Wednesday, 20 November 2024
  1.  Home/
  2. 92 News/
  3. France Mein Musalmano Per Sakhtian

France Mein Musalmano Per Sakhtian

فرانس سے مسلمانوں کیلئے اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرانسیسی ریاست اور معاشرے کا مسلمانوں کے بارے میں روّیہ سخت، نفرت انگیز اور معاندانہ ہوتا جارہا ہے۔ فرانس مسلمانوں کے تشخص اور اقدار کو برداشت کرنے کو ہرگز تیار نہیں۔ تازہ ترین واقعہ یہ ہے کہ فرانس کی حکومت نے مسلمانوں کوزبردستی فرانس کی سیکولر تہذیب اور اقدار کے تابع کرنے کی خاطر ایک مسودۂ قانون کی منظوری دی ہے جسکو جمہوریہ کے اصولوں کے نفاذ کا قانون، کہا گیا ہے۔ جنوری میں یہ قانون پارلیمان سے منظور کروایا جائے گا۔ گواس بل میں اسلام یا مسلمانوں کا نام استعمال نہیں کیا گیا لیکن اسکی ساری شقیں مسلمانوں سے متعلق ہیں۔ خو د فرانس کے وزیراعظم جین کاسٹکس اور دیگر وزراء نے اسکی وضاحت کرتے ہوئے میڈیا کو بتایا ہے کہ نئے قانون کا مقصدمذہبی بنیاد پرستی سے نجات حاصل کرنا ہے۔ وزیراعظم کاسٹکس کا کہنا تھا کہ ریڈیکل اسلام ازم، فرانس کی جمہوریہ کا دشمن نظریہ ہے اور اسکا مقصد فرانس کے عوام کو تقسیم کرنا ہے۔ مسلمان فرانس کی آبادی کا آٹھ فیصدہیں، تعداد میں ساٹھ لاکھ۔ ان میں سے اکثریت کا تعلق شمالی اور مغربی افریقہ کے اُن ممالک سے ہے جیسے الجیریا، تیونس وغیرہ جنہیں ماضی میں فرانس نے نوآبادی بنایا۔

نئے مسودہ ٔقانون کے تحت ہر کمیونٹی کی تنظیم کو فرانسیسی ریاست کی اقدار سے وفاداری کا اقرارنامہ دینا ہوگا جسکا مطلب ہے مسلمانوں کو سیکولرازم اور فرانس کے کلچرکو اختیار کرنا ہوگا۔ ان تنظیموں کے چندہ لینے کے ذرائع پر حکومت سخت کنٹرول عائد کرے گی۔ اسی قانون کے تحت آن لائن نفرت انگیز تقریر کرنے پرپابندی ہو گی۔ اسکا مطلب ہے کہ اگر فرانس میں کوئی شخص اسلام کی تعلیمات یا پیغمبراسلام حضرت محمد ﷺ کے بارے میں توہین آمیز گفتگو کرتا ہے یاانکا نعوذباللہ مذاق اُڑاتا ہے تو کوئی فرانسیسی مسلمان اُس پر تنقید نہیں کرسکتا۔ فرانس میں اکثر یہ مذموم حرکات کی جاتی ہیں۔ قانون یہ بھی کہتا ہے کہ ملک کا کوئی ڈاکٹر کسی لڑکی کو باکرہ ہونے کا سرٹیفکیٹ نہیں دے سکتا۔ اسکا اطلاق بھی مسلمانوں پر ہوگا کیونکہ بعض مسلمان مرد شادی سے پہلے یہ تصدیق کرواتے ہیں۔ نئے قانون کے تحت بچوں کو اسکول بھیجنے کی بجائے گھروں میں تعلیم دینا ممنوع ہوگا۔ کئی مسلمان اپنے چھوٹے بچوں کو اسکول بھیجنے سے گریز کرتے ہیں تاکہ وہ فرانسیسی معاشرہ کی لادینی تہذیب اور اقدار نہ سیکھیں اور انہیں گھر پر اسلامی اقدار پر مبنی تعلیم دیتے ہیں۔ اب اسے جرم قرار دے دیا گیا ہے۔ ہر مسلمان کے لیے لازمی ہوگا کہ وہ اپنے چھوٹے بچہ کو اسکول بھیجے۔ یہ نیا قانون فرانس کے صدر ایمونئیل میخوں کے دو ماہ پہلے دیے گئے ایک بیان کی عملی تعبیر ہے۔

فرانس میں مسلمانوں کے بارے میں تعصب، امتیاز اورخوف و نفرت کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ دو ہزار دس میں فرانس نے مسلمان عورتوں پرعوامی جگہوں پر حجاب یا دوپٹہ اوڑھنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ جمعہ کے روز جو لوگ مسجدمیں جگہ کی کمی کی وجہ سے گلی میں صف بنا کر نماز ادا کریں انہیں گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ تاہم مسلمانوں کے خلاف اقدامات کی تازہ لہراس سال چودہ اکتوبر کے اس واقعہ کے بعد آئی ہے جس میں ایک نوجوان چیچن نژاد لڑکے نے پیرس کے نواح میں ایک اسکول ٹیچر سیموئل پیٹی کو چھری سے قتل کرکے اسکا سر قلم کردیا تھا۔ اسکول ٹیچر نے اپنے شاگردوں کو اظہار رائے کی آزادی کی مثال دیتے ہوئے رسولِ اکرم ﷺ کے توہین آمیز کارٹون دکھائے تھے۔ پولیس نے مبینہ قاتل کو بھی موقع پر گولیاں مار کر ہلاک کردیا تھا۔ یہ وہ کارٹون تھے جو بدنام زمانہ چارلی ہیبڈو میگزین نے پانچ برس پہلے شائع کیے تھے۔ اسکے ردعمل کے طور پر اس میگزین کے دفتر پر حملہ ہوا تھا جس میں بارہ افراد مرگئے تھے۔ اسکول ٹیچر کے قتل کے خلاف پورے فرانس میں لاکھوں لوگوں نے مظاہرے کیے اور مسلمانوں سے نفرت کا اظہار کیا۔ فرانس کے صدر نے اس انفرادی واقعہ پر محتاط بیان دینے کی بجائے ایسا بیان دیا جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ حملہ اسلامی دہشت گردی کی مخصوص مثال، ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اسلام بحیثیت مذہب پوری دنیا میں بحران سے دوچار ہے۔ ، انہوں نے بڑے تکبر سے نصیحت کی کہ اسلام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ گویا یہ قتل ایک شخص کا فعل نہیں تھا بلکہ اسلام بحیثیت مذہب اور مسلمان اجتماعی طور پر دہشت گردی کے ذمہ دار ہیں۔ اس واقعہ کے بعد اظہار رائے اور سیکولرازم کے مظاہرہ کے طور پر فرانس بھر کی عمارتوں پرتادیر توہین آمیز کارٹونوں کی نمائش کی گئی۔ حکومت نے ایک بڑی مسجد کو چھ ماہ کے لیے بند کردیا۔ مسلمانوں کی نگرانی سخت کردی گئی ہے خاص طور سے وہ لوگ جو مساجد میں نماز پڑھنے جاتے ہیں۔ فرانس کی وزارت داخلہ نے پیغام جاری کیا ہے کہ پرتشدد ریڈیکلائزیشن، اسلام ازم۔۔ اگر آپکو کسی شخص کے بارے میں شبہ ہے کہ وہ اس میں ملوث ہے تو اس ٹال فری نمبر پر رابطہ کریں۔

اس وقت فرانس میں مسلمانوں کو اسطرح ولن بنا کر پیش کیا جارہا ہے اور انکے خلاف ایسی نفرت پھیلائی جارہی ہے جیسے نازی جرمنی میں یہودیوں کے خلاف مہم چلائی گئی تھی۔ فرانس کے مسلمان نواحی آبادیوں میں شہری سہولیات سے محروم الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔ امتیازی سلوک کے باعث ان میں بیروزگاری کی شرح بہت زیادہ ہے۔ فرانس میں انتہائی دائیں بازو کی نسل پرست جماعت، گروپس اور بیانیہ عوام میں مقبول ہوتے جارہے ہیں۔ اٹھارہ ماہ بعد ملک میں صدارتی الیکشن ہونے جارہے ہیں۔ صدر میخوں کو ڈر ہے کہ انتہائی دائیں بازو کی رہنما اور مسلمانوں کیخلاف نفرت انگیز مہم چلا کر مقبولیت حاصل کرنے والی خاتون رہنما لا پین انکو شکست دے دیں گی۔ اس لئے وہ بھی انکی تقلید میں مسلمانوں کے خلاف اپنا رویہ سخت کرتے جارہے ہیں۔ فرانس اور یورپ کے دیگر ممالک میں مسلمانوں کے خلاف چلنے والی مہم اور سرکاری اقدامات کا سادہ الفاظ میں مقصد یہ ہے کہ مسلمان اپنا دین اور جداگانہ تشخص ترک کردیں اور یورپی تہذیب کو اختیار کرلیں۔