چھانگا اور مانگا دو بھائی تھے۔ انگریز دور میں جن دیہاتیوں نے فرنگی حکومت اور مقامی جاگیرداروں کے خلاف آواز اٹھائی انہیں ڈاکو قرار دیدیا گیا۔ لاہور میں گوہاوا گاوں ہے جو اب ڈی ایچ اے کا حصہ ہے، یہاں امام دین گوہاویا جیسا کردار تھا جو ڈاکو تو نہیں تھا لیکن انگریز اسے جرائم پیشہ بتاتا۔ میں بہت سال پہلے یہ گاوں دیکھنے گیا تھا۔ پھر نظام لوہار کا کردار ہے، ہمارے ضلع قصور کے تھانہ رائے ونڈ میں ملنگی ڈاکو کا ریکارڈ شاید اب بھی ہو۔ ان لوگوں نے عام آدمی کو پریشان نہیں کیا اس لئے ان کی مقبولیت بڑھی۔ ان پر فلمیں بنیں۔ بہر حال یہ سچ ہے کہ کئی جرائم پیشہ لوگ بھی اپنے لئے نرم گوشہ پیدا کرنے کے لئے خود کو حریت پسند بتاتے، فرنگی کو للکارتے۔ ایسا اب بھی ہوتا ہے۔
سرکاری خزانہ لوٹنے والے سیاسی انتقام کا شور کرتے ہیں۔ چھانگا اور مانگا ڈاکو ایسے ہی کردار تھے۔ انگریز کا پنجاب پر قبضہ ہوا تو ریلوے لائن کی تعمیر کے دوران جونی پر کے کروڑہا دیو قامت درخت کاٹ کر ریلوے لائن کو متوازن رکھنے کے لئے بچھا دیے گئے۔ ڈیڑھ صدی ہونے کو آئی آج بھی کئی علاقوں میں ریل کی پٹڑی کے نیچے جونی پر کے شہتیر نو آبادیاتی عہد میں جنگلات کی کٹائی کا نوحہ سناتے ہیں۔ تحصیل چونیاں میں مصنوعی جنگل لگانے کا فیصلہ 1866ء میں ہوا، ریل کی پٹڑی بچھانے سے چند سال پہلے۔ مقصد نارتھ ویسٹ ریلوے کے انجنوں کو ایندھن فراہم کرنا تھا۔
مسٹر بی ربن ٹراپ برطانوی ہند میں جنگلات کے انسپکٹر جنرل تھے۔ انہوں نے 1871ء سے 1872ء تک پورا ایک سال جنگل کے لئے مختص علاقے کا معائنہ کیا۔ انہوں نے جائزہ لیا کہ اس علاقے میں لمبی جڑوں والے درختوں کی افزائش کے کس قدر امکانات ہیں۔ ایسے درخت لکڑی اور ایندھن کے لئے کارآمد ہوتے ہیں۔ 1866ء سے شروع اس منصوبے پر باقاعدہ شجر کاری کا آغاز 1881ء میں شروع ہوا۔ اگلے 15برس تک یہ جنگل بھر پور انداز میں نشوو نما پاتا رہا۔
چھانگا اور مانگا کی کارروائیاں تیز ہو چکی تھیں۔ دونوں بھائی خوف و دہشت کی علامت تھے۔ دولت مندوں کے پاس ان کے لئے بہت کچھ تھا اس لئے وہ کسی کو نہ چھوڑتے۔ غریب لوگ اس بات سے خوش ہوتے کہ ڈاکو انگریز سرکار کے اتحادیوں کو لوٹتے ہیں۔ اس سے کئی جگہ انہیں ہیرو کا درجہ حاصل ہوا۔ پولیس نے عاجز آ کر آپریشن کا آغاز کر دیا۔ چھانگا اور مانگا انگریز کے لگائے اس گھنے جنگل میں چھپ گئے۔ اس جنگل کا نام انگریز حکومت نے تو کچھ اور تجویز کر رکھا تھا لیکن اس کی شہرت چھانگا مانگا کے نام سے ہوئی۔
چھانگا مانگا 12510ایکڑ کے وسیع علاقے پر محیط ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جنگلی حیات کے لئے محفوظ قرار دیا گیا یہ سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ یہاں کیکر، سفیدہ، سفید شہتوت اور توت، شیشم اور دیگر درخت عام ہیں۔ یہاں جاپانی حکومت کے تعاون سے سو ایکڑ میں زیادہ اچھے ریشم والی توت کی اقسام لگائی گئیں۔ توت اور شہتوت کے پتوں سے مقامی سطح پر ریشم کی انڈسٹری نے بہت ترقی کی۔ معروف سیاست دان شیخ رشید کا خاندان جب تک ریشم کے کیڑے پالنے کے کاروبار کی سرپرستی کرتا رہا لوگ آسودہ رہے۔ اب دوہزار بھٹیوں میں سے بمشکل پچاس ہی چلتی ہیں۔ سابق اور موجودہ حکومت نے اس کاروبار کی تباہی اور لوگوں کے بے روزگار ہونے کا نوٹس تک نہیں لیا۔ چھانگا مانگا اب ہلدی کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے، جنگل میں جو اراضی کاشت ہوتی ہے وہاں پیٹھا کاشت کیا جاتا ہے، مٹھائیوں میں عمو ما یہی پیٹھا ہم کھاتے ہیں۔ ایک دانہ پندرہ بیس کلو تک کا ہو جاتا ہے۔
چھانگا مانگا میں سینکڑوں انواع کے پرندے، درندے، چرندے اور حشرات موجود تھے۔ مقامی سیاستدانوں نے اپنی اتھارٹی کا استعمال سرکاری وسائل پر اختیار حاصل کر کے کیا تو یہ جنگل خاص مہمانوں کے لئے شکار گاہ بنا دیا گیا۔ گیم وارڈن اور فارسٹ آفیسر سے لے کر ڈپٹی کمشنر اور ایس پی تک اپنے لگائے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اس لئے کوئی شکایت کہاں اور کس سے کرے۔ یہاں مور، سنہری گیدڑ، نیل گائے، سور وغیرہ کثرت سے دیکھے جاتے رہے ہیں۔
چھانگا مانگا میں سیاحوں کی سہولت کے لئے کئی منصوبے کام کر رہے ہیں۔ یہاں سوئمنگ پول ہے، کشتی رانی کے لئے ایک مصنوعی جھیل ہے، ایک منی چڑیا گھر ہے، چائے خانہ ہے، تفریحی پارک ہے، منی ریل کچھ عرصہ پہلے تک ناصرف لکڑیاں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے کے کام آتی بلکہ سیاح اس کی سواری سے بھی لطف اٹھاتے۔ اب جانے اس کی کیا حالت ہے۔ اس جنگل کا وہ حصہ ناقابل بیان حد تک مسحور کن ہے جہاں سے ایک بڑی نہر مشرق سے بہتی ہوئی مغرب کی طرف آ نکلتی ہے۔ یہ نہر جنگل کو درکار پانی کی ضروریات پوری کرنے کا کام کرتی ہے۔ نہر کے کنارے کچی پٹڑی پر جھکے درخت اور خاموشی کچھ دیر تو سب کچھ بھلا دیتے ہیں۔
چھانگا مانگا ایک معاشی و سماجی ماڈل تھا۔ یہ جنگل علاقے میں رنجیت سنگھ کے اتحادی انگریز دشمن نکئی سرداروں کا زور ختم کرنے کا کام دیتا رہا۔ لوگوں کو متبادل روزگار دے کر سرکار کا حامی بنایا گیا۔ شجرکاری کے اس ماڈل کو ملک کے مختلف علاقوں میں متعارف کرایا جا سکتا تھا۔ یہ جو شہروں میں میاواکی جنگل لگانے کا پراجیکٹ ہے یہ دراصل چھوٹے چھوٹے چھانگا مانگا ہیں۔ ان کی افادیت اپنی جگہ لیکن ماحول کو بچانے کے لئے بڑے جنگل لگانا ضروری ہے۔
ایک مرحوم وزیر اعظم کے ورثاء نے حال ہی میں اپنی سینکڑوں ایکڑ زمین پر جنگل کا مشورہ طلب کیا تو میری کمنی باغبان نے نجی شکار گاہ بنانے کی تجویز دی۔ اس سے فطری وسائل محفوظ ہونے کے ساتھ زمین کے مالکان کو کچھ آمدن ہوتی رہے گی۔ پاکستان میں لوگ صرف رئیل اسٹیٹ کو پیسہ کمانے کا آسان ذریعہ سمجھتے ہیں۔ لوگ اپنے وسائل کو فطرت پر سرمایہ کاری کے لئے استعمال نہیں کر رہے، شاید ان کے قریبی احباب میں ایسے لوگوں کی کمی واقع ہو چکی ہے جو جنگلات اور جنگلی حیات سے متعلق کاروباری فوائد سے واقف ہیں۔ چھانگا مانگا ایک روایت ہے جس کی حفاظت کے لئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔