گزشتہ پندرہ برسوں میں دو ہزار سے زیادہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد فرقہ وارانہ دہشت گردی کے حملوں میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ تاہم ہزارہ تنظیموں کے مطابق قتل کیے جانے والے افراد کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔ اگلے روز کوئٹہ کے قریب کوئلے کی کان میں کام کرنے والے گیارہ مزدوروں کو اغوا کرکے بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ ان سب کا تعلق ہزارہ قبیلہ سے تھا۔ ایک شدت پسند تنظیم داعش کے نام سے بیان جاری ہوا کہ یہ واردات انہوں نے انجام دی ہے۔
اللہ بہتر جانتا ہے کہ اس طرح کے بیانات کتنے معتبر اور سچے ہوتے ہیں کہ کوئی انکی تصدیق نہیں کرسکتا۔ کوئی بھی گروہ یا ادارہ فرضی نام اختیار کرکے میڈیا میں بیان جاری کرسکتا ہے۔ ہزارہ افراد کو خود کش حملوں، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکوں کے ذریعے طویل عرصہ سے نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ برس اپریل میں کوئٹہ کی سبزی منڈی میں دھماکہ ہوا تھا جس میں ہزارہ برادری کے بیس افرادموت کے منہ میں چلے گئے تھے۔ یہ قتل و غارت تو اس وقت سے ہورہا ہے جب داعش کا افغانستان میں وجود بھی نہیں تھا۔ اس دہشت گردی کو شروع ہوئے پندرہ برس گزر گئے لیکن ریاست اسے مکمل طور پر روکنے میں ناکام ہے۔ یہ ہمارے انٹیلی جنس اداروں اور سیکیورٹی ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔
ہزارہ برادری نسلی طور پر منگول ہے۔ پشتونوں کی ہزارہ برادری سے دشمنی کا رشتہ تاریخی طور پر بہت پرانا ہے۔ افغانستان میں ہزارہ خاصی تعداد میں آباد ہیں گو اقلیت میں ہیں۔ اندازہ ہے کہ وہاں انکی آبادی تقریباًپینتیس لاکھ ہے۔ یہ لوگ زیادہ تر جن علاقوں میں رہتے ہیں انہیں ہزارہ جات کہا جاتا ہے جس میں غور، بامیان اور دائی کنڈی شامل ہیں۔ پشتون بادشاہ عبدالرحمان نے 1893 میں اسوقت تک خود مختاری کے حامل ہزارہ جات کو فتح کیا تو انکا قتل عام کیا۔
مورخین نے لکھاہے کہ عبدالرحمان نے نصف ہزارہ آبادی کو تہہ تیغ کردیا تھا۔ اپنی جان بچانے کو بڑی تعداد میں ہزارہ قبیلہ کے لوگ ایران اور بلوچستان ہجرت کرکے آباد ہوئے۔ افغانستان میں طویل عرصہ تک ہزارہ قبیلہ کے لوگوں کو غلام بنانے کا رواج رہا۔ جب غلامی ختم ہوگئی تب بھی ان کوعملی طور پر نچلے درجہ کے شہری کا درجہ دیا گیا۔ وہ خاکروب کا کام کرتے تھے یا ایسے کام کاج جو پشتون خودکرنا معیوب تصور کرتے تھے۔ افغانستان میں طالبان کے پانچ سالہ دورِ حکومت (1996-2001)میں بھی ان پر خاصا ظلم کیا گیا۔ خاصی تعداد میں قتل کیا گیا۔ ہزارہ برادری نے طالبان مخالف شمالی اتحاد کا ساتھ دیا۔ تاہم بیس سال پہلے تک پاکستان میں ہزارہ قبیلہ کے لوگ ہمیشہ امن امان سے رہے، پھلتے پھولتے رہے۔
سوویت یونین کے خلاف افغان جہاد کے دوران میں بھی پاکستان میں ہزارہ قبیلہ کبھی دہشت گردی کا نشانہ نہیں بنا۔ پاکستان میں انکی کُل آبادی تقریباً آٹھ لاکھ بتائی جاتی ہے۔ ان کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوا۔ کوئٹہ کی ہزارہ برادری میں تعلیم کی شرح دیگر ذاتوں اور قبیلوں کی نسبت زیادہ ہے۔ انکی بڑی تعداد خوشحال ہے اورکوئٹہ میں اچھی خاصی جائیداد کی مالک ہے۔ یہ لوگ اعلی حکومتی عہدوں پر بھی فائز رہے۔ پاکستان میں ہزارہ برادری کے خلاف دہشت گردی افغانستان کے راستے داخل ہوئی۔ دو ہزارایک میں جب امریکہ نے افغانستان پر حملہ کرکے طالبان حکومت ختم کی تو اسکے بعد سے کوئٹہ میں ہزارہ افراد کے قتل کا سلسلہ وقفے وقفے سے شروع ہوگیا۔ اسوقت الزام طالبان پر لگتا تھا یا کالعدم فرقہ وارانہ تنظیموں کو مورد ِالزام ٹھہرایا جاتا تھا۔
آجکل افغانستان میں طالبان اور کابل انتظامیہ کے درمیان اقتدار کی جو کشمکش چل رہی ہے اس میں ایران کی حمایت کابل کے حکمران اشرف غنی کے ساتھ ہے۔ ہزارہ قبیلہ اشرف غنی کا اتحادی ہے۔ افغانستان میں بھی ہزارہ قبیلہ کے مذہبی مقامات پر دہشت گردی کے حملے ہوتے رہتے ہیں۔ افغانستان کے خانہ جنگی کے ماحول میں اور تاریخی پس منظر میں اس دہشت گردی کی وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان میں یہ خون خرابہ کیوں نہیں رُک رہا؟ ہمارا ملک افغانستان کے جنگ و جدل کی بھینٹ کیوں چڑھ رہا ہے؟ ہم نے افغان بھائیوں کی خود مختاری اور آزادی کے لیے انکی مدد کی۔ اس کا صلہ ہمیں یہ مل رہا ہے کہ انہوں نے ہمارے ملک کا ہی امن وا مان غارت کردیا۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ اس وقت داعش اور تحریک طالبان پاکستان(ٹی ٹی پی)کو انڈین انٹیلی جنس ایجنسی استعمال کررہی ہے تاکہ پاکستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کا سلسلہ شروع ہو۔ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کیا جائے۔ کچھ ممالک کا مفاد یہ بھی ہے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات فرقہ وارانہ بنیادوں پر خراب ہوں تاکہ یہ ایک دوسرے کے قریب نہ آسکیں۔ یہ توجیہات درست بھی ہوسکتی ہیں لیکن غیر ملکی ایجنسیاں اس گھناؤنے کام کرنے کے لیے پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کوہی استعمال کررہی ہیں۔ ہمارے لوگ انکے ہتھے کیوں چڑھ رہے ہیں؟
حقیقت یہ ہے کہ بعض تنظیموں نے ایسا مذہبی نظریہ تخلیق کیا ہے اور اپنے ماننے والے لوگوں کے ذہنوں میں راسخ کردیا ہے کہ مخالف نظریہ کے لوگوں کو قتل کرنا ثواب ہے۔ ہماری ناکامی یہ ہے کہ اس نظریہ کو غلط ثابت کرنے اور اسلام کے امن پسند پیغام کو گمراہ لوگوں تک پہنچانے کی مؤثر کوشش نہیں کرسکے۔ اس خون خرابہ میں یقین رکھنے والی تنظیمیں پہلے ہی افغانستان، لیبیا اور شام کو تباہ و برباد کرچکی ہیں۔ اب ہمارے درپے ہیں۔
بلوچستان کا ہزارہ قبیلہ بہت زخم سہہ چکا ہے۔ انکے ہر دوسرے گھرسے ایک میت اٹھائی جا چکی ہے۔ اُن کا شکوہ ہے کہ جب بھی ان کے لوگ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھتے ہیں میڈیا میں ان کے نمائندوں کا موقف نشر نہیں کیا جاتا۔ ٹیلی ویژن کے ٹاک شوز میں ہزارہ قبیلہ کے مقامی رہنما ؤں کو مدعو کرکے ان کو بات کرنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔
مسلسل دہشت گردی سے تنگ آکر ہزارہ برادری کے افراد کوشش کرتے رہتے ہیں کہ ملک چھوڑ کر کسی اور ملک میں ہجرت کرجائیں۔ ہزاروں کی تعداد میں یہ لوگ پاکستان سے آسٹریلیا ہجرت کرچکے ہیں۔ اس قبیلہ کے علاوہ پاکستان کی دو اقلیتی برادریاں ایسی ہیں جن سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے خوشحال افراد کئی دہائیوں سے مسلسل ہجرت کرکے یورپ، آسٹریلیااور کینیڈا جاکر آباد ہورہے ہیں۔ انہیں بھی پاکستان میں ناموافق حالات اور امتیازی سلوک کا شکوہ ہے۔ کیا ہماری منزل مقصود ایسا ملک ہے جہاں کوئی اقلیت خود کو محفوظ نہ سمجھے؟ بانی ٔ پاکستان قائداعظم نے تو ایسی مملکت کا تصور نہیں دیا تھا۔