ایک ہی ہفتے میں چار نو جوان دوست صحافیوں کی بے وقت موت نے دل دکھی کر دیا ہے۔ پہلے فراز برین ہیمرج سے چلے گئے، پھر ارشد وحید چودھری کو کورونا لے گیا، اگلے ہی روزاپنے والدین کی اکلوتی اولاد بلوچستان ٹائمز کے کالم نگار شاہنواز موہل ٹریفک حادثے کا شکار ہو گئے اور تین دن پہلے ٹنڈو الہ یار میں ہمارے دوست صحافی بشارت قائم خانی کو دل کا دورہ ہم سے جدا کر گیا۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے۔
فرازسینتیس کے لگ بھگ ہوں گے، سات برس پہلے شادی ہوئی مگر اولاد کی نعمت سے طویل عرصے تک محروم رہے۔ ہر والدین کی طرح انہیں بھی اولاد کی خواہش روز تڑپاتی تھی۔ پھر مراد پوری ہوئی اور ایک نہیں قدرت نے انہیں جڑواں بیٹیوں سے نوازا، بیٹیوں کی پیدائش پر خوشی دیدنی تھی۔ جس دن بلڈ پریشر بڑھ جانے سے برین ہیمرج ہوا اس دن ان کی دونوں بیٹیاں صرف بیس دن کی تھیں۔ ہسپتال لے جا کر وینٹی لیٹر پر ڈالا گیالیکن وہ جانبر نہ ہو سکے۔ ان کی موت کی اطلاع دھماکے سے کم نہ تھی، جونہی خبر ملی سب سے پہلے ان کی نوزائیدہ بیٹیوں کا خیال آیا۔ ان کی اہلیہ بھی شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں، تین دن تک تو ہمت نہ ہوئی تیسرے دن تعزیت کے لیے فون کیا تو کہنے لگیں ایک بیٹی کو میں دودھ پلا رہی تھی اور دوسری بیٹی کی بوتل فراز نے اس کے منہ سے لگا رکھی تھی۔ تبھی واش روم جانے کے لیے اٹھے اور دروازے پر ہی گر گئے۔ دوبارہ کبھی ہوش میں نہ آئے اور راہ عدم کے مسافربنے۔ حیرت ہے چھ فٹ کا خوش شکل، خوش گفتار اور خوش باش نوجوان یوں اچانک بھی مر سکتا ہے۔ خدا بڑا ہے، دعا ہے ان کی بیٹیوں کے لیے آسانیاں ہوں اور انہیں کبھی کوئی آنچ نہ آئے۔
شاہنواز موہل تو تیس بتیس سے زیادہ نہ ہوں گے۔ خوش شکل اور خوش گفتار۔ ان سے پہلی ملاقات چین کے ایک سفر کے دوران ہوئی۔ ہم اپنے اپنے اداروں کی طرف سے ایک اہم دورے پر تھے۔ شاہنواز جیسے لوگوں کی شخصیت سے میں جلد مرعوب ہو جاتا ہوں اس لیے ہچکچاہت کے باعث بے تکلف ہونے میں وقت لگا۔ لیکن جب بے تکلفی ہوئی تو معلوم ہوا تیس برس کے ایک انسان میں ساٹھ برس جیسا پُرسکون اور تحمل مزاج شخص رہتاہے۔ سات دن کے سفر کے دوران کم و بیش سات فلائٹس تو ضرور لی ہوں گی، کام کی نوعیت بھی ایسی تھی کہ ایک شہر سے دوسرے شہر بھاگم بھاگ۔ مسلسل سفر اور بے خوابی کے باعث ہر کوئی چڑچڑے پن کا شکار تھا لیکن شاہنواز کا خوبصورت چہرہ ہر وقت مسکراتا رہتا، اپنی شُستہ انگریزی میں اپنے سے بڑی عمر کے دوستوں کو بھی پر سکون رہنے اور غصہ نہ کرنے کی تلقین کرتے رہتے۔ چین کے ایک انجان شہر میں نہ جانے کیسے کسی سے راہ و رسم نکالی کہ اس کا سکوٹرمانگ لائے اور دوستوں کو سکوٹر پر شہر کی گلیوں میں گھماتے اور لطف اٹھاتے رہے۔ اتنے جاندار انداز میں ہنستے کہ دیکھنے والے کی تھکاوٹ جاتی رہے۔ افسوس کہ اسلام آباد کے نواح میں ایک ٹریفک حادثہ ان کی جان لے گیا۔ حادثہ اتنا خوفناک تھا کہ موقع پر موت واقعہ ہو گئی۔ ان کی تصویر کے ساتھ فیس بک پر ایک دوست نے خبر شئیر کی تو یقین نہ آیا۔ پھر دوستوں سے رابطہ کرنے پر خبر کی تصدیق تو ہو گئی لیکن دل ماننے کو تیار نہ تھا۔ اب بھی یاد کرتا ہوں تو منظر آنکھوں میں گھوم جاتا ہے، لگتا ہے مسکراہٹ چہرے پرسجائے، بڑا سا ہیٹ پہنے، غفاری صاحب کو ساتھ بٹھائے، بیجنگ کی گلیوں میں سکوٹر اُڑاتے چلے آ رہے ہیں۔ شاہنواز اپنے والدین کی اکلوتی اولاد اور غیر شادی شدہ تھے۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔
بشارت قائم خانی سے میری زندگی میں ایک ہی بار ملاقات ہوئی لیکن فون پر بات اکثر ہوتی رہتی۔ ٹنڈو الہ یار کے قریب راشد آباد میں ایک بارٹی وی شو کی ریکارڈنگ کی غرض سے جا رہا تھا تو ان کا فون آیا کہنے لگے پتہ چلا ہے آپ راشد آباد آ رہے ہیں ہمارا شہر زیادہ دور نہیں ہے، آپ یہاں بھی آئیں۔ میں نے کہااپنے کام سے فراغت کے بعد میرے پاس صرف دو گھنٹے ہوں گے اوراگر دو گھنٹے میں آپ ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کرا سکتے ہیں تو ضرور آ جائوں گا۔ کہنے لگے شام میں دوبارہ فون کرتا ہوں۔ شام میں بشارت قائم خانی نے دوبارہ فون کیا اور کہنے لگے شہر کی پانچ مختلف لوکیشنز پر انتظامات ہو گئے ہیں آپ کو دو گھنٹے میں پروگرام ریکارڈ کرا دیں گے۔ مقررہ وقت پرراشد آباد پہنچ گئے اور اپنی گاڑی میں بٹھا کر جلدی جلدی ایسی جگہوں پر لے گئے کہ ایک شاندار پروگرام ریکارڈ ہو گیا۔ اسپتال کی حالت زار، کروڑوں کی لاگت سے بننے والا اجڑا ہوا کھیل کا میدان، سرکاری اسکول میں وڈیرے کا قبضہ، سیوریج کا تباہ حال سسٹم اور لوگوں کے مسائل۔ دو گھنٹے میں نہ جانے کیا کیا انہوں نے دکھا دیا۔ ایک قابل اور متحرک صحافی کی تمام خوبیاں ان میں موجود تھیں۔ اب بھی فون پہ بات ہوتی تو کہتے دوبارہ کب آ رہے ہیں، لہجہ اتنا میٹھا تھا کہ دل چاہتا واقعی ٹنڈو الہ یار دوبارہ جانا چاہیے۔ کچا سا وعدہ ہمیشہ ان سے کر لیتا اور وہ خوش ہو جاتے۔ بشارت قائم خانی آپ کی سادگی اور سچائی ہمیشہ یاد آئے گی۔ خدا آپ کے درجات بلند کرے۔
ارشد وحید چودھری ان صحافیوں میں سے تھے جن میں بڑا نام کمانے کی تمام خوبیاں موجود ہوتی ہیں۔ میرا ان سے تعلق ان کی تحریروں سے بنا۔ میری کافی عرصے سے عادت ہے کہ رپورٹرز کے کالم ضرور پڑھتاہوں اس میں خبریت ہوتی ہے، خبر سچی اور مکمل ہوتو تجزیہ آپ خود بھی کر سکتے ہیں۔ ارشد وحید چودھری مسلسل محنت کے عادی تھی۔ ان کے بارے میں پیشگوئی یہ تھی کہ یہ جلد مین اسٹریم پروگرام اینکرز میں نظر آئیں گے۔ وقت نے انہیں مہلت نہ دی۔ جس دن ان کی بیماری کا پتہ چلا روزقاضی صاحب کو فون کر کے ان کی خیریت معلوم کرتا۔ ان کی وفات سے دو دن پہلے پتہ چلا کہ آکسیجن سیچوریشن جو چالیس تک گرگئی تھی بڑھ کے نوے ہو گئی ہے۔ اطمینان ہوا کہ بہتری کی جانب گامزن ہیں۔ لیکن قدرت کو شاید کچھ اور منظور تھا۔
چوبیس سالہ نوجوان رپورٹر عمیر علی ہوں یا چھبیس سالہ حافظ عبدالرحمن۔ پشاور کے فخرالدین سید ہوں یا فیصل آباد کے غلام محی الدین۔ آہ کیسے کیسے ہیرے وقت سے پہلے دنیا سے رخصت ہو گئے۔ اللہ ان سب کو اپنی رحمت کے سائے میں رکھے۔