک چھوٹا سا طبقہ ہے جو بہت دولت مند ہے، عیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہے۔ سب سے پرانے امیر بڑے زمیندار، وڈیرے اور قبائلی سردار ہیں۔ جب ملک بنا تو یہاں ایسے زمیندار خاندان تھے جن میں سے ہر ایک کے پاس ہزاروں ایکڑ زرعی زمین تھی۔ خاص طور سے سندھ اورجنوبی پنجاب میں بڑی زمینداریاں تھیں۔ کم سے کم تین مرتبہ زرعی اصلاحات کی گئیں لیکن ہر مرتبہ ان زمینداروں نے مختلف طریقوں، حربوں سے اپنی ملکیت کو محفوظ کرلیا۔ کچھ زمین بے نامی کرلی، اپنے وفادار مزارعوں، قریبی رشتے داروں کے نام پرمنتقل کردی۔ کچھ زمین جانوروں کی چراگاہیں ظاہر کرکے اپنے قبضہ میں رکھیں۔ انیس سو پچاس کی دہائی میں مسلم لیگ نے پہلی بار زرعی اصلاحات کی تھیں تو بڑے زمینداروں نے انجمن حقوقِ زمینداران تحت الشریعہ بنالی جس میں اکثر جاگیر دار، وڈیرے زرعی اصلاحات کے خلاف متحد ہوگئے۔ جب یہ دیہی اشرافیہ غیر مسلم، غیر ملکی انگریز حکمرانوں کے ساتھ تعاون کررہی تھی اس وقت تو انہیں شریعت یاد نہیں تھی لیکن جب انگریزوں کی عطا کردہ زمینوں کی ملکیتی حد کم کی جانے لگی تو انہیں ـ اسلامی قانون، یاد آگیا۔ جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی زرعی زمین کی ملکیت کو کم کرنے کی غرض سے قانون سازی کی گئی لیکن مؤثر ثابت نہیں ہوئیں۔ زیادہ تر زمینداروں نے سرکاری افسروں کی مدد سے اپنی جائیداد کوحکومت کے پاس جانے سے بچا لیا۔ غریب کسانوں کو بہت ہی کم زمین منتقل کی جاسکی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں بنائی گئی شریعت کورٹ نے تو معاملہ ہی نپٹا دیا، زرعی اصلاحات کو غیر اسلامی قرار دے دیا۔ اس فیصلہ کے خلاف لاہور کے ایک معروف قانون دان نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی جوبرسوں گزر جانے کے باوجود آج تک سماعت کے لیے مقرر نہیں کی گئی۔ اسکا نتیجہ یہ ہے کہ اب کوئی شخص جتنی چاہے زرعی زمین اپنی ملکیت میں رکھ سکتا ہے۔ اسکی کوئی حد مقرر نہیں۔ ماضی میں کی گئی تمام زرعی اصلاحات کے قوانین غیر موثر ہوچکے ہیں۔ یہ زمین کسی انسان نے نہیں بنائی۔ خدا تعالیٰ کی زمین ہے لیکن اسے خدا کی مخلوق پر تنگ کردیا گیا ہے۔ دیہات میں بڑے زمیندار اور شہروں میں پراپرٹی ٹائیکون اس پر قابض ہوچکے ہیں۔ عام آدمی کو سر چھپانے کے لیے بھی چند مرلے میسر نہیں۔
ملک کی دیہی آبادی کی اکثریت زرعی زمین کی ملکیت سے محروم ہے اور زمینداروں کے لیے بہت ہی کم معاوضہ پر محنت مشقت کرکے بمشکل زندہ ہے۔ دیہات کے اکثر لوگ انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ دس سال پہلے شماریات ڈویژن نے ایک زرعی مردم شماری کی تھی۔ اسکے مطابق ملک کے دیہی علاقوں میں ہر تین میں سے دو افراد زمین کی ملکیت سے محروم تھے۔ دس برسوں میں تیزی سے آبادی بڑھی ہے تو بے زمین کسانوں کا یہ تناسب اور بھی زیادہ ہوگیا ہوگا۔ سنہ دو ہزار دس کے سروے کے مطابق ملک کے چھپن لاکھ غریب کاشتکار ایسے تھے جن کے پاس پانچ ایکڑسے بھی کم زرعی زمین تھی۔ ملک میں زرعی اراضی کا تقریباً تیس فیصد رقبہ یا ڈیڑھ کروڑ ایکڑدرمیانے اور بڑے زمینداروں کے قبضہ میں ہے۔ انکی تعداد تقریباً سوا لاکھ ہے۔ سب سے بُرا حال سندھ کا ہے جہاں دیہات میں رہنے والے دس لاکھ سے زیادہ گھرانے کسی قسم کی زرعی ملکیت سے محروم ہیں۔ دیہی سندھ میں ایک خاندان اوسطاً آٹھ افراد پر مشتمل ہوتا ہے۔ ان میں سے تین لاکھ خاندان نیم غلاموں کی طرح بہت معمولی اُجرت پر بڑے زمینداروں کے کھیتوں پر کام کرتے ہیں اور اکثر ان سے پیشگی لیکر ان کی نسل در نسل غلامی میں جکڑے رہتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر خاندانوں کے بچے قطعاً تعلیم حاصل نہیں کرتے۔ سب ناخواندہ رہتے ہیں۔ بے زمین کسانوں کے لاکھوں بچے غذائی کمی کا شکار رہتے ہیں اور انکی جسمانی نشو و نما پوری طرح نہیں ہوپاتی۔ بے زمین کسانوں کے تمام افراد اپنی آمدن میں دو وقت کا کھانا بھی نہیں کھا سکتے۔ دیہی سندھ کے دو تہائی گھرانے غذائی عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ کچھ اس سے ملتا جلتا حال بلوچستان اور جنوبی پنجاب کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مفت کھانا تقسیم ہوتا ہے تو یہ غریب لوگ اُس پر دیوانہ وارٹوٹ پڑتے ہیں۔ جن لوگوں کے پاس دو وقت کی روٹی کے لیے پیسے نہیں ان سے کیسے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو تعلیم حاصل کرنے کو اسکولوں میں بھیجیں گے؟ غریب کسانوں کے بچے مزدوری کرتے ہیں یا ان میں سے کچھ مدرسوں کا رُخ کرتے ہیں جہاں مفت کھانا اور رہائش مہیا کی جاتی ہے۔ ملک کے اکثر مسائل کی جڑ دیہی غربت ہے۔ بڑی بیماریوں کا مہنگا علاج کرانا تو دُور کی بات ہے یہ تو چھوٹے موٹے امراض کا علاج معالجہ کرنے کی استعداد بھی نہیں رکھتے۔ بے زمین، غریب لوگ مزدوری، روزگار کیلیے بڑی تعداد میں شہروں کارُخ کرتے ہیں جس کے باعث شہروں پرآبادی کا بوجھ اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہاں شہری سہولتیں جیسے پینے کا پانی، نکاسئی آب مہیا کرنا ممکن نہیں رہا۔ کراچی کی نصف آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے۔
ملک بھر کے بے زمین کسان اور چھوٹے زمیندار غربت کی چکی میں پس رہے ہیں جبکہ بڑی ملکیت رکھنے والے غیر حاظر زمیندار خود کاشتکاری نہیں کرتے، کسانوں کی محنت مشقت کا پھل کھاتے ہیں، عیش کرتے ہیں۔ ملک میں بامعنی، حقیقی تبدیلی اسی صورت آسکتی ہے جب زرعی اور شہری زمین کی ملکیت کی حد مقرر کی جائے۔ بڑے زمینداروں سے زمین حاصل کرکے ہر بے زمین کسان کوچند ایکڑ زرعی اراضی دی جائے جسے کاشت کرکے اسکا خاندان کم سے کم دو وقت کا کھانا تو کھا سکے۔ اپنے لیے کچا پکا مکان تو بناسکے۔ اپنے بچوں سے مزدوری کروانے کی بجائے انہیں پانچ جماعت تک تعلیم تو دلواسکے۔ حکومت کے کبھی اتنے وسائل نہیں ہوسکتے کہ وہ تمام غریب لوگوں کے لیے لنگر خانے کھول سکے۔ نہ شہروں میں کھولے گئے چند لنگر خانوں سے کروڑوں خاندانوں کی بھوک ختم کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی حکومت اتنی پناہ گاہیں نہیں بناسکتی جو سب بے مکان افراد کورہنے کا ٹھکانہ مہیا کرسکیں۔ صحت کارڈ بہت اچھا اقدام ہے لیکن یہ صرف چند بڑی بیماریوں کا احاطہ کرتا ہے۔ عام علاج معالجہ اس سے ممکن نہیں۔ احساس کیش پروگرام عالمی اداروں کی امداد سے چل رہا ہے۔ جس سے ملک مزید مقروض ہورہا ہے۔ صرف زرعی اصلاحات کے ذریعے غربت پر کاری ضرب لگائی جاسکتی ہے۔ ایک تہائی سے زیادہ آبادی کو خود کفیل بنایا جاسکتا ہے۔ اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ غربت کو جڑ سے ختم کیا جاسکتا ہے۔ دنیا میں کوئی ترقی پذیر ملک ایسا نہیں ہے جس نے زرعی اصلاحات کیے بغیر صنعتی، معاشی ترقی کی ہو۔ جنوبی کوریا ہو یا ویتنام۔ روس ہو یا چین یا بھارت۔ ان سب ممالک نے پہلے زرعی اراضی کسانوں میں تقسیم کرکے دیہی غربت کو کم کیا۔ مفت پرائمری تعلیم، فنی تعلیم کو فروغ دیاپھر صنعتی، معاشی ترقی ممکن ہوئی۔ جدید معیشت میں ناخواندہ افراد کی گنجائش نہیں۔ جب تک ہمارے ملک سے جاگیرداری، غیر حاظر زمینداری کا نظام ختم نہیں کیا جاتا اور غریب کسانوں کی معاشی حالت بہتر نہیں بنائی جاتی حقیقی معاشی ترقی ممکن نہیں۔