عمران خان کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالے تقریبا ًاڑھائی سال ہوگئے۔ پہلے دن سے انہیں اپوزیشن کے یہ طعنے سننے پڑ رہے ہیں کہ انہوں نے منتخب ہونے سے پہلے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا یہ تنقید بڑھتی گئی۔ حالانکہ کوئی بھی حکومت اپنے منشور اور پروگرام پر اقتدار میں آتے ہی فوراًعمل درآمد نہیں کراسکتی۔ عام طور سے جمہوری نظام میں کسی حکومت کو اپنے منصوبے مکمل کرنے میں چار پانچ برس لگ جاتے ہیں۔ پہلے دو برسوں میں حکومتیں ایسے مشکل اقدامات کرتی ہیں جو عوام میں غیرمقبول ہوں لیکن ملک کے دیرپا مفاد میں ہوں۔
منتخب حکومت کو پانچ سال کا دورانیہ اسی لیے مقرر ہے کہ وہ اس عرصہ کو نئی پالیسیاں بنانے اور ان پر عمل کرانے کیلیے استعمال کرسکے۔ اگر وہ اس عرصہ میں اپنے منشور پر عمل نہ کرسکے تو الیکشن میں عوام اُسے مسترد کرسکتے ہیں۔ اسکی متبادل پارٹی کو اقتدار میں لاسکتے ہیں۔ لیکن اپوزیشن عمران خان کو اپنی مدت ِاقتدار مکمل نہیں کرنے دینا چاہتی۔
انیس سو نوّے کی دہائی میں مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی ایک دوسرے کی حکومتیں وقت سے پہلے گرانے کا جو گھناؤنا کھیل کھیلتی تھیں اب وہ دونوں متحد ہوکر تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف کھیل رہی ہیں۔
ماضی میں اگر مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی کے ادوار کے پہلے دو اڑھائی برسوں کو دیکھا جائے تو انکی کارکردگی بھی خاصی بُری تھی۔ ہم پیپلز پارٹی کی آخری حکومت (2008-13) کے دن یاد کریں تو اسکے پہلے سال میں مہنگائی کی شرح سرکاری اعداد و شمار کے مطابق بیس فیصد سے زیادہ تھی اور دوسرے برس میں چودہ فیصد۔
پیپلز پارٹی نے بھی عالمی مالیاتی فنڈ(آئی ایم ایف) سے قرض لینے کا معاہدہ کیا تھا۔ اس دور میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ اتنی زیادہ تھی کہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں روزانہ بارہ سے بیس گھنٹے تک بجلی نہیں ملتی تھی۔ ہر روز شہر شہر، قصبہ قصبہ احتجاجی مظاہرے ہوا کرتے تھے۔ پیپلزپارٹی کے پانچ برسوں میں معاشی ترقی کی اوسط شرح سوا تین فیصد رہی۔ کچھ مالی سال تو ایسے تھے کہ معاشی ترقی کی شرح دو فیصد سے بھی کم تھی۔
پیپلزپارٹی نے اپنی مقبولیت بڑھانے کیلیے صرف ایک کام کیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہیں بہت زیادہ بڑھا دیں۔ ظاہر ہے قومی خزانہ اور ٹیکس گزاروں پر بہت بوجھ پڑا۔ بجٹ خسارہ بڑھ گیا اور ملک کے قرضوں کا بوجھ بھی۔ پیپلزپارٹی کی یہی بُری کارکردگی تھی جو دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں اسکی شکست کا باعث بنی۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ سے اسکا صفایا ہوگیا۔ وہ اندرون سندھ کی ایک علاقائی جماعت بن کر رہ گئی۔
اب مسلم لیگ (ن) کا دور(2013-18) یاد کیجیے۔ ن لیگ کا بڑا انتخابی وعدہ تھا کہ وہ چند ماہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم کردے گی۔ شہباز شریف نے پہلے تین ماہ اور بعد میں ایک سال میں لوڈ شیڈنگ ختم کرنے کے بلند بانگ وعدے کیے تھے۔ لیکن ن لیگ کے پہلے تین سال تک اچھی خاصی بجلی کی لوڈ شیڈنگ جاری رہی۔ بلکہ اسکا دائرہ سندھ اور کراچی تک پھیل گیا۔ میڈیا میں شہباز شریف اور ن لیگ کو طعنے دیے جاتے تھے۔ ان کے پرانے دعووں پر مبنی ویڈیو کلپ چلا کر انکا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ البتہ اس دوران ن لیگ کی حکومت نے بجلی کے منصوبے لگانے شروع کیے۔
جوں ہی یہ منصوبے مکمل ہوئے ن لیگ کے آخری دو برسوں میں لوڈ شیڈنگ کم ہوگئی۔ نواز شریف نے حکومت سنبھالتے ہی آئی ایم ایف سے قرض لینے کا معاہدہ بھی کیا تھا اور بجلی کے نرخ پچاس فیصد تک بڑھا دیے تھے۔ ن لیگ نے ائیرپورٹس، موٹرویز اور اسلا م آباد کی سرکاری عمارتیں گروی رکھ کر بھاری کمرشل نرخوں پر قرضے لیے۔ درآمدات کے دروازے پٹ کھول دیے جس سے تجارتی خسارہ سینتیس ارب ڈالر سالانہ کی ریکارڈسطح تک پہنچ گیا۔ یہ خسارہ قرضوں کے ڈالرز لیکر پورا کیا گیا۔
برآمدات پچیس ارب ڈالر سے کم ہوکر بیس ارب ڈالر تک آگئی تھیں۔ اس پر مستزاد ن لیگی حکومت نے بیس ارب ڈالر سے زیادہ مارکیٹ میں ڈالے تاکہ پاکستانی روپیہ کی قدر مصنوعی طور پر اونچی رہے۔ ن لیگ کے آخری سال(2017)میں چینی پر سبسڈی دینے پر بیس ارب روپے لٹادیے گئے۔ ن لیگ کو پتہ تھا کہ حالات اس رخ پر جارہے ہیں کہ اسکی آئیندہ حکومت نہیں بنے گی تو بجٹ خسارہ کی پرواہ کیے بغیر اتنی زیادہ سے زیادہ رقم خرچ کرو کہ آنے والی حکومت کو لینے کے دینے پڑ جائیں اور ایسا ہی ہُوا۔
عمران خان نے جب اگست دو ہزار اٹھارہ کو وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تو ملک بیرونی ادائیگیوں کے قابل نہیں تھا۔ زر مبادلہ موجود نہیں تھا۔ ڈیفالٹ (نادہندگی) کی تلوار لٹک رہی تھی۔ اگر ایسا ہوجاتا تو پاکستان کے روپیہ کی قیمت تین چار سو روپے تک گر جاتی۔ عمران خان نے وعدہ کیا تھا کہ وہ بیرونی قرضے نہیں لیں گے لیکن ملک اس پالیسی کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ وہ زرمبادلہ مانگنے سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور چین گئے۔ ڈالروں کا انتظام کیا۔ ملک نادہندگی سے بچ گیا۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کیا تاکہ دیگر عالمی ادارے جیسے عالمی بینک اور ایشیائی ترقیاتی بینک وغیرہ بھی پاکستان کی ترقیاتی امداد جاری رکھیں۔ آئی ایم ایف کی ایک اہم شرط پوری کرتے ہوئے پاکستانی روپے کی مصنوعی قیمت کو اسکی حقیقی سطح پر لایا گیا۔ ڈالر کے مقابلہ میں روپے کی قدر کم کردی گئی۔ اس سے مہنگائی کا سیلاب آگیا۔ گزشتہ اڑھائی برسوں میں اشیائے ضرورت کی چیزوں میں پچاس سے ایک سو فیصد تک اضافہ ہوا ہے۔ غریب تو غریب، متوسط طبقہ کی چیخیں نکل گئی ہیں۔ قوت ِخرید تقریباً آدھی رہ گئی ہے۔ رہی سہی کسر اس سال کے شروع میں پھیلنے والی کورونا وبا نے پوری کردی۔ پوری دنیا میں مہینوں کارخانے، بازار بند رہے۔ بڑے بڑے ملکوں کی معیشتیں مندی کا شکار ہیں۔
عمران خان کا پہلا سال تو ڈیفالٹ سے بچنے بچانے کے باعث مشکل تھا۔ امید تھی کہ دوسرا برس ترقی کا سال ہوگا لیکن یہ کورونا وبا کی نذر ہوگیا۔ گو پاکستان کا حال انڈیا ایسا خراب نہیں ہوا لیکن معاشی تنگدستی تو بہرحال ہے۔ یہ آئیڈیل وقت ہے کہ اپوزیشن جماعتیں حکومت پر لعن طعن کریں اور اسکے خلاف عوام کو بھڑکائیں۔ وہ ایسا ہی کررہی ہیں۔
عام لوگ گہرائی اور پس منظر میں جانا پسند نہیں کرتے۔ وہ فوری نتیجہ چاہتے ہیں۔ لیکن ملک کے جوحالات اسوقت ہیں وہ گزشتہ دس بیس سال کی پالیسیوں کا نتیجہ ہیں۔ ہتھیلی پر سرسوں نہیں جما کرتی۔ ہر منتخب حکومت کو اپنی کارکردگی دکھانے کے لیے پانچ برس کی پوری مدت ملنی چاہیے۔