سمجھ سے باہر ہے کہ جو بجلی دو مہینے پہلے دستیاب تھی وہ اچانک کہاں چلی گئی؟ کوئی بتاتا بھی تو کچھ نہیں کہ آخر ضرورت سے زائد بجلی کیا ہوئی؟ ادھر ڈالر اوپن مارکیٹ میں 208 روپے کا مل رہا ہے، پیٹرول 270 پہ جانے کی باتیں ہو رہی ہیں، غریب آدمی کی زندگی اجیرن ہو گئی ہے اور یہاں بشریٰ بشریٰ اور گوگی گوگی کی گردان ہی ختم نہیں ہو رہی، ایسا کب تک چلے گا؟
شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد جو دھماکہ خیز اعلانات وزیر اعلی کی طرز پر کیے تھے وہ ایک ایک کر کے واپس لینے پڑ رہے ہیں، شہباز شریف غالباََسمجھے تھے کہ جیسے وزیر اعلی کے طورپر اعلان کر کے گول کر دیتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہ ہوتا تھا، یہاں بھی یہی طرز عمل چل جائے گا، انہیں اندازہ نہ تھا کہ وفاق میں ذمہ داری کی نوعیت مختلف ہوتی ہے۔ ذرا دیکھئے تو پچھلے کچھ عرصے میں انہوں نے کیا کیا اعلان کیے جو واپس لینے پڑے۔
حکومت سنبھالتے ہی شہباز شریف نے تنخواہوں اور پینشنز میں اضافے کا اعلان کر دیا، نہ وزارت خزانہ سے بریفنگ لی، نہ کسی سے مشورہ کیا۔ جلد بازی میں اعلان کر کے تالیاں تووصول کر لیں، بعد میں پتہ چلا کہ یہ بچگانہ سی حرکت ہو گئی ہے، لہذا اعلان واپس لینا پڑا۔ پھر آتے ہی اعلان کیا کہ ہفتے میں چھ دن کام ہوگا، دفاتر صبح آٹھ بجے کھلیں گے۔ اس فیصلے کے بھی تمام پہلوئوں پر تفصیلات سے نگاہ نہ ڈالی گئی اور گذشتہ روز کابینہ نے فیصلے کو معطل کر کے دو دن کی چھٹی بحال کر دی۔
پیٹرولیم مصنوعات پر سبسڈی ختم کرنے میں بھی حکومت نے مسلسل ہچکچاہٹ سے کام لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 60 روپے فی لیٹر بڑھانا پڑ گئے اور اس سے مہنگائی اچانک آسمان پہ جا لگی۔ شاید پچھلے دو مہینے میں دس دس روپے کر کے مرحلہ وار بڑھاتے تو ردعمل ایسا نہ آتا۔ مہنگائی ہے کہ بیس فیصد کو چھو رہی ہے، خطرہ ہے کہ پچیس اور تیس فیصد تک جا سکتی ہے۔ دوسری طرف دس فیصد تنخواہ بڑھانے کے لیے آئی ایم ایف سے اجازت درکار ہے اور آئی ایم ایف جواب میں ناگواری کے ساتھ گھور رہا ہے۔
گذشتہ روز حکومت نے کفایت شعاری کے اظہار کے لیے نئے اقدامات اٹھانے کا اعلان بڑے فخر کے ساتھ کیا۔ ان میں سے بیشتر وہ اقدامات ہیں جو پچھلی حکومت میں اٹھائے گئے تھے مگر نئی حکومت نے آ کر پابندی ختم کر دی تھی۔ اب کفایت شعاری کے یہ اقدامات اٹھائے تو جا رہے ہیں مگر ان سے شاید زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ جن اقدامات سے واقعی فرق پڑے گا وہ کوئی اٹھانے کو تیار نہیں۔
حکومت نے بڑے زوروشور سے اعلان کیا ہے کہ لنچ، ڈنر اور ہائی ٹی پر پابندی لگا دی گئی ہے، یہ پابندی پچھلی حکومت نے بھی لگا رکھی تھی مگر اس حکومت کے آتے ہی کھابے بحال ہو گئے تھے۔ کہا گیا ہے کہ زیادہ تر ورچؤل میٹنگز ہوا کریں گی تاکہ بجلی کی بچت ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے مفت کا پیٹرول اب 40 فیصد تک کم ملے گا۔ ماہرین معاشیات کے مطابق یہ تمام اقدامات علامتی طور پر تو بہت اچھے ہیں مگر اس سے معیشت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ اس کے نتیجے میں ہونے والی بچت کا حجم زیادہ نہیں ہے۔
معاشی ماہرین کے مطابق اگر واقعی بچت اور سادگی کی مہم چلانی ہے تو افسران کے بڑے بڑے محلات میں رہنے کے بجائے چھوٹے گھروں میں رہنے کا فیصلہ کرنا ہو گا۔ پرائیویٹائزیشن یا نجکاری کو عمل میں لا کربڑے بڑے گھروں کو نیلام کرنا ہوگا۔ نوکر چاکراوردس دس گاڑیوں سے جان چھڑانا ہو گی۔ افسران کو تنخواہ پر گزارا کرنا ہو گا۔ گورنر ہائوسز کو چھوٹے گھروں میں تبدیل کرنا ہو گا۔
ریڈیو پاکستان جیسے سفید ہاتھیوں کو بیش قیمت عمارتوں سے چلانے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ ریڈیو دو کمروں کے دفتر سے بھی چل سکتا ہے یا چلیے پانچ مرلے کے ایک گھر یا دفتر سے۔ ایکڑوں کی جگہ سرکار کے خزانے میں معاونت کا باعث بننی چاہیے۔ اگر واقعی سادگی کی مہم چلانی ہے تو بڑے اقدامات کرنے ہوں گے، چھوٹے چھوٹے علامتی اقدامات سے کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
حکومت آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر لینے کے لیے کوشاں ہے۔ اس سے ڈالر شاید چند روپے نیچے تو آئے لیکن خدشہ ہے کہ روپے کا یہ استحکام وقتی ہو گا اور چند ہفتوں یا مہینوں کے بعد دوبارہ روپیہ ہچکولے کھا رہا ہو گا۔ روپے کو مستقل بنیادوں پہ استحکام دینے کے لیے تجارتی خسارہ کم کرنا ہو گا۔ تجارتی خسارہ مسلسل بڑھ رہا ہے اور زر مبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے۔
روپے کو مستحکم کرنے کے لیے مزید ڈالرز کی ضرورت ہے۔ ڈالرز یا تو برآمدات سے آ رہے ہیں یا بیرون ملک پاکستانیوں کی جانب سے بھجوائی جانے والی رقوم سے۔ ملک میں جاری غیر یقینی سیاسی صورتحال کی وجہ سے بیرون ملک سے آنے والی رقوم رُک جانے کا خدشہ ہے اور دوسری طرف تیل، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ سے برآمدات کے متاثر ہونے کا بھی شدید خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ قرضے لے لے کر ڈالرز میں اضافہ کب تک ہو گا جبکہ دوسری طرف ڈالر مسلسل سمگل ہو رہاہے۔
ایران اور افغانستان کی طرف ڈالر کی اڑان کو نہیں روکا جا پا رہا۔ موجودہ عارضی حکومت معاشی بحالی کے لیے کوئی بھی بڑے اقدامات نہیں اٹھا پا رہی ایسا لگتا ہے وہ خود بھی بے یقینی کا شکار ہے کہ اسے کب تک حکومت کرنی ہے۔ معاشی فیصلے لیتے ہوئے اسے الیکشنز میں جانے اور غیر مقبول ہونے کا خوف لاحق ہے۔ موجودہ معاشی حالات سخت اور دلیرانہ فیصلے کا تقاضا کر رہے ہیں اور یہ فیصلے وہی حکومت لے سکتی ہے جو پانچ سال کے لیے آئی ہو اور اسے چند ماہ کے اندر عوام کے پاس جانے کا خوف نہ ہوا۔
گویا موجودہ معاشی حالات میں فوری انتخابات ہی واحد حل نظر آتا ہے جو ملک کو استحکا م عطا کر سکتا ہے۔