Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. Bharat Ke Jarehana Azaim

Bharat Ke Jarehana Azaim

پاکستان کی سلامتی کو بھارت سے سنگین خطرات لاحق ہیں اور کسی محدود جنگ کے خطرات ہمارے سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ گزشتہ دو ہفتوں سے پاکستانی افواج ریڈ الرٹ پر ہیں اور سرحدوں پرچوکس ہیں۔ بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ اگلے روز پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے انڈیا کو یاد دلایا کہ پاکستا نی قوم ایک ایٹمی طاقت ہے جو کسی جارحیت کا بھرپور جواب دے گی۔ ایٹمی صلاحیت کا ذکر ہی کرنا سفارتی زبان میں ایک سخت دھمکی ہے۔ اگلے روزوزیرخارجہ شاہ محمود قریشی نے یہ انکشاف کیا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر میں ایک فالس فلیگ آپریشن کرنے کی منصوبہ بندی کرچکا ہے جس کے بعد وہ پاکستان کواسکا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ہمارے ملک میں سرجیکل اسٹرائیک کرے گا۔ فالس فلیگ آپریشن کے معنی ہیں کہ کوئی ملک خود سے اپنے اندر خفیہ انداز میں کوئی تخریبی یا دہشت گردی کی کاروائی کرے اور اسکا الزام مخالف فریق پر لگا دے۔

شاہ محمود قریشی نے یہ بھی کہا کہ بھارت یہ فوجی کارروائی کرنے کے لیے اپنے ساتھی ممالک کی اجازت کا انتظار کررہا ہے۔ انہوں نے ان ملکوں کا نام تو نہیں لیا لیکن واقفان حال کو علم ہے کہ ان کا اشارہ امریکہ اور اسرائیل کی طرف تھا جن کی مدد سے گزشتہ برس بھارت نے بالاکوٹ پرناکام سرجیکل اسٹرائیک کی تھی۔ وزیراعظم کے قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے بھی انہی خیالات کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان کے پاس قابل اعتماد انٹیلی جنس رپورٹس ہیں کہ بھارت سرجیکل اسٹرائیک کی تیاری کررہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت نے پاکستان کیخلاف کسی قسم کی جارحیت کی تواسکے نتائج بھیانک ہوسکتے ہیں جس سے پورے خطہ بلکہ پوری دنیا کا امن خطرہ میں پڑ جائے گا۔ بھارت کی حالیہ منصوبہ بندی کا ایک پس منظر ہے۔ بھارت کو گزشتہ سال فروری میں بالاکوٹ پر ناکام حملہ کے بعد پاکستان کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانی پڑی تھی۔ پاکستان نے اسکے دو جنگی طیارے مار گرائے تھے اور ایک پائلٹ کو گرفتار کرلیا تھا۔ اسوقت بھارت کے جنونی وزیراعظم نریندرا مودی نے اپنی قوم کے سامنے اپنی شرمندگی مٹانے کو کہا تھا کہ اگر رافیل طیارے ہوتے تونتیجہ مختلف ہوتا۔ اب فرانس کے جدید رافیل طیارے بھارت پہنچنا شروع ہوگئے ہیں جس سے اسکی ائیر فورس کے حوصلے بلند ہوئے ہیں۔ بھارت کچھ عرصہ سے اسلحہ کے بڑے انبار لگارہا ہے۔

روس، امریکہ اور فرانس سے اربوں ڈالر کے میزائل ڈیفنس سسٹم، جنگی طیارے، جدید ترین ڈرونز، جنگی ہیلی کاپٹرز اور دیگر ساز و سامان خرید رہا ہے۔ لیکن اسکے باوجود وہ چین سے جنگ نہیں کرسکتا کیونکہ چین کی صلاحیت اس سے کہیں زیادہ ہے۔ لداخ میں دونوں ملکوں کے درمیان اس سال جو جھڑپیں ہوئیں اس میں بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ عارضی سرحد کے معاملہ پر وہ چین سے اپنا موقف نہیں منواسکا۔ سینکڑوں میل پر مشتمل علاقہ چین کے قبضہ میں چلا گیا۔ نریندرا مودی خود کو ایک عظیم ہندورہنما کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن چین سے ذلت اٹھانے کے بعد اسے اپنی قوم کے سامنے شرمندگی کا سامنا ہے۔ کورونا وبا پھوٹنے پر بھی اسکی حکومت ٹھیک سے انتظامات نہیں کرسکی۔ آبادی کے بڑے طبقہ کو اس بدانتظامی کے باعث شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ بھارت کی معیشت کابرا حال ہوچکا ہے۔ اس پر مستزاد نریندرا مودی نے ایک ایسی زرعی پالیسی کا اعلان کردیا جس سے چھوٹے کسان اپنی زمینوں سے محروم ہوجائیں گے۔ انکی مراعات ختم ہوجائیں گی۔ وہ بڑی بڑی کاپوریشنوں کے محتاج ہوجائیں گے۔ پنجاب کے سکھ کسان اس پر سخت احتجاج کررہے ہیں۔

مودی کا دوست ٹرمپ امریکہ میں الیکشن ہار چکا ہے۔ دس جنوری کو نئے امریکی صدر جو بائیڈن حلف اٹھالیں گے۔ افغانستان سے امریکی فوجیں نکل رہی ہیں ۔ اگر طالبان اور اشرف غنی کسی معاہدہ پرپہنچ جاتے ہیں تو افغانستان میں انڈیا کی سرمایہ کاری ڈوب جائے گی۔ پاکستان نے بھی عالمی برادری کے سامنے انڈیا کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت پر مبنی دستاویزات کا محضر نامہ(ڈوزئیر)رکھ دیا ہے۔ یورپی یونین کی ڈس انفو لیب نے بھارتی نیٹ ورک کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے کہ وہ کس طرح پندرہ برس سے پاکستان کو غلط طور پر بدنام کرنے کی خاطر جھوٹی پروپیگنڈہ مہم چلاتا رہا۔ غرض چاروں طرف سے نریندرامودی کی حکومت مشکلات میں گھری ہے۔ بھارت کی قیادت اپنی داخلی ناکامیوں اور چین کے ہاتھوں ہزیمت پر پردہ ڈالنے کی خاطر پاکستان کے خلاف جارحیت کا سہارا لینا چاہتی ہے تاکہ پاکستان کے اندر کوئی اچانک چھوٹا موٹا حملہ کرکے اسے اپنے میڈیا کے ذریعے بڑھا چڑھا کر بیان کیا جائے اور اپنی فتح کے طور پر پیش کیا جائے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ اِن دنوں عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں سرد مہری ہے۔ وہ زبانی جمع خرچ کے سوا پاکستان کی سفارتی سطح پر مدد کو نہیں آئیں گے۔ 10 جنوری تک جب تک ٹرمپ امریکہ کا صدر ہے۔ وہ نریندرا مودی کا ساتھ دیگا۔

اسرائیل کی انٹیلی جنس ایجنسی موساد بھارت کی مددگار ہے۔ روس کے بھارت سے بہت دوستانہ باہمی تعلقات ہیں۔ سب سے اہم، پاکستان میں اپوزیشن رہنما نواز شریف کے بھارتی اسٹیبلشمینٹ سے گہرے روابط ہیں۔ وہ بھی عمران خان کی حکومت کو نیچا دکھانا چاہتے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کے پاس دو راستے ہیں۔ ایک تو قوم متحد ہوکر بھارت کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے۔ اگر بھارت آزاد کشمیر میں حملہ کی جرأت کرتا ہے تو پاکستان بھارت میں کسی بھی جگہ بھرپور جوابی کاروائی کرے۔ بھارت کیلئے محاذ محدود نہ رہے۔ اسے سخت سبق سکھایا جائے۔ دوسرے، پاکستان کو چین کے معاملہ میں گومگو کی کیفیت سے باہر آنا چاہیے۔ ہمیں امریکہ اورچین کے درمیان توازن کی پالیسی کو ترک کرکے پوری طرح چین کے ساتھ اتحاد میں شامل ہونا چاہیے۔ پاکستان کو اب امریکہ سے اپنی توقعات ختم کرلینی چاہئیں۔ وہ پوری طرح انڈیا کا شریک کار، سرپرست اور اتحادی بن چکا ہے۔

پاکستان اور چین کے درمیان ایسا دفاعی معاہدہ کیا جائے کہ پاکستان پر کسی حملہ کو چین اپنی سلامتی پر حملہ تصور کرے۔ وہ بھارت اورپاکستان کے درمیان لڑائی میں غیرجانبدار نہ رہے۔ پاکستان کی سلامتی اور تحفظ کا تقاضا ہے کہ چین کے ساتھ قربت کوہنگامی بنیادوں پر مزید بڑھایا جائے۔ بصورت دیگر، ہم سے چھ گنابڑا بھارت آج نہیں تو کل کسی وقت بھی ہمارے خلاف مہم جوئی ضرور کرے گا۔ پاکستان تن تنہا امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ نہیں کرسکتا۔ ہمیں ایک قابل اعتماد اتحادی کی ضرورت ہے۔