یہ سوال ذہن میں گونجتا ہے کہ ہمارے لوگ اتنے با صلاحیت ہیں کہ انہوں نے ایٹم بم، میزائل، جنگی جہاز بنا لیے لیکن ہم اپنے ملک میں اتنے صنعتی کارخانے کیوں نہیں لگا سکے کہ سب لوگوں کو روزگار مل سکے۔ غربت کا خاتمہ ہو اور ہماری حکومت کو اتنے ٹیکس ملیں کہ اسے دنیا سے قرض مانگ کر گزارا نہ کرنا پڑے۔ زیادہ مشکل کام کرلیے لیکن نسبتاًآسان کام کیوں نہیں کرسکے؟
گزشتہ ہفتہ پاکستان نے اعلیٰ ٹیکنالوجی کے حامل ملٹی لانچ راکٹ نظام بنا کر اسکا کامیاب تجربہ کیا۔ اسے فتح اوّل، کا نام دیا گیا ہے۔ اس نظام کی مدد سے ہماری فوج دشمن ملک کے اندر گہرائی میں تقریباً ڈیڑھ سو کلومیٹر تک روایتی گولہ بارود سے کسی ہدف کو نشانہ بناسکتی ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان مختلف فاصلوں تک مار کرنے والے بیلسٹک اور کروز میزائل بنا کر انکے کامیاب تجربے کرچکا ہے جو روایتی ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ ایٹمی ہتھیار بھی دشمن پر گرانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہماری دفاعی اداروں نے جدید ترین جنگی طیارے ایف تھنڈر بھی بنائے ہیں۔ اب انکو مزید جدید بنانے کا کام بھی شروع کردیا گیا ہے۔ یہ طیارے دوسرے ملکوں کو بھی فروخت کیے جارہے ہیں۔ ایٹم بم کے کامیاب تجربے کیے ہوئے ہمیں بائیس سال گزر گئے۔ پاکستان نے بہت چھوٹے ایٹم بم بھی بنالیے جنکا نقصان دہ اثر ایک ڈیڑھ کلومیٹر تک جنگ کے میدان تک محدود ہوتا ہے۔ ان مہلک ہتھیاروں سے جارح فوج کو بھسم کیا جاسکتا ہے۔ انہیں ٹیکٹیکل ایٹمی ہتھیار کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی اس شاندار کامیابی کی وجہ سے بھارت کے سرجیکل اسٹرائیک اور کولڈ اسٹارٹ ڈاکٹرائن ایسے عزائم اپنی موت آ پ مر گئے۔ بھارتی میڈیا نے لکھا کہ بھارتی فوج پاکستان میں داخل تو شائد ہوجائے گی لیکن واپس نہیں آسکے گی۔ دفاعی اور جنگی میدان میں ہمارے ملک کی کامیابیاں شاندار ہیں۔ سب سے اہم، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں افواج کو زبردست فتح ہوئی۔ اس نے عظیم قربانیاں دے کر اپنے ملک کو لیبیا، شام اور عراق کی طرح خانہ جنگی کا شکار ہونے سے بچا لیا۔
ایک طرف تو پاکستانی قوم کی ایسی شاندارکارکردگی ہے کہ وہ دفاعی، جنگی میدان میں دنیا کے بڑے بڑے ممالک کی صف میں شامل ہے لیکن دوسری طرف ہماری ناکامیوں کی طویل فہرست ہے۔ سب سے بڑی کمزوری ہماری معیشت ہے۔ ہر برس مانگے تانگے کے پیسوں پروفاقی اورصوبائی حکومتیں اپنا بجٹ بناتی ہیں۔ ہر چند سال بعد آئی ایم ایف ایسے عالمی مالی اداروں اور دوست ملکوں کے سامنے جھولی پھیلانا پڑتی ہے کہ ہماری مدد کرو بصورتِ دیگرہم نادہندہ ہوجائیں گے، پہلے سے لیے ہوئے قرضوں کی قسطیں بھی نہیں دے سکیں گے اور ہمارے پاس ترقیاتی کاموں کے لئے ایک دھیلا بھی نہیں ہوگا۔ حکومت کی آمدن اس کے اخراجات کے مقابلہ میں آدھی ہے۔ بنگلہ دیش جو انیس سو نوّے کی دہائی تک پاکستان سے اقتصادی میدان میں بہت پیچھے تھا۔ آج وہ ہم سے آگے ہے۔ اس نے صنعتکاری پرتوجہ دی۔ دو ہزار انیس میں اُس کی برآمدات اڑتیس ارب ڈالر تھیں۔ ہمارے ملک کی صرف تئیس ارب ڈالر۔ بنگلہ دیش کی مجموعی سالانہ پیداوار پاکستان سے بڑھ چکی ہے حالانکہ اسکی آبادی ہم سے تقریباً چھ کروڑ کم ہے۔ جب بنگلہ دیش ٹیکسٹائل، چمڑے کی مصنوعات، کیمیکل کے کارخانے لگا رہا تھا تو پاکستان موٹرویز بنارہا تھا۔ عالیشان ائیرپورٹس ٹرمینل بنارہا تھا۔ وہ بھی قرضے لیکر۔ فرق یہ ہے کہ کارخانوں سے مسلسل روزگار ملتا ہے۔ حکومت کو ٹیکس ملتا ہے۔
صنعتی مصنوعات کی برآمدات سے زرِمبادلہ ملک کے اندر آتا ہے۔ جبکہ موٹرویز سے یہ سب کچھ نہیں ہوتا۔ اُلٹا عوام پر ٹیکس لگا کر اُنکا قرضہ واپس کرنا پڑتا ہے یا قرض واپس کرنے کو مزید قرض لینا پڑتا ہے۔ اگر ہم پہلے صنعتی کارخانے لگاتے۔ ان سے دولت پیدا ہوتی تو اس سے موٹرویز بنالیتے لیکن ہم نے اُلٹی گنگا بہائی۔ کارخانے نہ سہی پانی کا کوئی ڈیم بنالیتے۔ اس سے سستی بجلی بنتی۔ نہریں نکلتی تو بنجر رقبہ زیرِ کاشت آتا۔ ہم نے شو بازی، دکھاوے کی زندگی کو اپنا شیوہ بنالیا ہے۔ ہم نے ٹھوس ترقی کی بجائے کھوکھلے پن کو ترجیح دی۔ جب پاکستان کے امریکہ سے تعلقات اچھے ہوئے تو وہاں سے اربوں ڈالر سالانہ گرانٹ(عطیہ) ملنا شروع ہوگئی۔ جنرل ایوب خان، جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں امریکہ سے تعلقات اچھے تھے۔ گرانٹ مل رہی تھی۔ معاشی ترقی کی شرح بھی پانچ سے سات فیصد ہوجاتی تھی۔ جب امریکہ سے تعلقات میں بگاڑ آیا، ڈالرز ملنا بند ہوئے، ہماری معیشت اپنی اوقات پر آگئی۔ ترقی کی شرح مشکل سے دو سے تین فیصد پر آگئی جیسا اب ہے۔ نواز شریف کے وزیرخزانہ نے ایک اورچالاک طریقہ نکالا تھا۔ درآمدات کے دروازے پٹ کھول دیے۔ تجارت اور دکانداری خوب چمکنے لگی۔ جب تجارت بڑھتی ہے تو مجموعی پیداوار میں اسے بھی شامل کیا جاتا ہے۔ یہ تاثر پیدا ہوتا ہے کہ ملک ترقی کررہا ہے۔ حالانکہ یہ ترقی عارضی، ناپائیدار ہوتی ہے اور بالآخر زرمبادلہ کا بحران پیدا کرتی ہے۔ ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوا۔
اصل معاشی ترقی وہ ہوتی ہے جس میں زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ ہو۔ ملک میں تعلیم یافتہ، ہنر مند افراد کی تعداد تیزی سے بڑھے۔ جنرل ایوب خان کے زمانے میں حکومت خود کارخانے لگا کر نجی شعبہ کو دیتی تھی کیونکہ ہمارے ملک میں صنعتکاری کا تجربہ رکھنے والے افراد بہت کم تھے۔ یہ واحد دور تھا جب ملک میں پائیدار اقتصادی ترقی کی بنیاد رکھی گئی۔ اسکے بعد ہر سوِل اور فوجی حکومت نے ایڈہاک ازم کا راستہ اختیار کیا۔ آج ہم جس معاشی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں یہ گزشتہ پچاس برسوں کی مجرمانہ پالیسیوں کا نتیجہ ہے۔ حال اتنا خراب ہے کہ ہم اپنی کپاس کی فصل تباہ کرچکے۔ اسکی پیداوار پہلے سے نصف رہ گئی ہے۔ گندم کی پیداوار آبادی کی ضرورت سے کم ہوگئی ہے۔ دالیں بیرون ملک سے منگواتے ہیں۔ کھانے کا تیل ہم باہر سے منگواتے ہیں حالانکہ ہمارے کھیت کھلیانوں میں اس تیل کی متعدد فصلیں اگائی جاسکتی ہیں۔ غرض معیشت کے ہر شعبہ میں ناکامی ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ دوسری طرف آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسکے ساتھ بیروزگاری بھی۔ بیروزگاروں میں بھی ایسے لوگ زیادہ ہیں جو ہنرمند نہیں اعلی تعلیم یافتہ نہیں۔
جدید معیشت میں انکا کوئی مصرف نہیں۔ حکومت کتنے لنگر خانے کھولے گی؟ پاکستانی معیشت ایک ایسا مریض جسے متعدد سنگین امراض لاحق ہیں۔ معاشی پسماندگی کا کوئی ہنگامی علاج بھی نہیں۔ آج اگر ریاست سنجیدگی سے معیشت پر توجہ دے، پالیسیاں ٹھیک کرے، تعلیم، ہنر سکھانے والے اداروں اورصنعتوں کے قیام پر بھاری سرمایہ کاری کرے تو پانچ سے دس برس بعد اسکے اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ معیشت کی طویل المدت درستگی ہماری بقا کا معاملہ ہے۔ اگر ریاست نے اس پر توجہ نہیں دی تو کچھ سال بعدنوجوان بیروزگاروں کے لشکر ہونگے اور خدانخواستہ خانہ جنگی کا ماحول ہوگا۔ کیا ہمارے بیان بازسیاستدانوں میں اتنی بصیرت اور دُور اندیشی ہے کہ وہ اس چیلنج سے نپٹ سکیں؟