جب کبھی پاکستان اور بھارت کے مابین کرکٹ میچ ہوتا ہے سوچنے کا دائرہ اور دیکھنے والی آنکھیں کچھ اور پھیل جاتی ہیں۔ اس بار بھی ایسا ہوا۔ بھارتی کرکٹ ٹیم نے امریکہ میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت کے بعد اٹھنے والی تحریک "بلیک لائف میٹر" کی حمایت میں پاک بھارت میچ سے قبل گرائونڈ میں گھٹنوں کے بل بیٹھ کربتایا کہ وہ نسلی امتیاز کو مسترد کرتے ہیں۔ یہ ایک مثبت پیغام تھا جس کا مقصد سپورٹس کے ذریعے بھارتی قوم کا تشخص بین الاقوامی سطح پر انسان دوست سوچ کے ساتھ جوڑنا تھا۔
امریکہ میں سفید فام پولیس اہلکاروں نے جارج فلائیڈ کو مشکوک سمجھ کر پکڑا اور پھر اس کی گردن پر سفید فام پولیس والے نے اپنا گھٹنا اس قدر زور سے دبایا کہ سیاہ فام فلائیڈ چلاتا رہا کہ اس کا سانس رک رہا ہے لیکن ظالم سفید فام صرف قانون کا رکھوالا نہیں تھا وہ تو نسلی امتیاز کا بول بالا کرنا چاہتا تھا، بے چارے فلائیڈ کی موت واقع ہوگئی۔ اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ کی حکومت تھی۔ کہا گیا کہ پولیس اہلکار ٹرمپ کے حامی تھے، ڈیموکریٹس نے اس موت کے خلاف اٹھنے والی عوامی آوازوں کی حمایت کی۔
پاکستان کے ساتھ میچ کے لئے بھارت نے کچھ نئے بائولر آزمائے۔ چکرورتی کو پراسرار اور جادوگر بائولر کہا جاتا ہے۔ اس کے پاس گیندوں کی کئی ورائٹیز ہیں۔ بیٹر (بیٹسمین) کو آخر تک اندازہ نہیں ہوتا کہ گیند کی رفتار، موومنٹ، بلندی اور گرنے کی جگہ کونسی ہوگی۔ بابر اور رضوان نے چکرورتی کیا، بھونیشور کمار، جدیجااور بمرا بھی کچھ نہ کر سکے۔ بابر اعظم اور رضوان نے سبھی بائولروں کا جم کر مقابلہ کیا۔ ایسی اننگز کھیلی جس میں کوئی گیند بیٹ ہوئی نہ کیچ دیا گیا۔ بالکل صاف اور بے داغ کھیل۔ محمد شامی کو جب اوپر نیچے بائونڈریاں لگیں تو مجھے ایک خدشہ محسوس ہوا۔
بھارت میں مسلمانوں کو پاکستان کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے، اسی لیے وہ مسلمان جو کھیل، سیاست یا سماجی خدمت کے شعبے میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں ان کے پاکستان کی مخالفت میں شدت پسندانہ بیانات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ وہ ایسا نہ کریں تو بھارتی سماج انہیں گنجائش نہیں دیتا۔ محمد شامی کے ساتھ جو ہوا وہ میرے خدشات کے عین مطابق تھا۔ بھارتی شائقین نے ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹا گرام پر محمد شامی کو غدار قرار دے دیا۔ انہیں گالیاں دی گئیں۔ محمد شامی کو صورت حال کا اندازہ اسی وقت ہوگیا تھا جب بھارتی ٹیم میچ کے بعد گرائونڈ میں آئی۔ ٹیم کے سینئر کوچ روی شاستری، مینٹور مہندرسنگھ دھونی اور کپتان ویرات کوہلی پاکستانی کھلاڑیوں سے مل رہے تھے لیکن محمد شامی گرائونڈ میں نہ آئے۔
مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ دو برس سے فوج نے ہر محلے کو محاصرے میں لے رکھا ہے۔ اس دوران کئی واقعات رونما ہوئے، ہر بار بھارت نے کشمیریوں کو جبراً گھروں سے باہر نکلنے سے روک دیا۔ تحریک آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما سید علی گیلانی کی وفات اور تدفین کے موقع پر بھارتی افواج نے جس غیر انسانی طرز عمل کا مظاہرہ کیا بی جے پی اسے کشمیر میں امن قائم ہونے کا نام دیتی ہے۔
پاک بھارت کرکٹ میچ کو مقبوضہ کشمیر میں صرف کھیل کے طور پر نہیں دیکھا جاتا، کشمیریوں کے لیے بھارت کی کسی بھی شعبے میں پاکستان کے ہاتھوں شکست ان کی تحریک آزادی کے لیے ایندھن کا درجہ رکھتی ہے۔ جونہی پاکستان نے میچ جیتا ظلم، جبر، محاصرے اور نسلی امتیازکے شکار کشمیری نوجوان گھروں سے نکل آئے۔ پورے مقبوضہ کشمیر میں آتش بازی ہونے لگی، پاکستان زندہ باد کے نعرے تھے کہ ہر طرف سے سنائی دے رہے تھے۔ اندھیرے میں بھارتی فوجیوں کو اپنے اردگرد پھوٹنے والے انار، ہوائی اور پٹاخوں میں بھارت سے نفرت اور بیزاری کے رنگ بڑے واضح دکھائی دے رہے تھے۔
بھارت نے کرکٹ کو اپنا میدان جنگ بنانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ ٹنڈولکر جیسے کھلاڑیوں کو وہاں انسان نہیں بھگوان کا درجہ ملا ہوا ہے۔ بھارت کھیل ہی کھیل میں کیا کر رہا ہے اس کا اندازہ سوموارکے دن آئی پی ایل میں دو نئی ٹیمیں شامل کرنے کے فیصلے سے ہوتا ہے، ان ٹیموں کی آمد سے آئی پی ایل کو 2 ارب 30 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری ملی ہے۔ کرکٹ بھارت کے لیے صرف کھیل نہیں ایک منافع بخش کاروبار بھی ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس تو ایک ارب ڈالر کے وسائل نہیں اس لحاظ سے دیکھیں تو غیرملکی کھلاڑی وہاں جانے کو ترجیح دیں گے جہاں انہیں زیادہ پیسہ ملے گا۔ انہیں ہمارے جذبات اور کشمیریوں کی حالت زار سے ہمدردی ہو سکتی ہے لیکن وہ اپنا کاروبار ہماری وجہ سے خراب نہیں کریں گے۔
1986ء میں بھارت اور پاکستان کے درمیان شارجہ میں فائنل میچ تھا۔ چیتن شرما اچھا خاصا بائولر تھا۔ پورے ٹورنامنٹ میں اس کی کارکردگی اچھی رہی تھی۔ اس کے لیے وہ دن اچھا نہیں تھا۔ ایسا ہی جیسے شامی کے لئے بد قسمت۔ میچ پر بھارت کی گرفت مضبوط تھی۔ ایک طرف توصیف تھے اور دوسرے اینڈ پر جاوید میانداد۔ توصیف سے ایک رن کی توقع نہ تھی لیکن انہوں نے ایک رن لے کر جاوید میانداد کو بیٹنگ اینڈ پر موقع دیا۔ آخری گیند تھی اور جاوید میانداد نے چھکا لگا کرپاکستان کو میچ جتوا دیا۔ پاکستان سے ہار کے بعد بھارت کے باقی کھلاڑی تو کھیلتے رہے لیکن چیتن شرما کا کیریئر ختم ہوگیا۔
یاد رہے محمد شامی وہی بائولر ہے جس نے 2009ء کے ورلڈ کپ میں مصباح الحق کو آئوٹ کرکے پاکستان کو ہرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ یہ وہی محمد شامی ہے جس نے 2015ء کے ورلڈ کپ میں پاکستان کے چار کھلاڑی آئوٹ کیے۔ اس بار محمد شامی ہیرو نہیں، ہدف ہیں۔ گالیاں تو ویرات کوہلی کو بھی پڑ رہی ہیں تو کیا بھارتی ٹیم اپنے شائقین کے گھٹنے تلے دبی رہے گی۔ بھارتی کرکٹ بورڈ دنیا کا امیر ترین بورڈ ہے لیکن کیا نفرت پر سرمایہ کاری سے بھارت دنیا کی نمبرون ٹیم بن پائی ہے؟