ذرا چشم تصور سے سوچئے کہ باہر منفی 5درجہ حرارت ہو۔ نہ صرف کڑاکے کی سردی پڑ رہی ہو بلکہ برفباری بھی ہو رہی ہو۔ سرد موسم کی شدت میں ہم رضائیوں کے اندر دبک جاتے ہیں یا آتشدانوں کے سامنے ٹھنڈے ہاتھوں کو سینکتے ہیں۔ ایسے میں دو چار نہیں ہزاروں انسان ہر طرح کی رکاوٹیں عبور کر کے اور اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھ کر نکل آتے ہیں۔ وہ گرتی ہوئی برف کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہ اپنے لہو رنگ جوانوں کو دفنانے جا رہے ہیں۔ ان میں جوان ہی نہیں بوڑھے بھی ہیں، مرد ہی نہیں عورتیں بھی شامل ہیں اور وہ فلک شگاف نعرے لگا رہے ہیں۔ لے کے رہیں گے آزادی چھین کے رہیں گے آزادی، ہمارا ایک ہی مطالبہ ہے، آزادی، آزادی۔
ہندو نواز بھارتی وزیر اعظم نے جولائی 2020ء میں کشمیر کا تاریخی سٹیٹس بدل ڈالا اور اپنے ہی آئین کو پائوں تلے روند ڈالا، اس نے 80 لاکھ کشمیریوں کو اپنے گھروں میں مقید کر دیا، دو چار کشمیریوں کو روزانہ موت کے گھاٹ اتارنے کو معمول بنا لیا، لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوجیوں کو کشمیر کے چپے چپے پر لابٹھایا، کرفیو نافذ کر کے لوگوں کو گھروں میں محصور کر دیا، ٹیلی فون، انٹرنیٹ اور موبائل کی سروس معطل کر دی، حریت کانفرنس کے لیڈروں کو گرفتار کر کے کشمیر سے سینکڑوں میل دور قید تنہائی کے عقوبت خانوں میں نظر بند کر دیا۔ کشمیری رہنما یاسین ملک اور شبیر احمد شاہ کو دہلی کی تہاڑ جیل میں پابجولاں کر دیا۔ سیدعلی گیلانی کو سری نگر میں ان کے گھر میں نظر بند کر رکھا ہے، جہاں کوئی ان سے نہیں مل سکتا۔ میری تازہ ترین اطلاع کے مطابق سید صاحب اس پیرانہ سالی میں کئی بیماریوں کے نرغے میں ہیں اور انہیں ادویات نہیں مل رہیں۔ مودی نے کالجوں اور سکولوں کے ہزاروں بچوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر دور دراز جیلوں میں پھینکوا دیا ہے۔ ان ظالمانہ و جابرانہ اقدامات کا مقصد یہ تھا کہ کشمیری یہ ظلم برداشت نہ کر پائیں گے اورسرنگوں ہو جائیں گے۔ نتیجہ اس کے الٹ ہوا اور اب ہر مظلوم کشمیری سر جھکا کر نہیں سر اٹھاکر نعرہ آزادی بلند کرنے لگا ہے۔
بھارت میں ہندو اعتدال پسند قائدین بھی موجود ہیں۔ یشونت سنہا بی جے پی کے ایک قابل احترام لیڈر تھے۔ یشونت سنہا کی سربراہی میں متوازن و معتدل بھارتی جرنیلوں، افسروں اور صحافیوں کے فورم کے کچھ ارکان نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کا دورہ کیا۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں لکھا کہ انسانی حقوق کی دھجیاں اڑا کر اور کشمیریوں پر ظلم کے پہاڑ توڑ کر مودی سرکار انتہائی خطرناک کھیل کھیل رہی ہے۔ اس کے ردعمل میں ہر کشمیری نوجوان آتش فشاں بنتا جا رہا ہے۔ انہوں نے مودی کی حکومت کو عقل کے ناخن لینے اور کشمیریوں کو ان کے حقوق لوٹانے کی تلقین کی۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر سنگھ مودی کی متعصبانہ اور غیر دانشمندانہ پالیسیوں کی بنا پر سارے بھارت میں نہ صرف مسلمان بلکہ غیر متعصب ہندو بھی اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ سکھ اور عیسائی اقلیتیں تو پہلے ہی مودی کے رویے سے بے حد شاکی ہیں۔ مودی کا شہریت بل مسلمانوں کے خلاف ہے اس بل کے مطابق خطے کے کسی بھی ملک سے آنے والے ہر شخص کو بھارتی شہریت دینے کا اعلان کیا گیا ہے سوائے مسلمانوں کے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ بھارت میں بسنے والے بیس بائیس کروڑ مسلمان کہ جو بھارت میں ڈرے سہمے ہوئے زندگی گزار رہے تھے وہ بھی نڈر ہو کر میدان میں نکل آئے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کی سیاسی پارٹیاں ایک بار پھر منظم اور مستحکم ہو گئی ہیں۔ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے ساڑھے پانچ ہزار ارکان و کارکنان پابند سلاسل کر دیے گئے ہیں۔ اپنے ایک تازہ ترین بیان میں امیر جماعت اسلامی ہند نے کہا کہ مسلمان اس ملک کا حصہ ہیں اور اسلام پر پوری طرح عمل کرتے ہوئے اور اسلامی شناخت اور اسلامی تشخص رکھتے ہوئے وہ اس ملک کا حصہ رہنا چاہتے ہیں۔ وہ ہندوستان کے شہری ہیں اور دنیا کی کوئی طاقت انہیں ہندوستانی شہریت کی شناخت سے محروم نہیں کر سکتی۔ فرقہ پرست طاقتیں چاہتی ہیں کہ اس ملک کے مسلمان باقی ہندوستانیوں سے الگ تھلگ ہو جائیں۔ بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کھل کر متعصبانہ شہریت بل کے خلاف شہر شہر تحریک چلا رہی ہے۔ جہاں تک کانگریس کا تعلق ہے وہ بھی اس بل کی مخالفت تو کر رہی ہے مگر بھارتی آئین جو کانگرسی لیڈر شپ کے جواہر لعل نہرو جیسے آبائو اجداد نے مرتب کیا تھا، اس کی پامالی پر کانگریس کو جتنا شدید ردعمل دینا چاہیے تھا وہ سامنے نہیں آ رہا۔ اب بھارت کے ہر کوچہ و بازار میں جہاں شہریت بل کے خلاف احتجاج کیا جا رہا ہے وہاں کشمیریوں کے حقوق کے لئے بھی آواز بلند ہو رہی ہے۔ نریندر مودی کے اقدامات نہ صرف آئین شکن ہیں بلکہ بھارت شکن ہیں۔ مودی نے کشمیر اور بھارت میں جس طرح سے انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی توہین اس کے نتیجے میں دنیا کے اکثر ممالک میں اور ہر فورم پر مسئلہ کشمیر اجاگر ہو گیا ہے۔ سکیورٹی کونسل، یورپین یونین برٹش پارلیمنٹ ہر جگہ کشمیریوں کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں اور نریندر مودی کی شناخت اب دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے وزیر اعظم کی نہیں نازی ازم کا احیاء کرنے والے فاشسٹ کے طور پر کی جا رہی ہے۔
قارئین پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں ٹرمپ کے کشمیر پر ثالثی قبول کر لینی چاہیے؟ ٹرمپ نے دو بار عمران خان سے دوستی کا دعویٰ کیا ہے۔ خان صاحب کو معلوم ہونا چاہیے کہ
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
مشرق وسطیٰ کے لئے ٹرمپ نے جو امن منصوبہ دیا ہے اس میں فلسطین کی بندر بانٹ ہے اور قبلہ اول و مسجد اقصیٰ کے علاقے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کا اعلان ہے۔ مغربی کنارے کا 30 فیصد بھی یہودی ریاست کو دے دیا گیا۔ ٹرمپ کی یہ ثالثی دیکھ کر شکریے کے ساتھ ان کی پیشکش قبول نہ کی جائے اور ان سے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر بھارت سے عمل کروانے کا مطالبہ کیا جائے۔